۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
علامہ سعادت حسین خان

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی | علامہ سعادت حسین خان 21/صفر 1325 ہجری میں سر زمین امہٹ ضلع سلطانپور صوبہ یوپی پر پیدا ہوئے۔آپ کے والد کانام منور حسین خان تھا ۔ لوگ آپ کو افتخار العلماء کےلقب سے یاد فرماتے ہیں۔

افتخارالعلماء کے والدین نے آپ کا نام فقیر حسین رکھا تھا جو خاکساری ، انکساری اور امام حسین علیہ السلام سے والہانہ عقیدت کی عکاسی کرتا ہے۔ موصوف اسی نام سے اپنے گھر اور وطن میں مشہور ہوئے ۔ جب آپ ابتدائی تعلیم مکمل کرکے اعلیٰ تعلیم کے لئے لکھنؤ پہنچے تو آپ کے مدرسہ ناظمیہ کے استاد مولانا سید ہادی حسن نے آپ کا نام بدل کر سعادت حسین رکھ دیا پھر اس کے بعد آپ اسی نام سے مشہور ہوگئے۔

موصوف ایک زمیندار گھرانہ سے تعلق رکھتے تھے آپ کے جد اعلیٰ تعلقدار تھے اور 59 قریوں کے مالک تھے۔ لیکن جب 1857 عیسوی میں انگریزوں سے جنگ ہوئی تو سلطانپور بھی سب سے آگے رہا جس میں افتخارالعلماء کے پردادا ¬بختاورحسین خان بھی انگریزوں کے خلاف جنگ میں پیش پیش رہے۔ انگریزوں نے امہٹ کو توپوں سے اڑا دیا اور افتخارالعلماء کے پردادا کی زمینداری کو ضبط کرلیا۔

سعادت حسین خان صاحب¬ کو آپ کے چچا مولانا بختاور علی خان نے علوم دینیہ کی طرف متوجہ کیا تو موصوف فورا ً آمادہ ہوگئے۔ چنانچہ 1920 عیسوی مطابق 1340ہجری میں وطن سے چل کرسرزمین علم و اجتہاد لکھنؤ پر وارد ہوئے تو آپ کو ناصرالملت کی آغوش علم ملی اور انہیں کے زیر سایہ تحصیل علوم کا سلسلہ شروع کیا ۔ جامعہ ناظمیہ میں مقدماتی کتابیں پڑھیں۔اسکے بعد شیعہ عربی کالج ، سلطان المدارس اور لکھنؤ یونیورسٹی سے کسب فیض کیا ۔ آپ پر ناصرالملت کی نگاہ شفقت بہت زیادہ تھی، زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے ساتھ آپ کی تعلیم و تدریس کےمعقول انتظامات فرماتے تھے ۔

آپ نے طالبعلمی کے زمانہ میں الصراط نامی مجلہ کی ادارت کے فرائض چار سال تک انجام دیئے ۔مولانا محسن نواب ، مرزا احمد حسن اور مولانا ¬سید محمد سعید عبقاتی کے مشورے سے عربی ادب میں مہارت حاصل کرنے کے لئے نصیرالملت کی صدارت میں نادی الادباء کی بنیاد رکھی جس میں جامعہ ناظمیہ اور جامعہ سلطانیہ کے افاضل ہر ہفتہ جمع ہوتے اور عربی میں مقالے پڑھتے تھے اسکے علاوہ الادیب نامی عربی مجلہ بھی جاری کیا ۔
افتخارالعلماء لکھنؤ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد حیدرآباد میں ایک رئیس کے بچوں کے استاد مقررہوگئے اور اس نے ان کا خلوص، لگن اور محنت دیکھ کر ان کی طرف توجہ میں اضافہ کردیا اور آپ اس گھر کی فرد بن کر رہنے لگے ۔ جب آپ نجف اشرف جانے کی بات کرتے تو رئیس حیدرآباد اس گوہر نایاب کو اپنے سے جدا کرنے پر کسی طرح آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ موصوف کی نجف اشرف میں تحصیل کی تڑپ بڑھتی رہی تو اس نے آپ کی بے چینی سے متاثر ہو کر عراق جانے کا بندوبست کردیا جس کے بعد افتخار العلماء نے اپنے دل کی کیفیت کو ایک شعر میں یوں رقم فرمایا: جذبہ شوق چلالیکے مجھے سوئے نجف۔ تم چلو آئیں گے اس راہ میں آنے والے۔
افتخارالعلماء نے سنہ 1352 ہجری کے ماہ رجب میں عراق کا رخ کیا اور بارگاہ باب العلم میں پانچ سال سے زیادہ مشہور اساتذہ سے کسب فیض کیا یہاں تک کہ آپ جید اساتذہ کے درس خارج میں بھی شریک ہوتے رہے۔ آپ نے نجف اشرف کے قیام کے دوران تصنیف ، تالیف اور ترجمہ جیسےعظیم کار نامے بھی انجام دیے آیت اللہ العظمیٰ سید ابولحسن اصفہانی کی توضیح المسائل کا اردو میں ترجمہ کیا جو وسیلۃ النجات کے نام سے نجف اشرف میں چھپا تھا اور ساتھ ہی میں مقتل کی مشہور کتاب "ابصارالعین فی انصارالحسین"کا اردو ترجمہ کیا اور "تحقیق حق "کتاب بھی لکھی۔


آپ کے نجف اشرف کے اساتذہ میں، آیۃ اللہ شیخ ابراہیم رشتی، آیۃ اللہ شیخ عبدالحسین رشتی، آیۃ اللہ سید حسن بجنوردی، آیۃاللہ مرزا باقرزنجانی، آیۃ اللہ سید جواد تبریزی، آیۃ اللہ شیخ ضیاءالدین عراقی،اور آیۃ اللہ سید ابوالحسن اصفہانی وغیرہ کے نام لئے جاسکتے ہیں۔
علمائے کرام نے آپ کی عظمت کے اعتراف کے طور پر اجازوں سے نوازا جن میں سے آیت اللہ محسن الحکیم، آیت اللہ شہاب الدین مرعشی، آیت اللہ روح اللہ امام خمینی، اور آیت اللہ سید محمدرضا گلپائیگانی وغیرہ کے اسما ءقابل ذکر ہیں۔

مولانا کی تصانیف و تالیفات بہت زیادہ ہیں جن میں کتاب ضیاءالعین( در زندگانی میر حامد حسین صاحب عبقات )آٹھ جلدوں پر مشتمل ہے جن میں سے سات جلدیں چھپ چکی ہیں ،مصائب الشیعہ ، ترجمہ احقاق الحق، گناہان کبیرہ، مواعظ مسجد کوفہ، عظمت شہدائے کربلا، ترجمہ رسالہ حقوق امام زین العابدین قول جلیل در رد کتاب امام اسماعیل (بوہرہ مذہب حقیقت کے آئینے میں) ،نزھہ اثنا عشریہ کا خلاصہ ، مفتی محمد قلی طاب ثراہ کی تقلیب المکائدکا خلاصہ ، غفران مآب کی کتاب(" عماد الاسلام ")کا خلاصہ ، ("غیبت نعمانی") " کا ترجمہ وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں ۔
افتخار العلماء نے جہاں تصنیف اور تالیف میں نمایاں کردار ادا کیا ہے وہیں ہزاروں علماء، فقہا، دانشور، ادیب، محقق اور میدان شاعری کے شہسواروں کی تربیت کی۔ آپ کے شاگردوں میں امیر العلماء مولانا حمید الحسن لکھنؤی، حجت الاسلام مولانا روشن علی خان، حجۃ الاسلام مولانا محمودالحسن خان، سعیدالملت مولانا محمد سعید، مولانا مرزا محمد عالم، مولانا سید محمد اصغر، مولانا محمد حسین خان نجفی، مولانا سید علی ناصر سعید عبقاتی، مولانا ضیاء الحسن موسوی عبقاتی ، مولانا افتخار انصاری کشمیری ، مولانا مرزا محمد اطہر، مولانا بیدار حسین زیدی، مولانا سید عمران حیدر، مولانا سید احمد مظلوم سابق گورنر جھار کھنڈ ، مولانا شمشاد حسین (مقیم ناروے)، مولانا منتظر مہدی، علامہ سید علی اختر رضوی شعور گوپال پوری، اور راجہ محمود آباد امیر محمد وغیرہ کے اسمائے گرامی قابل ذکر ہیں۔
افتخارالعلماء اپنی زندگی میں بہت سے اداروں سے وابستہ رہے جن میں وثیقہ عربی کالج فیض آباد کے پرنسپل، علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ دینیات کے مستقل ممتحن، شیعہ کالج جونپور کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر، مدرسہ ایمانیہ ناصریہ جونپور کی مجلس انتظامیہ کے صدر، شیعہ کالج لکھنؤ کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے ممبر، شیعہ عربی کالج لکھنؤ کے پرنسپل، مدرسۃ الواعظین کی مجلس انتظامیہ کے ممبرہونے کے ساتھ الواعظ مجلہ کے نگران اعلیٰ اور واعظین کے ممتحن، حوزہ علمیہ مظفرنگر کے نگراں اور مجلس علماء کے صدر رہے۔تنظیم المکاتب۔ خطیب اعظم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ نے جب 1968 میں ادارہ تنظیم المکاتب کو قائم کیا تو سرکار ظفرالملت مولانا سید ظفرالحسن رہ کے علاوہ جن بزرگان نے آپ کی تحریک دینداری اور ادارہ تنظیم المکاتب کے سلسلہ میں آپ کی پشت پناہی اور ہمراہی کی ان میں سے ایک افتخارالعلماء تھے۔ سرکار ظفرالملت نے تا حیات ادارہ تنظیم المکاتب میں بحیثیت صدر رہے اور افتخار العلماء نائب صدر رہے۔ مولانا ظفرالحسن طاب ثراہ کی رحلت کے بعد پانچ برس سے زیادہ عرصہ تک افتخار العلماء تنظیم المکاتب کے نائب صدر رہے۔ افتخار العلماء قیام تنظیم المکاتب سے تا حیات ادارہ کے بنیادی ممبر تھے۔

افتخار العلماء نے اپنی زندگی کے آخری ایام سب سے بڑے داماد صغیر احمد خان کے ساتھ رستم نگر لکھنؤ میں گذارے، افتخار العلماء کے نواسوں میں مولانا ظہیر افتخاری، مولانا مہدی افتخاری کے علاوہ گوالٹولی کانپور کے امام جمعہ قاضی شہر مولانا علی عباس خان صاحب کے دو فرزند مولانا رضا عباس خان قم اور مولانا سعید عباس خان نائب امام جمعہ گوالٹولی کانپور ہیں۔ نیز مولانا حسین مجتبیٰ خان قم بھی ہیں نے آپ کی علمی میراث کو باقی رکھا۔

آخر کار 30/ ذی الحجہ 1409ہجری مطابق 3/اگست 1989 عیسوی کی شام غروب آفتاب کے وقت یہ علم و ہنر کا آفتاب غروب ہو گیا-

مؤمنین کی کثیر تعداد آپ کے شریعت کدہ پر جمع ہوگئی اور دوسرے دن صبح 9 بجے جنازہ کو شبیہ نجف لکھنؤ کے میدان میں لایا گیا ۔ آپ کی نماز جنازہ تین مرتبہ ادا کی گئی پہلی نماز جنازہ تاج العلماء مولانا محمد ذکی نے شبیہ نجف لکھنؤ کے میدان میں پڑھائی ۔ دوسری نماز جنازہ امیرالعلماء سید حمید الحسن نے روضہ کاظمین میں پڑھائی اور روح الملت مولانا سید علی ناصر سعید عبقاتی نے مصائب سید الشہدا بیان فرمائے،اور¬تیسری نماز جنازہ امہٹ ضلع سلطانپور کی جامع مسجد میں شام کے 5 بجے حجت الاسلام مولانا محمد حسین نجفی کی اقتدا میں ادا ہوئی-

اور مؤمنین کی آہ و بکا کے ہمراہ آپ کو حسینیہ بخشی خاں امہٹ میں سپرد خاک کردیا گیا آپکی مجلس چہلم سلطانپور میں منعقد ہوئی جس میں سفیر جمہوری اسلامی ایران )آقای ابراھیم بہنام دھکردی (نے شرکت کی آپکی مجلس چہلم سلطانپور اور لکھنؤ میں خطیب اکبر مولانا مرزا محمد اطہر نے خطاب کی ،لکھنؤ کی مجلس میں فرسٹ سکریٹری سفارت ایران دہلی نے شرکت کی اور نذرانہ عقیدت پیش کیا ۔

ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج8، ص89، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2020ء۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .