حوزہ نیوز ایجنسی | سراج العلماء علامہ مرزا الطاف حسین کلکتوی نے بتاریخ 8 محرم سن 1304ہجری بمطابق 9 جون سن 1886عیسوی میں سرزمین کلکتہ صوبہ بنگال پر پیدا ہوئے۔ موصوف کے والد "معیار العلماء مولانا مرزا محمد تقی " اور آپ کے دادا "قائمۃ الدین مرزا محمد علی" بھی اپنے زمانہ کے مشہور و معروف علماء و خطباء میں شمار کئے جاتے تھے۔ اسی طرح سراج العلماء کے بھائی "فاضلِ جلیل علامہ مرزا محمد نقی" بھی اپنے زمانہ کے مشہور عالم دین تھے۔
سراج العلماء کی ولادت، کلکتہ کے علاقہ "مٹیا برج" میں ہوئی؛ موصوف کی ولادت سے پورا محلّہ سرور کی محفل بن گیا اور آپ کے والدین کی خدمت میں تبریک و تہنیت کے پیغامات کا سلسلہ جاری و ساری ہوگیا۔
علامہ الطاف بچپن سے غیرمعمولی طبیعت کے مالک تھے، زکاوت و ذہانت، فہم و فراست اورسنجیدگی و متانت جیسے اوصاف حمیدہ موصوف کے وجود سے نمایاں تھے۔موصوف نےابتدائی تعلیم اپنے والد محترم کی خدمت میں حاصل کی پھروطن کے اسکول "قیصریہ" میں داخلہ لے لیا۔ سراج العلماء دس سال کی عمر میں شفقت پدری سے محروم ہوگئے لیکن تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔
کلکتہ کے جیّد اساتذہ سے کسب فیض کرنے کے بعد ذوقِ تعلیم کے تحت اپنی والدہ کے ہمراہ ہندوستان سے عراق کے لئے عازمِ سفر ہوئے اور کربلائے معلّیٰ پہنچ کر جوارِ حضرتِ عباسِ علمدار علیہ السلام میں وہاں کےمشہور و معروف علماء و افاضل کی خدمت میں زانوئے ادب تہہ کئے جن میں سے آیت اللہ سید کاظم بہبہانی، مفتی اعظم مولانا احمد علی مجتہد اور آیت اللہ سید ابوالقاسم موسوی خوئی وغیرہ کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں۔
علامہ الطاف ایک طولانی مدّت تک سرزمینِ عراق کی علمی فضاؤں میں سانس لیتے رہے، جب آپ عراق سے ہندوستان کی جانب واپسی کا ارادہ کرنے لگے تو کربلا اور نجف کے مشہور مراجع کرام میں سے گیارہ مراجع نے اجازات سے نوازا۔ جن میں سے آیت اللہ محمد کاظم طباطبائی، آیت اللہ شیخ عبداللہ مازندرانی، آیت اللہ شیخ الشریعہ آیت اللہ شیخ فتح اللہ اور آیت اللہ شیخ محمد حسین مازندرانی کے نام سرِ فہرست ہیں۔
نجف سے ہندوستان واپسی کے بعد سرزمینِ کلکتہ پر مشغول تبلیغ ہوئے۔ واجد علی شاہ کے بڑے صاحبزادہ "پرنس مرزا قمر قدر بہادر" نے "سراج العلماء" جیسے عظیم خطاب سے مزین کیا اور خلعت فاخرہ سے نوازا۔
علامہ الطاف مختلف سرکاری و غیر سرکاری مناصب پر فائز رہے مثلاً حکومت نے قاضی بنایا، کلکتہ میں آل انڈیا شیعہ کانفرنس کی انتظامیہ کمیٹی کے سکریٹری رہے، امامبارگاہ ہگلی کےمینجر رہے، سبطین آبادمیں موجود مبارک شاہی امامباڑہ کے مینجر رہے، ایجوکیشن کمیٹی مدرسہ عالیہ کلکتہ کے ممبر رہے، مدرسہ ناظمیہ اور شیعہ وقت بورڈ کے ممبر تھے اور اسی طرح دیگر سرگرمیوں کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔
اودھ کے شاہی خاندان سے نہایت عمیق روابط تھے، موصوف کے دادا اور والد کے حاصل کردہ حکومتی خطاب "قائمۃ الدین اورمعیار العلماء" گہرے تعلقات کا منھ بولتا شاہکار ہیں۔
موصوف اگرچہ بنگال میں پیدا ہوئے تھے لیکن اردو زبان میں بہت فصیح طریقہ سے گفتگو کرتے تھے۔ منبر سے خطاب، آپ کی فصاحت و بلاغت کا اعلان کرتا ہے۔ چونکہ ایک عرصۂ دراز تک ملکِ عراق میں قیام پذیر رہے تھے لہٰذا عربی زبان پر بھی مکمل تسلّط حاصل کرلیا تھا، آپ کی گفتگو میں آیات و روایات کا استعمال موصوف کی صلاحیت اور عربی زبان پر تسلّط کا منھ بولتا شاہکار ہے۔
سراج العلماء واقعاً علمائے معاصر کے چراغ ثابت ہوئے۔ میدان تبلیغ میں ابوذر غفاری اور میثمِ تمار کی سیرت پر عمل پیرا رہے یعنی ہمیشہ حق کا ساتھ دیا اور منبر سے حق گوئی کو اپنا شعار بنایا۔ موصوف کی فکر یہ تھی کہ ہمیشہ تمام حالات میں حق بیانی سے کام لیا جائے۔
موصوف نہایت سادہ مزاج اور سادگی پسند انسان تھے۔ لباس کے اعتبار سے دیکھا جائے تو معمولی لباس اور اگر غذا کے حساب سے دیکھا جائے تو عرف عام میں معمول کے مطابق پسند فرماتے تھے۔
سراج العلماء شاعری پسندمزاج کے حامل تھے یہی سبب ہے کہ موصوف کی زندگی میں شاعری کے ایک سے ایک نمونے دستیاب ہیں؛ انہوں نے صنف شاعری میں قصیدہ، منقبت، نوحہ، سوز، سلام اور نظم وغیرہ میں طبع آزمائی کی ، نمونہ کے طور پر علامہ کا ایک شعر کچھ اس انداز سے ہے: ؎
رکھے جو قدم دوشِ پیمبر پہ علی نے - نقشِ کفِ پا تاج بنا عرشِ علیٰ کا
مولانا کی باتیں منطقی، فلسفی اور حکیمانہ ہوتی تھیں۔ آپ کی زبان سے کبھی ایسی کوئی بات سننے میں نہیں آئی جو بے معنی اور بیہودہ ہو۔ اکثر گفتگو منطقی ہوتی تھی جو ان کی صلاحیت کو آشکار کرتی تھی۔
نکاح خوانی میں آپ کا خطبہ عقد زبان زدِ خاص و عام تھا، جب آپ خطبہ پڑھتے تو تمام حاضرین پر عجیب وجد طاری ہوجاتا تھا جس کا اعتراف ناصرالملت علامہ ناصر حسین موسوی نے بھی کیا ہے۔
خداوندعالم نے علامہ الطاف کو چار نعمتوں اور تین رحمتوں سے نوازا، نعمتوں کے نام کچھ اس طرح ہیں: مرزا جواد حسین آخوند، مرزا مجتبیٰ حسین عالم اور ان کے علاوہ دو نعمتیں بچپن کے عالم میں ہی پیاری ہو گئیں۔
آخرکار یہ علم و عمل کا چراغ جس کو سراج العلماء کہا جاتا تھا، زمانہ کے طوفانوں کا مقابلہ کرتے کرتے 13 محرم سن 1394ہجری بمطابق 24جنوری سن 1974عیسوی میں گل ہوگیا اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد مومنین کی آہ و بکا کے ساتھ مٹیا برج کی جامع مسجد کے فولادی دروازہ کے نزدیک سپردِ لحدکردیا گیا۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ(دانشنامہ علمای شیعہ در ھند – سایز دائرۃ المعارف)، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص204، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی، 2023ء۔
ویڈیو دیکھیں: