حوزہ نیوز ایجنسی| ۱۴ شوال ۱۲۷۲ھ مطابق ۱۸ جون ۱۸۵۶ء کو جناب عالیہ بذریعہ جہاز کلکتہ سے لندن کے لیے روانہ ہوئیں ۔تقریباً سو افرادذکور واناث ان کے ہم رکاب ہوئے اور سب کی تنخواہیں مقرر کی گئیں ۔جب یہ قافلہ اپنے حق کے مطالبے کے لئے روانہ ہوا تو عجیب بے سروسامانی کا عالم تھا۔ہر طرف شور ماتم برپاتھا۔ہر آنکھ گریہ کناں تھی۔جناب عالیہ کے ساتھ مرزا سکندر حشمت بہادر،مرزا ولی عہد بہادرحامد علی اورمولوی مسیح الدین خان کاکوروی استغاثے کے لئے روانہ ہوئے۔پانچ سو صندوق اسباب کے ہمراہ تھے۔
(نادرالعصر از منشی نول کشورص۱۳۲)رخصتی کا حال کمال الدین حیدر کی زبانی سنیے:’’وقت رخصت عجیب حشر محل سے برپاہوا۔ہر ایک کی آنکھ سے مسلسل دریائے بھاگی رت بہہ رہاتھا۔قریب وجوار کے رہنے والےسب سوتے سے جاگ اٹھے تھے ۔ہزار ہا زن ومرددردولت پر کھڑاہوگیاتھااور انقلاب زمانہ دیکھ کر از خود گم ہوگیاتھا۔ایساانقلاب تمام ہندوستان میں کبھی نہیں ہواتھاکہ خاندان شاہی کی عورتیں جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی دریانہ دیکھاتھاوہ ایسادوردراز کا سفر بحر ذخار کا اختیارکریں ۔خلاصہ یہ ہے کہ اول صبح جہاز نے لنگر اٹھایااور جب شاہی کوٹھے کے نیچے سے گذرنے لگاتو بادشاہ نے برآمدے میں کھڑے ہوکر اس قافلے کوخداحافظ کہا۔اس وقت طرفین کو عجیب صدمۂ روحانی ہوا۔‘‘ (سوانحات جلد۲ص۱۷۸)
۳۰ اگست ۱۸۵۶ء کو یہ قافلہ لندن پہونچا۔کپتان برڈ جو زمانۂ واجد علی شاہ میں اودھ کے نائب ریذیڈنٹ رہ چکے تھے اور الحاق اودھ کے مخالف تھے ،لندن میں جناب عالیہ کے مقدمے کی پیروی پر آمادہ ہوئے ۔ملکہ ٔ وکٹوریہ اور جناب عالیہ کی ملاقات بھی ہوئی جو بہت امید افزاتھی ۔مگر ۵۷ء کی بغاوت نے اس مذاکرات کو متاثر کیااور برطانیہ کے عوام اس قافلے سے بدگمان ہوگئے ۔بقول شیخ تصدق حسین :’’۵۷ء میں لکھنؤ میںغدروہنگامہ برپاہوگیاجس سے انگلستان کی مخلوق کو اس قافلے سے پرخاش سی ہوگئی کہ یہ سب فتنہ وفساد انہیں لوگوں کا ساختہ وپرداختہ ہے۔ یہ رنگ دیکھ کر آفتوں کی ماری اور فلک کی ستائی ملکہ ملک فرانس کے دارالسلطنت شہر پیرس چلی گئیں ‘‘۔(بیگمات اودھ از شیخ تصدق حسین ص۱۹۵)
اودھ بلوبک میں جو الزامات بادشاہ کی ذات پر عائد کئے گئے تھے ،واجد علی شاہ نے ان کا مدلل جواب تحریرکرکے کتابی شکل میں ولی عہد کے ذریعہ روانہ کیا۔لندن پہونچ کر مولوی مسیح الدین کاکوروی نے ایک کتاب بادشاہان اودھ کے حسن انتظام اور ان کی حمایت میں شائع کرکے انگریز افسروں کی خدمت میں پیش کی ۔ان کتابوں کا اثر محل اور دیوان میں بھی دیکھاگیا۔ان کتابوں کو پڑھ کر ڈاکٹر وی .ہفمین نے ۲۴ ستمبر ۱۸۶۴ء کو ایک خط بادشاہ کے نام روانہ کیا:’’میں نے آپ کی اور آپ کے سفیر کی کتابیں پڑھی ہیں اور ان کو پڑھ کر میں آپ کا اور آپ کے خاندان کا اس درجہ مخلص دوست اور ہم درد ہوگیاہوں کہ آپ کے سفیر کی کتاب کا جرمن زبان میں ترجمہ شائع کردیاہے اور اب آپ کی کتاب کا ترجمہ کررہاہوں ‘‘۔(بحوالہ سلطان عالم واجد علی شاہ از مسعود حسن رضوی ادیبؔص۲۹۰)
ملکہ کشور نے ملکہ انگلستان سے ملاقات کرکے اودھ کا قضیہ اور غیر منصفانہ الحاق کا مسئلہ بخوبی اٹھایا تھا۔ساتھ ہی اودھ کے سفیر نے پارلیمان کے اراکین کومقدمے کی تفصیلات فراہم کیں اور ان جلسوں میں تقاریر کرکے اودھ میں جاری مظالم کی حقیقت بیان کی۔ان کوششوں کا اثر صاف نظر آنے لگاتھا۔لندن کے عوام وخواص میں بھی بادشاہ کے تئیں ہمدردی اور حمایت کاجذبہ بڑھ رہاتھااور سلطنت کی واپسی کی امیدیں جاگ اٹھی تھیں ۔لیکن تبھی ہندوستان میں ۱۸۵۷ء کی بغاوت شروع ہوگئی اور انگریزوں کے قتل عام کی خبریں لندن پہونچنے لگیں جس سے بنابنایاکھیل بگڑ گیا۔کمال الدین حیدر لکھتے ہیں:’’دفعتاًاخبار فساد ہندوستان کوچہ بہ کوچہ کالشمس شائع ہوئے اور اہل شہر میں ایک تلاطم عظیم برپاہوگیااور خاص وعام کو اس قافلے سے ایک چشمک اور شماتت ہوگئی ۔یعنی یہ فساد انہیں کی بدولت ہواہے اور ان حضرات کو بھی عجیب طرح کاہراس اور یاس کلی پیداہوئی کہ ولایت غیر میں اس حالت بے بسی ،بے اختیاری میں دیکھیے ہم غریب الوطنوں پر کیا گذرتی ہے اور انجام کیاہوتاہے ‘‘۔(سوانحات جلد۲ص۳۸۴)
۵۷ء کی بغاوت شروع نہ ہوئی ہوتی تو یہ مسئلہ لارڈس آف ہائوس میں پیش ہوتااور اودھ حکومت کی بحالی بعید نہیں تھی ،مگر اس سے حاصل بھی کیاہوتا۔انگریز بادشاہ کی نقل وحرکت پر بھی پہرے بٹھلادیتے اور انہیں اپنی مرضی سے کوئی فیصلہ لینے کا بھی اختیار نہیں ہوتا۔حالات مزید دگرگوں ہوجاتے اور اودھ میں نیاسیاسی اور معاشی بحران جنم لیتا۔۱۸۵۷ء کے بعد انگریز پوری طرح ہندوستان پر قابض ہوگئے لیکن ان کے خلاف ہندوستانیوں کے دل و دماغ میں بغاوت کی چنگاری شعلہ بننے کی منتظر رہی ۔
انقلاب ۱۸۵۷ء کے بعد وہ عام ہم دردی کی کیفیت بھی بدل گئی اور لوگوں میں اس قافلے سے تنفر پیداہوگیا۔دیار غیر میں لوگوں کی بدلی ہوئی نگاہوں نے ملکہ کشور کے دل کو مزید مجروح کردیا۔صورت حال نے سلطنت کی واپسی کی امیدوں پر پانی پھیر دیاتھالہذانہوں نےواپسی کا عزم کرلیا۔بقول ادیبؔ:’’عام ہمدردی کی فضاشدید مخالفت میں تبدیل ہوگئی اور اس قافلے کو بے نیل ومرام واپس لوٹناپڑا‘‘۔(سلطان عالم واجد علی شاہ ص۲۹۰)
واپسی کا سفر ملکہ کشور اور انکے رفقاء کے لئے تکلیفوں سے بھراہواتھا۔ان سفری اذیتوں کی تاب نہ لاکر ملکہ کشور نے ۲۱ فروری ۱۸۵۷ء(۲۶ جمادی الثانی ۱۲۷۳ھ)کو پیرس میں انتقال کیا۔ان کے بعد مرزاسکندر حشمت بھی سلطنت کا داغ دل پر لے کر۸ مارچ ۱۸۵۷ء مطابق ۱۱رجب ۱۲۷۳ھ کو داربقاکی طرف کوچ کرگئے ۔
برجیس قدر کی تاج پوشی
۵جولائی ۱۸۵۷ءمطابق ۱۲ ذیقعدہ ۱۲۷۳ھ کو برجیس قدر تخت نشین ہوئے ۔اکیس ضرب توپوں کی سلامی ہوئی ۔(واجد علی شاہ اور انکا عہد از رئیس احمد جعفری ص ۴۸۸)سلطان العلما سید محمد رضوان مآبؒ نے تاج شاہی سرپر رکھ کر بادشاہت کا باقاعدہ اعلان کیا۔جنت مآبؒ نے بازوپر امام ضامن باندھا۔لیکن افسوس بغاوت انقلاب میں تبدیل نہیں ہوسکی ۔بیگم حضرت محل کے ساتھ جوشیلے اور جذباتی افراد کا جم غفیر تھاجو انگریزوں کی جنگی حکمت عملی اور جدیداسلحوں سے لیس فوج کے سامنے نہیں ٹھہر سکے ۔علمانے باضابطہ اس بغاوت کی حمایت نہیں کی کیونکہ شیعی علما’ غیبت امام میں جہاد جائز نہیں ‘کی مصلحت پر عمل پیرارہے ۔انہیں چاہیے تھاکہ اپنی حکومت کے دفاع کی کوشش کرتے مگر ان کی طرف سے کوئی مناسب اقدام نہیں کیاگیاجس کا نتیجہ یہ ہواکہ مذہبی خطوط پر عمل کرنے والے افراد اس بغاوت سے برگشتہ ہوگئے اور بیگم حضرت محل کو شکست کا منہ دیکھناپڑا۔انگریزی جاسوسوں کی کثرت نے بھی اپنا کرشمہ دکھلایا۔برجیس قدر بیگم حضرت محل کے ساتھ نیپال کی طرف چلے گئے تاکہ بغاوت کی چنگاری کو دوبارہ شعلۂ جوالہ میں بدلاجائے مگر پھر یہ ممکن نہیں ہوسکا۔بیگم حضرت محل اور برجیس قدر کی زندگی کے آخری لمحات عبرت ناک گذرے مگر ان کی استقامت اور جبروظلم کے سامنے سرتسلیم خم نہ کرنے کی جرأت نے انہیں تاریخ میں باوقار منزلت عطاکی۔









آپ کا تبصرہ