حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،پاکستان کے موٹروے پر ہونے والے گھناؤنی حرکت پر مدیر الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور، حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید حمید الحسن زیدی نے کہا: اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں انسانی اقدار کی پامالی کا جو گھناؤنا رخ چند دن پہلے پڑوسی ملک پاکستان میں سامنے آیا وہ اس پورے ملک کے باشندوں کے منھ پر طمانچہ ہے۔موٹروے پر ایک تنہا اور بے سہارا خاتون کے ساتھ ہونےوالاسلوک پوری امت مسلمہ کو شرمسار کرنے والا ہے اس دردناک حادثہ کی خبر نے ہر درد مند دل کو دہلاکر رکھ دیا جس کی مذمت اور مجرموں کو قرار واقعی سزا کے علاوہ ان کے مستقل سد باب کے لیے مستحکم قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
مولانا موصوف نے کہا کہ عوامی ذمہ داری یہ ہے کہ اس موقعہ پر بھی اگر نہ جاگے یا جاگ کر پھر سو گئے تو اس سے بھی زیادہ سنگین حالات کا سامنا ہو سکتا ہے لہٰذا ضرورت ہے کہ اس شرمناک جرم کے مجرمین کو پکڑ کر قرار واقعی سزا دینے کے ساتھ ساتھ اس قسم کے جرائم روکنے کی بنیادی فکر کی جائے اور اسباب و عوامل کو نظر میں رکھ کر ایسے جرائم کا مکمل سد باب کیا جائے۔
امید ہے کہ اس سلسلہ میں جو اسباب و عوامل سامنے آئیں گے۔ پاکستان کے قانون ساز ادارے، حکومت اور عدلیہ ان کے بارے میں ٹھوس قدم اٹھائیں گے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ پورے ملک کے تمام باشندوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے اپنے طور پر اپنے گھر ، محلے، شہر ، صوبے اور ملک میں ایسے گھناؤنے جرائم پر اکسانے والے امور کا بائکاٹ کریں جس میں دو باتیں سب سے اہم ہیں:
۱۔ شراب بلکہ ہر طرح کی ایسی نشہ آور اشیا جو انسان کو مدہوش، غافل ، لا پرواہ اور لا ابالی بنا دیتی ہیں۔ ان پر مکمل پابندی ہو کہ ایسے گھناؤنے جرائم میں اس خباثت کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے۔
۲۔ اپنے ملک کی تہذیب، ثقافت کی حفاظت کے لئے ہر طرح کے ایسے لباس سے پرہیز کریں جو خواہشات نفسانی کو بے قابو کر دینے کا سبب بنتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں شیطان صفت افراد ہویٰ و ہوس کا غلام بن کر ایسی گھناؤنی حرکتیں کر بیٹھتے ہیں جو پورے قومکو شرمسارکر دیتی ہیں
اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں کم از کم اسلام کے تربیت ساز قوانین کی بالا دستی ہونی چاہیے تاکہ سماج میں بڑھتی ہوئی بد کرداری کا سد باب کیا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ اسلامی قوانین کے نفاذ میں کوتاہی 'مجرمین کے حق میں پارٹی بازی' سیاسی گرپوں کی ناحق جانبداری' رشوت خوری' اورخوشامد پسندی جیسی نہ جانے کتنی نحوستیں ہیں جنھوں نے اس نام نہاد اسلامی سماج کو گھیر رکھا ہے اوربظاہر مولویوں کی شکل کے سماج کے ٹھیکے دار صرف اپنی دنیا سنوارنے میں لگے ہیں وہ عوام کے جذبات کو بھڑکاکر سڑکوں پر دہشتگردانہ نعرے لگواکر ایک دوسرے کے خلاف قتل و غارت گری کا ماحول فراہم کرنا اپنا فرض منصبی سمجھ رہے ہیں سوشل میڈیا کے ذریعہ آئے دن مساجد ومدارس کے ملاؤں کی جو سیاہ کرتوت سامنے آتی وہ کسی بھی کلمہ پڑھنے والے کو شرمسار کرسکتی ہیں کیا ایسے بدکردار افراد سے یزید وابن زیاد کی حمایت کے علاوہ کوئی توقع رکھی جاسکتی ہے کیا ایسے افراد کے زیر اثرحکومتوں سے یہ امید کی جاسکتی ہےکہ سماج کواسلامی تہذیب وثقافت کانمونہ بنائیں گی یا یہ اپنے دنیاوی مفاد کی خاطر صحابہ کی جھوٹی محبت کےنام پر صرف قتل و غارت گری کا میدان گرم کرنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ محبان اہل بیت علیہم السلام کو نشانہ بناکر سر عام ان کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہیں تاکہ ادھر سے بھی اشتعال پیدا ہو اور پھر استعماری آقا ان کی جھولیوں کو بھردیں۔
آخر میں ان چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کاش امت اسلامی ہوش کےناخن لیتی اور آپسی اختلافات سے اوپر اٹھ کر اسلام دشمن طاقتوں کا مقابلہ کرتی جس سے ان کے اندر آیے دن توہین رسالت کی ہمت پیدا نہ ہوتی اور وہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کے خون کی ہولی کھیل کر ان میں عرب حکمرانوں کو شامل کرنے کی ہمت نہ کرتے آج شیعہ فوبیا کے نام پر ایک کے بعد ایک کرکےعرب حکومتیں صہیونیت کی آغوش میں جارہی ہیں جس کا بھیانک انجاام تمام مسلمانوں کو بھگتنا پڑسکتا ہے