نیابت سے بادشاہت تک؛ نواب واجد علی شاہ اور ہندومان گڈھی سانحہ اور حکومت کا رویہ

حوزہ/اس عرض داشت میں شاہ غلام حسین اور ان کے ساتھیوں کے بہیمانہ قتل اور ایودھیا میں مقدس عمارتوں کی مسماری کی روئداد بیان کرتے ہوئے بادشاہ سے لڑائی میں ساتھ دینے کا مطالبہ کیاگیاتھا۔ انہوں نے سلطان العلماء سے بھی حمایت کا مطالبہ کیا اور ان کی مدح بھی کی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی امیر علی کو سلطان العلماء سے یہ توقع تھی کہ وہ لوگوں کو ان کی حمایت کی ترغیب دیں گے اور بادشاہ کو بھی اس طرف راغب کرنے کی کوشش کریں  گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

گزشتہ سے پیوستہ

اس عرض داشت میں شاہ غلام حسین اور ان کے ساتھیوں کے بہیمانہ قتل اور ایودھیا میں مقدس عمارتوں کی مسماری کی روئداد بیان کرتے ہوئے بادشاہ سے لڑائی میں ساتھ دینے کا مطالبہ کیاگیاتھا۔ انہوں نے سلطان العلماء سے بھی حمایت کا مطالبہ کیا اور ان کی مدح بھی کی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی امیر علی کو سلطان العلماء سے یہ توقع تھی کہ وہ لوگوں کو ان کی حمایت کی ترغیب دیں گے اور بادشاہ کو بھی اس طرف راغب کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس عرض داشت سے یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ مولوی امیرعلی اور ان کے ساتھی بادشاہ سے ہرگز بدگمان نہیں تھے، بلکہ انہیں حکومتی افراد سے شکایتیں تھیں ، جس کا ذکرمنظوم عرض داشت میں بھی موجود ہے۔اس منظوم عرض داشت میں اجودھیا میں رونما ہونے والے تمام واقعات کو بادشاہ کی خدمت میں بیان کرتے ہوئے ان سے مدد طلب کی گئی ۔ساتھ ہی اودھ میں شیعوں کے مجتہد قبلہ وکعبہ سلطان العلما آیت اللہ سید محمد رضوان مآبؒسے بھی حمایت طلب کی گئی ہے ۔بادشاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں:

امید ہے کہ شہنشاہ قبلۂ عالم

ابو المظفر ومنصور و خسرو عالم

سپہر رفعت قدسی صفات والا جاہ

خدیو کشور ہندوستاں فلک درگاہ

محب پنجتن پاک افتخار زمن

خلیفۂ سبحانی تاجدار زمن

جناب واجد علی شاہ ظلِ سبحانی

رئیس امتِ والا حسیب رحمانی

زبان فیض مبارک سے یوں کریں ارشاد

کہ کافران اودھ پر شتاب ہوئے جہاد

وزیر حضرت خاقاں حضور عالم دیں

کریں وہ دستخط اس امر پر بصد تمکیں

مسلمان گفت وشنید کے لئے لکھنؤ آئے مگر مسئلے کا تصفیہ نہیں ہوسکا۔انہوں نے وزیرعلی نقی خاں اور راجہ مان سنگھ پر یہ الزام عائد کیاکہ انہوںنے ہندوئوں کی بہت آئوبھگت کی مگر مسلمان فریق کی بے احترامی کی گئی۔اس پر علی نقی خاں کی رپورٹ نے بھی اختلاف پیداکیاجس میں یہ کہاگیاتھاکہ جس زمین پر فریقین کے درمیان نزاع ہے وہ دراصل مندر کی ملکیت ہے۔لہٰذا حکومت سے بدگمان ہوکر مولوی امیر علی جہاد کی غرض سے فیض آباد کی طرف روانہ ہوگئے۔وزیر علی نقی خاں کے بارے میں کہاجاتاہے کہ انہوں نے ریزیڈنٹ سے مل کر فوج کو ہندوئوں کی مدد کے لئے روانہ کیا۔مگر حقیقت حال یہ ہے کہ علی نقی خاں خوںریزی روکنا چاہتے تھے اور فساد کے حق میں نہیں تھے۔ہندوگفت وشنید پر آمادہ تھے مگر مولوی امیر علی کا جذبۂ جہاد انہیں صلح کی ترغیب نہیں دے رہاتھا۔ریزیڈنٹ نے بھی صاف الفاظ میں کہاکہ اگر مولوی صاحب کو نہ روکا گیاتو ملک میں بڑافساد رونماہوجائے گا اور حقیقت حال بھی یہی تھی۔علی نقی خاں نے اس فساد کوروکنے کی یہ راہ نکالی کہ ایک محضرتیار کرکے اُس کو دستخط کے لئے تمام علمائے اہل سنت کو بھیجااور ان سے مولوی امیر علی کے خلاف فتوے لئے گئے تاکہ مسلمانوں کی جماعت کو ان کی حمایت سے روکا جاسکے۔تمام علمائے فرنگی محل نے مولوی امیر علی کی حمایت اور حکومت وقت سے بغاوت کو حرام قراردیا۔یہ محضرنامہ سلطان العلما کے پاس بھی بھیجاگیا مگر آپ نے اس پر دستخط نہیں کئے اور کہاکہ مولوی امیر علی کی تحریک کوکمزورکرنا کسی طوربھی جائز نہیں ۔ان کے دستخط نہ کرنے کی بناپر وزیر علی نقی خاں بہت چیں بہ جبیں ہوئے اورسلطان العلماکے خلاف بادشاہ کے کان بھرے۔وزیر نے تمام علمائے عامہ سے دستخط لے کر محضرکوعام کردیا۔اس محضر کا اثریہ ہواکہ مسلمانوں کی بڑی تعداد مولوی امیر علی کوچھوڑ کرچلی گئی۔مولوی حسین احمد، مولوی غلام جیلانی، مولوی محمد یوسف،، مولوی فضل حق خیرآبادی اور مولوی سعداللہ نے ان کے قتل کے فتوے پر مہر لگائی اور ان کے قیام کو مسلمانوں کےمفاد میں ناجائز قراردیا۔بعض علمائے دہلی نے بھی اس پر دستخط کئےاوراولی الامر کی اطاعت کو واجب قراردیا۔

بعض شواہد سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ جب وزیر علی نقی خاں اور بادشاہ کو یہ یقین ہوگیاکہ مولوی امیر علی ہماری بات پر کان نہ دھریں گےتو انہوں نے سلطان العلماسے درخواست کی کہ وہ مولوی صاحب کواس امر سے بازرکھنے کی کوشش کریں۔ا ن کے اصرارپر سلطان العلما نے متعددخطوط مولوی صاحب کی طرف روانہ کئے اورانہیں جہاد کے ارادے سے بازرہنے کی تلقین کی۔کچھ مورخین ان خطوط کو جعلی سمجھتے ہیں جیساکہ مولوی امیر علی نے بھی ان خطوط کے متن پر اعتبار نہیں کیا۔(تاریخ اودھ جلد۵ص۲۲۴تا۲۲۶۔نیز دیکھیے:بہارستان اودھ ص۱۰۳تا۱۰۴،نیز :حدیقۂ شہدااز مرزاجان ص۴۰تا۴۲)

بالآخر مسلمانوں کے انتشاراور حکومت کی عدم حمایت کی بناپر مولوی امیر علی اپنے ساتھیوں سمیت ۱۲۷۲ھ؁ مطابق ۱۸۵۵؁ء کو قتل کردئیے گئے۔مولوی امیر علی اور ان کے ساتھیوں کی موت کے بعد اودھ میں بے انتظامی پھیل گئی اور اس واقعہ کے تین ماہ بعد انتزاع سلطنت اودھ ہوا۔کسی نے دیوان حافظؔ سے یہ فال نکالی ؎

دیدی کہ خون ناحق پروانہ شمع را

چنداں اماں ندادکہ شب راسحر کند

بعض مورخین نے اس سلسلے میں واجد علی شاہ کے رویے کو مورد طنز وتشنیع بنایا اور مولوی امیر علی کے قتل کا الزام ان کے سرمنڈھنے کی کوشش کی۔جب کہ بادشاہ اس مسئلے کو سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر سلجھانا چاہتے تھے مگر مولوی امیر علی کا موقف یہ تھا کہ حکومت ہندوئوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ان کا استیصال کرے، جس پر بادشاہ ہرگز راضی نہیں ہوئے۔ اس بابت شمسؔ کہتے ہیں:’’بادشاہ چاہتے تھے کہ طرفین کا یہ جوش کم ہوتو واقعہ کی تحقیق کرکے مناسب حکم صادر کیاجائے۔مولوی امیر علی چاہتے تھے یا ہندوئوں کے قتل کا حکم ہویاہم کو جہاد کی اجازت دی جائے۔یہ دونوں باتیں ممکن نہ تھیں ۔بادشاہ کی تحقیق کو وہ ٹال مٹول سمجھتے تھے۔انہیں مختلف تدبیروں سے روکا گیامگر وہ نہ مانے اور کوچ کے لئے بول دیا۔شاہی فوج کو ان کے محاصرے کا حکم ہوا۔انہوں نے شاہی فوج پر حملہ کردیا۔معمولی جنگ کے بعد مولوی امیر علی اور ان کے ساتھی خاک وخون میں غلطاں ہوگئے۔‘‘(تاریخ لکھنؤ ازمولانا محمد باقر شمسؔ ص۵۱۹)

جاری....

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha