حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،آخری تاجدار اودھ واجد علی شاہ اختر اور بیگم حضرت محل کی آخری نشانی پروفیسر کوکب قدر سجاد علی مرزا کا بروز اتوارکولکاتا کے پیپریس اسپتال میں ۸۷ برس کی عمر میںانتقال ہوگیا۔ تقریباً ایک ہفتہ قبل ان کا کووڈ ۱۹ کا ٹیسٹ ہوا تھا جومثبت تھا۔
ہندوستان کی تاریخ راجاوں، مہاراجاٶں، نوابوں اور مغلوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ ملک کی آزادی کی جدوجہد میں راجاٶں و نوابوں اور ان کی بیگمات کی خدمات بھی اہم رہی ہیں۔ آج ملک میں ان کی یادگاریں ہمیں ان کی خدمات سے واقف کراتی ہیں۔ دلی، راجستھان، لکھنئو، بھوپال اور کولکاتا سمیت ملک بھر میں ہمیں ان کی یادگاریں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ان کے خاندان کے وارثین بھی ملک بھر میں موجود ہیں جو اپنے آباو اجداد کی یادگاروں کو سنبھالے ہوٸے ہیں۔
حکومت ہند کی جانب سے ان وارثین کو پنشن و دیگر مراعات سے بھی نوازا جاتا رہا ہے۔ ان ہی میں ایک اودھ کے آخری تاجدار نواب واجد علی شاہ بھی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام کولکاتا میں گزارے۔ یہاں ان کے محل کے ساتھ ان کی یادگاریں بھی موجود ہیں۔ لکھنئو سے جب انگریز نواب واجد علی شاہ کو کولکاتا لائے تو انہوں نے شہر کے مٹیا برج میں رہاٸش اختیار کی۔ شہر سے دور جنگلات کا یہ علاقہ نواب واجد علی شاہ نے بسایا۔ آج اس علاقے کو نواب واجد علی کے نام سے بھی جاناجاتا ہے۔ یہاں انہوں نے کئی یادگاریں قاٸم کی ہیں۔ ان کی آخری آرام گاہ بھی نواب واجد علی شاہ امام باڑے میں ہے۔ جبکہ بیگم حضرت محل انگریزوں سے لڑتی ہوئی نیپال چلی گئیں۔ مٹیابرج اور کولکاتا میں نواب واجد علی شاہ کے خاندان کے لوگ آباد ہیں۔ ان ہی میں ایک نواب خاندان کے آخری وارث کوکب قدر سجاد علی مرزا بھی ہیں جنہیں حکومت ہند کی جانب سے اودھ کے آخری وارث کے طور پر اودھ پنشن دیا جاتا رہا ہے۔
بیگم حضرت محل اور نواب واجد علی شاہ کے پڑپوتے کوکب قدر سجاد علی مرزا کی موت سے کولکاتا میں مقیم اودھ خاندان کا آخری چراغ بھی گل ہوگیا۔ ان کی موت سے کولکاتا کے لوگوں میں رنج و غم کا ماحول ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی سے شعبہ اردو کے ریڈر کے طور پر ریٹاٸر ہونے کے بعد وہ مسلسل کولکاتا میں مقیم تھے۔ ان کی عمر 87 سال تھی۔ گزشتہ ہفتے وہ کورونا سے متاثر ہو گئے تھے جو ان کے لئے جان لیوا ثابت ہوٸی۔
کوکب قدر کولکاتا مں مقیم نواب واجد علی شاہ کے خاندان کے آخری وارث تھے جنہیں حکومت ہند کی جانب سے 75 روپئے ماہانہ اودھ پنشن کے طور پر ادا کی جاتی تھی۔ کوکب قدر ادبی حلقوں میں کافی مقبول نام تھا۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں جن میں "واجد علی شاہ کی ادبی و ثقافتی خدمات" اور "اقلیم سخن کے تاجدار "کافی مقبول ہوٸیں اور ان کتابوں پر انہیں کئی ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔