حوزہ نیوز ایجنسی | صاحب مطلع انوار علاّمہ سید مرتضیٰ حسین بتاریخ 18 ذی الحجۃ سنہ 1341¬ ھ مطابق یکم اگست سنہ1923ءمیں سرزمین لکھنؤ کے ایک علمی و مذہبی گھرانے میں پیدا ہوۓ ، آپ کے والد بھی بزرگ عالم دین تھے جنکو مولانا سید سردار حسین ابن مولانا سید اعجاز حسین نقوی کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد " مدرسہ عابدیہ" میں داخلہ لیا اسکے بعد" مدرسہ سلطان المدارس" میں گۓ وہاں سے صدرالافاضل کی سند لینے کے بعد مدرسہ ناظمیہ میں رہ کر ممتازالاٖفاضل کی سند حاصل کی ، مدرسہ کی تعلیم کے دوران شیعہ عربی کالج سے عماد الادب اور عماد الکلام کی اسناد حاصل کیں اور الٰہ آباد بورڈ سے عربی سے عالم ، فارسی سے کامل، اردو سے قابل پاس کیا ، لکھنؤ یو نیورسٹی سے فاضل ادب اور دبیر کامل کی اسناد حاصل کیں اور آخر میں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی ٖفاضل، منشی فاضل، اور اردو ٖفاضل کے امتحانات پاس کۓ۔
سنہ 1947ء میں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوۓ ، اللہ نے آپ کو ایک رحمت اور 5 نعمتوں سے نوازا آپ کے بیٹوں کے اسماء کچھ اسطرح ہیں:مولانا سید حسین مرتضی، سید جعفر مرتضی ، سید باقر مرتضیٰ ، سید عابد مرتضیٰ ، سید کاظم مرتضیٰ۔
مذہبی دنیا میں آپ نے اکابر علماء سے کسب فیض کیا جن میں سے : آیت اللہ سید ابرار حسین پاروی،نادر ۃ الزمن علامہ ابن حسن نونہروی، مفتی سید احمد علی ،علامہ سید حامد حسین ،ظہیر الملت سید ظہور حسن ،آیت اللہ سید کلب حسین، ناصر الملت آیت اللہ ناصر حسین ، آیت اللہ سید محسن نواب اور مفتی سید محمد علی وغیرہ کے اسماء سر فہرست ہیں۔
آپ کو آیۃ اللہ سید شہاب الدین نجفی مرعشی ، شیخ محمد محسن آغا بزرگ تہرانی، سید محمد محسن لکھنوی اور دوسرے کئی علماء نے اجازات روایت مرحمت کۓ۔
تعلیم سے فراغت کے بعد رستوگی پاٹ شالہ نامی اسکول اور شیعہ کالج اسکول کے سیکشن میں استاد رہے ، اسی دوران وہ گھر پر تفسیر و حدیث، فقہ و کلام ، منطق و فلسفہ، اور تاریخ و ادب کا درس دیتے رہے، اسکے علاوہ ادبی حلقہ میں بھی موصوف نے جو مرتبہ حاصل کیا وہ آپ کے ہم عصرافراد کیلۓ قابل رشک ہے، ادب میں غالبیات کے ماہر تھے اور غالب کی صد سالہ برسی کے موقع پر روس میں ہونے والے بین الاقوامی سمینار میں محققین نے متفقہ طور پر فاضل لکھنوی کے مستندترین ماہر ہونے کی سند دی اور انکے کاموں کو لوگوں کیلۓ نمونہ قرار دیا ۔
آپ نے تبلیغ کے سلسلے سے عراق، شام ، لبنان ، سعودی عرب ، بنگلہ دیش اور امریکہ کے سفر کۓ تھے۔
موصوف کتابوں کے عاشق تھے اور کتابوں کے ساتھ زندگی گزارتے تھے۔ آپ نے گھر میں ہی بیس ہزار کتابوں پر مشتمل ایک کتب خانہ قائم کیا تھا جسکو بعد میں لکھنؤ میں رہتے ہوۓ المکتبۃ المجلسیہ کے نام سے عمومی کتب خانہ قرار دے دیا ، اس کتب خانہ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس میں ہفتہ یا مہینہ میں ایک علمی گفتگو ضرور ہوتی تھی جسمیں اہل علم شرکت کرتے تھے ۔
آپ کو تصنیف و تالیف سے بہت زیادہ دلچسپی تھی چنانچہ اتنی مصروفیات کے باوجود تقریباً 300 کتابیں تالیف کیں جن میں سے 225 کے نام معلوم ہیں ، سو کتابیں چھپی ہیں ، تقریباً 102 غیر مطبوعہ ہیں ، اور 23 مفقود ہیں، باقی کا حال نہیں معلوم، جوانی کے سن میں ہی قلم اٹھا لیا تھا اور دینی ، تاریخی اور ادبی موضوعات پر متعدد کتابیں اور مقالات لکھے ، 16 سال کی عمر میں " کتاب ریاض المسائل" پر اجتہادی حاشیے لگاۓ اور "معالم الاصول" کا اردو میں شرح کے ساتھ ترجمہ کیا، ان دو کتابوں کی وجہ سے آپ کو اساتذہ کی جانب سے داد وتحسین سے نوازا گیا ، تذکرہ علماء کے موضوع پر کتاب مطلع الانوار تحریر کی جسکے سبب آپ کو ایک خاص شہرت حاصل ہوئی۔
اسکے علاوہ آپ کے آثار میں سے: تفسیر مرتضوی، تاریخ تدوین حدیث و شیعہ محدثین، خطیب قرآن، جہادحسینی، تذکرہ ریاض الفردوس، انتخاب آتش، انتخاب ذوق ، اسلام میں خواتین کے حقوق اور اوصاف الحدیث کے اسماء سر فہرت ہیں ، ان کتابوں کے علاوہ آپ کے بے شمار تحقیقی مقالے، علمی ، ادبی اور مذہبی رسالوں میں طبع ہوۓ اور اردو عربی انسائیکلو پیڈیا میں موجود ہیں تصنیف و تالیف کا یہ سلسلسلہ زندگی کی آخری سانسوں تک جاری وساری رہا ۔
تقسیم ہند کے بعد سنہ 1950ءمیں پاکستان تشریف لے گۓ اور ساکن لاہور ہو گۓ وہاں جاکر بھی اپنی سیاسی، اجتماعی، علمی اور دینی فعالیت کو جاری و ساری رکھا ، وہاں جاکر دینی مدارس کی ضرورت محسوس کی ،چنانچہ جامع المنتظر لاہور، جامعہ امامیہ اور مدرسۃ الواعظین کے قیام میں نمایاں کردار ادا کیا اس کے علاوہ امامیہ مشن لاہور ، ادارہ معارف اسلام پاکستان وحسینی مشن راولپنڈی کی تاسیس و توسیع میں اہم کردار ادا کیا، لاہور میں آپ کا ایک کتب خانہ ہے جس میں تقریباً 5500 چھپی ہوئی کتب اور 300 مخطوطات موجود ہیں ۔
مذکورہ صفات کی حامل شخصیت "میوا اسپتال لاہور "میں اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی اپنی آخری تصنیف یعنی تفسیر مرتضوی لکھنے میں مشغول تھی،ٍاور موصوف اسی حال میں 27 ذی الحجۃ 1407 ھ مطابق 23 اگست 1987ء میں دار فانی سے رخصت ہوگۓ ، آپ کی وفات کی خبر پاکستان کے ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے نشر کی گئ پاکستان اور دیگر ممالک کی علمی ، دینی اور سیاسی شخصیات یہاں تک کہ پاکستان کے رئیس جمہور اور وزیر اعظم نے بھی تعزیتی پیغام ارسال کۓ ۔
نماز جنازہ میں بے شمار شیعہ سنی علماء اور کثیر تعداد میں عوام نے شرکت کی شیعہ سنی دونوں طریقوں کے مطابق نماز ادا کی گئی ،نماز جنازہ کے بعد ہزار آہ و بکاء کے ہمراہ جنازہ کو " شاہ کمال لاہور" نامی قبرستان میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج3، ص 247دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2020ء
ویڈیو دیکھیں: