۲۶ شهریور ۱۴۰۳ |۱۲ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 16, 2024
مولانا محمد حسین آزاؔد

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | شمس العلماء مولانا محمد حسین آزاؔد بتاریخ 18 ذی الحجہ سن 1245ہجری بمطابق 10 جون سن 1830عیسوی میں ہندوستان کے دار السلطنت "دہلی" کی سرزمین پر پیدا ہوئے۔ مولانا کو آزاؔد دہلوی کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ موصوف کے والد "مولوی محمد باقر" اپنے زمانہ کے مشہور عالم دین اور سیاستمدار تھے۔

مولانا آزاد کے خاندان میں نورانی سلسلہ موجود رہا جو کچھ اس طرح ہے: مولانا محمد حسین آزاؔد ابن مولوی محمد باقر ابن علّامہ آخوند محمد اکبر ابن علامہ محمد اشرف ابن علامہ آخوند محمد شکوہ۔ مولانا کا سلسلہ نسب جناب سلمان فارسی علیہ الرحمہ تک پہنچتا ہے۔

مولانا آزاؔد اُس نسل سے ہیں جو جناب سلمان فارسی کی نسل ایران کے مشہور شہر "ہمدان" میں آباد تھی۔ موصوف کے جدّ بزرگوار یعنی آیت اللہ آخوند محمد شکوہ، بادشاہ عالمگیر کے زمانہ میں ہمدان سے دہلی تشریف لائے تھے۔

مولانا آزاؔد اپنی ابتدائی تعلیم سے فراغت کے بعد دہلی یونیورسٹی میں پہنچے، اس یونیورسٹی میں مولوی نذیر احمد، مولوی ذکاء اللہ اور پیارے لال آپ کے ہمدرس قرار پائے۔ مولانا موصوف کی بہت زیادہ تعریف و توصیف ملتی ہے یہاں تک کہ بعض تذکرہ نگاروں نے یہ بھی لکھا ہے کہ مولانا آزاؔد جنون کے عالم میں بھی عقل مندوں سے بہتر تھے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موصوف نے جنون کی حالت میں بھی ایسے ایسے کام انجام دیئے کہ دانشور افراد بھی نہ کرسکے۔ مولانا آزاؔد نے نہ صرف یہ کہ میدان نثرمیں نمایاں کام انجام دیئے بلکہ میدان نظم میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ موصوف نے تاریخِ ادب کو ایک نئی سمت دی اور "آبِ حیات" نامی ایک کتاب تحریر کی جو انہیں سدا زندہ و پائندہ رکھے گی۔

مولانا کے تخلص "آزاؔد" سے صاف ظاہر ہے کہ آپ شاعری سے بھی دلچسپی رکھتے تھے۔ اردو ادب کی طرف آپ کا بہت زیادہ رجحان تھا۔ اردو میں اشعار لکھتے تھے اور اپنے اشعار کی اصلاح اپنے والد نیز اُس زمانہ کے مشہور شاعر "ذوقؔ" سے لیتے تھے۔

مولانا آزاؔد کے والد نے سن 1827عیسوی میں اردو اخبار کا رسمِ اجرا کیا جو دہلی میں اردو کا سب سے پہلا اخبار تھا۔ سن 1854عیسوی میں اس اخبار کی مدیریت مولانا آزاؔد کے نام ہوگئی۔ سن 1857عیسوی میں انگریزوں سے جنگ شروع ہوئی تو اس اخبار نے انگریزوں کے خلاف بہت زیادہ خبریں نشر کیں اور بہت زیادہ مضامین شائع کئے۔

انگریزوں کی مخالفت کے سبب اس اخبار کو مشکلات سے دوچار ہونا پڑا، انگریزوں نے مسلمانوں کے خلاف سازش شروع کردی اور مولانا آزاؔد کے والد "مولوی محمد باقر" انگریزی گولیوں کا نشانہ بن کر شہید ہوگئے۔ مولانا آزاؔد اس سازش سے نجات پاکر اپنے اہل خانہ کے ساتھ لکھنؤ کی طرف عازمِ سفر ہوئے۔

سن 1873عیسوی میں کرنل بالرائڈ نے "انجمن پنجاب" کے نام سے ایک انجمن بنائی، اس انجمن کی جانب سے محفلِ شعر سجائی جاتی تھی جس میں مصرعہ کے بجائے نظم کی دعوت دی جاتی تھی۔ اس بزمِ شعری میں مولانا آزاؔد اور مولانا حالیؔ مستقل شرکت کرتے تھے۔

مولانا موصوف نے کسبِ معاش کی تلاش میں کئی سال لکھنؤ میں گزارے لیکن کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا لہٰذا سن 1864عیسوی میں لکھنؤ سے لاہور کا رخ کیا اور وہاں پہنچ کر ایک بزرگ کی سفارش سے گورنمنٹ اسکول میں استاد کی حیثیت سے منتخب کر لئے گئے، جہاں ان کی ماہانہ تنخواہ پندرہ روپیہ مقرر ہوئی۔

مولانا آزاؔد مختلف علوم میں ماہر تھے لہٰذا ابھی کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ لاہور کے لوگ موصوف کے معتقد ہوگئے اور آپ کو مجتہد و رہنما کے عنوان سے قبول کرلیا۔

مولانا محمد حسین نے بہت سے رفاہی امور انجام دیئے مثلاً: دہلی میں موجود اپنے والد کے بنائے ہوئے امامباڑے کی از سر نو تعمیر کرائی۔ لاہور میں آزاؔد منزل کے نام سے ایک عمارت بنوائی

موصوف کی زیادہ تر کتابیں ضائع ہوگئیں، کچھ باقی بچی تھیں جو پنجاب یونیورسٹی میں دے دی گئیں، اس کے باوجود آغا محمد طاہر دہلوی کے پاس سوئیوں کتابیں موجود رہیں، آغا محمد باقر کےپاس بھی کچھ نوادرات موجود رہے۔

مولانا آزاؔد کی بے شمار تالیفات میں سے کچھ کتابیں اس طرح ہیں: آب حیات، شعرائے اردو، نیرنگِ خیال، سخندان فارس، قصص الہند، سیرِ ایران، دربارِ اکبری، نظمِ آزاؔد، تذکرہ آزاؔد، جانورستان، خمکدہ آزاؔد، دیوانِ ذوقؔ(مرتب)، لغتِ آزاؔد، جامع القواعد، قند پارسی، تذکرہ علمائے ہند، سنین اسلام، آموزگارِ فارسی، مکتوبات آزاؔد، افسانہ اکبر، شہزادہ ابراہیم، حکایاتِ آزاؔد، نگارستان فارس اور فلسفہ الٰہیات وغیرہ۔

مولانا موصوف کی نسل آپ کے بیٹے "محمد ابراہیم" کے ذریعہ آگے بڑھی، مولانا آزاؔد کی نسل کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ کی متعدد ازواج سے بہت سی اولاد پیدا ہوئی لیکن وہ زندہ نہ رہ سکی۔

آخرکار یہ مخزنِ علم و ادب، علوم و فنون کا مالک بتاریخ 10 محرم (روز عاشور) سن 1328ہجری بمطابق 22 جون سن 1910عیسوی میں جہانِ فانی سے جہانِ باقی کی جانب کوچ کرگیا اور نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد شہرِ لاہور میں موجود "کربلا گامے شاہ" میں سپردِ لحد کردیا گیا۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ھند – سایز دائرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج2، ص350، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .