تحریر: عادل فراز
حوزہ نیوز ایجنسی| عہد واجد علی شاہ میں ہنومان گڈھی کا سانحہ بھی تاریخی اہمیت کا حامل ہے جس نے اودھ میں سیاسی اور سماجی انتشار کو ہوا دی۔اس واقعے کے پیچھے انگریزوں کی سازشی ذہنیت کار فرما تھی۔ حکومت اودھ اس پورے معاملے میں تذبذب کا شکار تھی۔اگر بادشاہ مسلمانوں کی حمایت کرتے تو ہندو انہیں جانب دار اور ظالم کہتے اور اگر ہندوئوں کی طرف داری کرتے تو مسلمان انہیں دین سے غداری کا الزام عائد کر دیتے تھے۔
دوسرا مسئلہ انگریز سرکار کی سیاسی حکمت عملی سے نبردآزمائی کا تھا۔انگریز چاہتے تھے کہ اس نزاع کو زیادہ فروغ حاصل ہوتاکہ ہندواور مسلمانوں کی نگاہ میں اودھ کی حکومت کا وقار مجروح کیاجاسکے اور اس طرح کمپنی میں اودھ سلطنت کے انضمام کی راہ ہموار ہوسکے۔اس بناپر بادشاہ فریقین کے خلاف کاروائی میں ہمیشہ پس وپیش کا شکار رہے۔سلطان العلما حکومت کے رویّے سے ناخوش ضرورتھے مگر انہیں بھی یہ علم تھاکہ بادشاہ کس قدر ذہنی کشمکش میں مبتلاہیں،اس بنا پر انہوں نے کبھی حکومت کے رویے کی علی الاعلان تنقید نہیں لیکن مولوی امیر علی کی حمایت سے دست بردار بھی نہیں ہوئے۔ مولوی امیر علی کے قیام کے متعلق راجہ درگاپرشاد لکھتے ہیں:
مولوی امیر علی ساکن آمیٹھی استدراک این واقعہ نمودہ، بہ تقاضائی اجل بجنگ ہندوان وانہدام معبد ایشان کمر بست ورایت اجتہاد برافراشت از شریف ورذیل جمعی قریب نہصد کس در ظل رایتش فراہم آمدند.‘‘(بوستان اودھ از راجہ درگاپرشاد ص۱۱۱)
ہنومان گڈھی کے متعلق ہندوئوں کا عقیدہ یہ ہے کہ لنکا کی فتح کے بعد مہاراج رام چندر جی نے اپنے سرداروں کے متعلق کچھ مقام کئے تھے۔چنانچہ یہ مقام ہنومان جی کےلئے مختص ہواجو قلعہ کا پھاٹک تھا۔لیکن ایودھیا کی خرابی اور امتداد زمانہ کے ساتھ صرف اس قدر نشان باقی رہاکہ ایک املی کا پیڑ تھاجس کے نیچے ہنومان جی کی پوجا ہوتی تھی۔نواب صفدرجنگ کے زمانے میں وہاں ایک فقیر ابھے رام تھا جس نے دعویٰ کیاکہ ہنومان جی نے خواب میں اُسے درشن دئیے اور مندر تعمیر کرنے کی ہدایت کی۔اسی زمانے میں نواب سخت بیمار ہوئے اور انہوں نے ابھے رام سے صحت یابی کے لئے دعاکی التماس کی۔اتفاق یہ کہ نواب کو اس کی دعاسے صحت ہوگئی۔اس سے خوش ہوکر نواب نے ۱۱۶۴ھ میں اس کو مندر بنانے کی اجازت دیدی اور خطیر رقم سے اس کی اعانت بھی کی۔ایودھیا وہ شہر ہے کہ جہاں مختلف مسجدیں اور امام باڑے موجود تھے۔رام جنم بھومی اور بابری مسجد کانزاع اس وقت بھی موجود تھا۔ہندوئوں نے اس مسجد کے صحن میں بھی پرستش شروع کردی تھی اور ایک مسجد رام گھاٹ پر واقع تھی جس کو مسمار کرکے اس کی اینٹوں سے مندر بنایاجانے لگا۔۱۲۷۱ھ عہد واجد علی شاہ میں شاہ غلام حسین نے مولوی محمد صالح کی مدد سے مسجد کو دوبارہ تعمیرکرنے کاعزم کیا۔انہوں نے مسجد کی تعمیر کے لئے جہاد کا اعلان کیا اور مسلمانوں کو اپنے جھنڈے تلے جمع ہونےکی دعوت دی۔وہ لشکر ترتیب دے کر فیض آباد کی طرف روانہ ہوئے اور پھر گاہے بہ گاہے ہندوئوں کے ساتھ ان کے جھگڑے ہوتے رہے۔ سلطان پور اور فیض آباد کے ناظموں نے انہیں اس ارادے سے باز رکھنے کی بہت کوشش کی مگرانہیں کامیابی نہیں ملی۔بادشاہ کو اس قضیہ کی خبرملی تو کوتوال مرزا منعم بیگ اور آغاعلی خان کو تحقیقات کا حکم ہوا۔ا س دوران شاہ صاحب اور ان کے حامی جو بہت کم تعداد میں رہ گئے تھے مسجد بابری میں مقیم ہوئے جس کی ہندوئوں نےمخالفت کی۔بیراگی اور جوگی ان کے خلاف متحد ہوئے اور آس پاس کے زمین داروں اور تعلقہ داروں نے بھی ان کی مدد کے لئے آدمی بھیج دئیے۔دس یا بارہ ذیقعدہ ۱۲۷۱ھ مطابق ۱۸۵۵ء کو شاہ صاحب نے مسجد بابری میں نماز جماعت پڑھانے کااعلان کیا اور ان کے تمام ساتھی وہاں جمع ہوگئے۔ ہندوئوں کو اس کی اطلاع ہوئی تو وہ درّانہ مسجد میں داخل ہوگئے۔اس موقع پر شہر کاکوتوال اور انگریزی افسر کے پیادوں نے مسجد کو محاصرے میں لے لیا۔بالآخر شاہ صاحب نے مطالبہ کیاکہ مسجد غیر محفوظ ہے اور ہنود اندرداخل ہوتے ہیں اس لئے مسجد میں کواڑ لگوادئیے جائیں ۔ان کا یہ مطالبہ بھی تسلیم نہیں کیاگیا۔آخر کار حکومتی افراد کی کمزوری کی بناپر دونوں فریق آپس میں بھڑ گئے اور بندوقیں چلنے لگیں۔چونکہ مسلمان تعداد میں کم تھے اس لئے انہیں بے دریغ قتل کیاگیا۔قرآن مجید کو پارہ پارہ کردیا گیااورمسجد مسلمانوں کے خون سے رنگین ہوگئی۔کوئی لاشوں کو دفنانے والا نہیں تھا۔دوسرے دن مرزا نثار حسین نے تمام مقتولین کواجتماعی قبر کھدواکر دفن کروایا۔ان کے قتل کی تاریخ ’بلغ العلیٰ‘ (۱۲۷۱ھ) سے نکالی گئی۔بعض تاریخوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہندوئوں نے امام باڑے کو مسمارکرکے ضریح اقدس کی بے حرمتی بھی کی۔(تفصیل کے لئے دیکھیے :تاریخ اجودھیااز کنور درگاپرشادبہادر ص۱۷تا۲۱۔نیز دیکھیں:تاریخ اودھ جلد۵ص۲۱۶)
اس واقعہ کے بعد حکومت اودھ بیدارہوئی اور تحقیقات کاحکم جاری ہوا۔ہندوئوں کے کہنے پر بادشاہ نے راجہ مان سنگھ اور آغائی علی خان ناظم کوایودھیا جانے کے لئے کہاتاکہ وہ اس معاملے کی تفتیش کرکے رپورٹ تیار کریں۔انہوں نے ہنودکے ساتھ گفت وشنید کی لیکن مسلمانوں کو ڈرادھمکاکر خاموش کرنے کی کوشش کی ، جس پر مسلمانوں میں حکومت کے خلاف غم وغصہ پنپنے لگا۔اس کے باوجود مسلمان صلح کے لئے راضی ہوگئے اور صلح نامہ تیارکرکے بادشاہ کے حضور روانہ کردیاگیا۔(بوستان اودھ ص۱۱۱تا۱۱۲)صلح کے باوجود مسجد کی بے احترامی اور مسلمانوں کے بہیمانہ قتل کے خلاف لوگوں کا غصہ کم نہیں ہوا،اس لئے انتقامی تحریک بھی کمزور نہیں پڑی۔
اس معاہدے کے بعد اودھ کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں نے جہاد کا ارادہ کیا اور یہ کہنے لگے کہ اگر اسی طرح ہماری مسجدوں کو توڑاجانے لگاتوکل یہ واقعہ کہیں بھی رونما ہوسکتاہے، اس لئے ہم پر جہاد فرض ہے۔لکھنؤ سے مولوی عبدالرزاق فرنگی محلی اور امیٹھی کے مولوی امیر علی نے مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دی اور ہزاروں لوگ ان کے پرچم تلے جمع ہوگئے۔وزیر علی نقی خاں کو اس کا علم ہواتو انہوں نے مولوی محمد یوسف کو بلواکر تادیب کی اورکہاکہ ہم علمائے فرنگی محل کا بے حد احترام کرتے ہیں اور اپنا استاد جانتے ہیں ، اس لئے اس غلغلہ کا فرنگی محل سےپیداہونامناسب نہیں ۔اس تادیب اور فہمائش کے بعد علمائے فرنگی محل نے مولوی عبدالرزاق کے گھر پر قیامت ڈھادی اور انہیں روکنے کے لئے کوششیں ہونے لگیں۔کچھ علماحکومت کی طرف سے امیٹھی روانہ ہوئے اور مولوی امیر علی کواس بارے میں سمجھایاکہ حکومت دوبارہ تحقیق کاحکم دے گی اور اگر مسجد ثابت ہوتی ہے تو اس کو تعمیر کروانے کی ذمہ داری بھی حکومت کے سپرد رہے گی۔نیز مسجد اور قرآن مجید کی بے ادبی اور مقتولین کاحساب بھی لیاجائے گا۔مولوی امیر علی اس پر راضی ہوگئے مگر جب ملاقات کا وقت آیاتو صرف مولوی عبدالرزاق حاضر ہوئے اور مولوی امیر علی نہیں آئے۔ بادشاہ نے مولوی عبدالرزاق کو خلعت دینا چاہامگر انہوں نے قبول نہیں کیا اور گھر لوٹ گئے۔بادشاہ نے مسجد تعمیر کرنےکا وعدہ کیامگر بعض سیاسی مصلحتوں کی بناپر وہ اپنے وعدے پر عمل نہیں کرسکے۔مولانا عبدالرزاق نے دوبارہ شہر سے نکل کر مولوی امیر علی کی مدد کے لئے جانا چاہامگر فوجی پہرے کی بنیاد پر شہر سے باہر نکلنا محال تھا۔کچھ دنوں کے بعد مولوی امیر علی کو بھی وزیر علی نقی خاں سے ملوایاگیا مگر وہ جہاد سے دست بردار نہیں ہوئے۔حکومت نےانہیں قید کرنے کا فیصلہ کیا مگر وزیر کے لوگوں نے اس کی سخت مخالفت کی۔
جہاد کی خبر عام ہوئی تو اودھ کے قرب ونواح سے بھی لوگ ان کے گرد جمع ہونے لگے۔ ریزیڈنٹ مسٹر اوٹرم صاحب نے بادشاہ سے ملاقات کرکے اس ہنگامے کو فروکرنے کے لئے کہا۔بادشاہ بھی چاہتے تھے کہ ہندوئوںاور مسلمانوں کے درمیان خونریزی نہ ہو، اس لئے انہوں نے راجہ مان سنگھ کے ذریعہ ایودھیا کے مہنت اور بیراگیوں کو لکھنؤ بلوایا۔دوسری طرف نواب احمد علی خان، مولوی غلام علی جیلانی اور مولوی غلام امام شہیداور مولوی فضل حق خیرآبادی ثالث مقرر ہوئے۔فریقین کو لکھنؤ طلب کرلیا گیا مگر گفت وشنید میں مسئلے کاکوئی حل نہیں نکلا۔مولوی نجم الغنی کے مطابق مولوی امیر علی نے ایک عرض داشت بادشاہ کے حضور روانہ کی جس میں پانچ دن کا وقت حکومت کودیاگیاتھاتاکہ وہ تحقیقات کرکے کارروائی کرے۔جن مولویوں کو حکومت نے مولوی امیر علی کی فہمائش اور ثالثی کے لئے بھیجا تھایہ عرض داشت انہی کے ذریعہ بادشاہ کی خدمت میں روانہ کی گئی۔
جاری.....









آپ کا تبصرہ