حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے برجستہ عالم دین مولانا سید گلزار جعفری نے برصغیر میں عزاداری شہید الشہداء و جلوس عزاء کے حوالے سے کہا کہ یہ مجلس و ماتم یہ جلوس عزاء یہ علم و پرچم یہ تابوت وتعزیہ یہ گہوارہ و عماری یہ ضریح و ذوالجناح کا نکالنا ایک رسم نہیں بلکہ علامت غم ، مظہر الم اور اعلان مظلومیت ہے یہ ایک تہذیب ہے ایک کلچر ہے ایک ثقافت ایک منظم و مرتب قوم کا علامتی نشان ہے یہ حق کا اعلان ہے باطل کی شکست فاش کا یہ ایک جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
مولانا موصوف نے کہا کہ یہ جلوس جوانوں میں عزم علی اکبر بھرتا ہے تو بچوں میں ارادہ عون محمد بوڑھوں میں حبیب و زہیر قین کا حوصلہ خواتین میں زینب و کلثوم کے شجاعت کا آئینہ دار ہے جہاں حجاب و عفت و پاکیزگی و پاکدامنی کا مسلسل اعلان ہے یہاں جوانی کو صبر و ضبط کی حدوں میں رہنا چاہیے تو بڑاھپے کو شعور کے داءیرے میں بچپن تہذیب کی سر حدوں میں تو خواتین مکمل حجاب میں ہر وہ شخص جو جلوس میں شریک ہے اگر اپنے اعضاء و جوارح سے پیغام حسینی کا ناشرو مبلغ بن جاءے تو کربلا عالم انسانیت پر اپنے اثرات بکھیرتی نظر آءیگی کیونکہ یہ جلوس حکومت باطلہ کے خلاف آواز حق و حقانیت ہے
یہ صدائے مظلوم ہے جو چودہ سو سال سے ایوان بربریت کو ہلا رہی ہے یہ جلوس عقیدتوں کا عنوان نہیں ہے بلکہ حقیقتوں کا مظہر ہے۔
دلیل یہ ہے کہ اگر عقیدت ہوتی تو ایک قوم کی جاگیر ہوتی کوئی دوسرا اس میں سر نہ جھکا تا لیکن چونکہ حسین انسانیت کے پیشوا تھے بشریت کے رہنما تھے اس لیے ملک عزیز میں بلا تفریق مذہب و ملت لوگ شرکت کرتے ہیں حسین ع کا انقلاب آج بھی لوگوں کو درس معرفت دیتا ہے اس ملک کو غلامی کی زنجیروں سے نکالنے والے افراد نے یہی کہا تھا ہمیں انقلاب ہند کی تاریکی میں کربلا کے روشن مناروں سے ضیاءیں ملیں حسین ع کے آئین و قوانین نے ہمیں عزت سے جینا سکھایا ہے جس دن بھی دنیا کو ہم نے ان جلوسوں کی اہمیت و افادیت عظمت و بلندی سے آشنا کرا دیا اسی دن ہمارا سڑکوں پر نکلنا کامیاب ہو جائے گا ہمیں یہ بھی جائزہ لینا پڑے گا کہ یہ جلوس عالم انسانیت کے لیے کیا پیغام دے رہے ہیں ان کے اثرات کیا ہیں کتنے حاجت مند ہیں جن کی حاجتیں پوری ہوجاتی ہیں کون ہے جو دہلیز حسین پر سلیقہ سے مانگے اور اس کا دامن مراد بھرا نہ ہو ان کی عطا میں کمی نہیں ہے ہمیں مانگنے کا سلیقہ آنا چاہیے ہر قسم کا جادو، ٹونا،بھوت پلید الاءیں بلائیں آفتیں مصیبتیں اس جلوس کے صدقے میں دور ہوتی ہیں جن راہوں سے یہ جلوس گزرتے آنے والے سال تک ان علاقوں پر رحمتوں کا نزول رہتا ہے لہذا اسکی عظمت و جلالت کا ادراک ہر ذی شعور خوش عقیدہ اور صاحب نظر کو رکھنا چاہیے ہمیں غیروں کو گلے لگا کر عزت و احترام سے ان جلوسوں میں لانا ہوگا خود بھی ان کی عزت کرنی ہوگی اور دوسروں کو بھی پیغام مودت و محبت دینا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ جلوس میں ہر قسم کے تعصب و تنگ نظری سے بچنا ہو گا ہر قسم کے طنزومزاح سے پرہیز کرنا ہوگا صورت و سیرت سے عزادار بننا ہوگا تقسیم تبرک سے سیرابی سبیلوں تک خوش عقیدہ شریکوں کا خیال رکھنا ہوگا بینرس پوسٹرز تختیوں اور پرچموں پر مقاصد کربلا مختلف زبانوں میں تحریر ہوں تاکہ لوگ جلوس کے مقصد سے آشنا ہوں جگہ جگہ وقفہ وقفہ سے تقاریر ہوں جسمیں کربلا شناسی کو عنوان بنایا جاءے سادہ آسان اور سلیس زبان کے معتدل خطباء و مقررین کا انتخاب ہو جن کی شیریں بیانی سے اہل خرد کے ضمیر بیدار ہو جاءیں انجمنوں کی ترتیب وتنظیم اس قدر منظم ہو کہ انسانیت کا دل رکھنے والا متاثر ہوے بغیر نہ رہ سکے نوحوں میں غم و آہنگ کے ساتھ پیغام کربلا بھی ہو جس سے لوگ آل محمد ع کے مقاصد سے روشناس ہو جاءیں ہر حقیقی عزادار کی صورت یہ ہونا چاہیے کہ لبوں پر ذکر حسین ع، ہاتھ سینوں پر، آنکھیں پر نم ، دل پر درد مجسم غم والم کی تصویر بن کر رہنےلگے کہ واقعا عزاء حسین ع انجام دے رہا ہے واقعا یہ یاد حسین میں ہے اپنے افعال و اعمال ، حال واحوال ، حرکات و سکنات ، نظر و نظریات، ظاہری وضع و قطع اپنا ہلیہ و حالت سب اسلامی ہوں سب پر حسینی ہونے کا لیبل لگا ہو تو پھر اس لیبل کی شناخت کا مکمل خیال رکھنا مقاصد سے آشنا ہو کر دنیا کو روشناس کرانا ہی ان جلوسوں کا مقصد ہونا چاہیئے ۔
غم کے جلوسوں میں اور خوشی کے جلوسوں میں فرق ہوتا ہے خوشی کسی ایک فرد کی ہوتی ہے مگر یہ غم کے جلوس سب کے ہوتےہیں ۔
مزید کہا کہ یہ جلوس مظلومیت کا شاہکار ہیں یہی جلوس ہیں جن میں وہ درس دیئے جاتے کہ ہر آدمی کے ذھن میں واقعات کربلا سن کر ظلم سے نفرت ظالموں سے عداوت اور مظلوم سے محبت پیدا ہو جائے اگر ہم نے فرش بشریت پہ وحدت کی شمع جلا کر تاریک ذھنوں میں مقاصد حسین کی روشنی پہونچا دی تو ہمارے یہ جلوس ندائے رسمیات، ادائے سماجیات نہ ہوں گے بلکہ اعلان اطاعت ، مظہر تقافت، عنوان عبادت قرار پائیں گے اور عبادت میں ریا آجائے تو عبادت باطل ہو جاتی ہے قبولیت عبادت کے لئے خلوص ضروری ہے تو ان جلوسوں میں خلوص نظر آئے خود خلوص کا جلوس نہ نکالا جائے۔