حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق بزم ذکر و فکر قم المقدسہ کی جانب سے عُسر اور یُسر کے عنوان سے منعقد نشست سے خطاب کرتے ہوئے مولانا علی عباس خان نے کہا کہ سورۂ انشراح میں اللہ نے پیغمبر اکرم(ص) کے شرح صدر اور نزول وحی کی گفتگو کے بعد فرمایا ہے کہ اے نبی! تبلیغ کی راہ میں مشکلات کے لئے تیار رہیں۔ ایسی صورت میں آپ علم و عمل دونوں کے میدان میں کامیاب نظر آئیں گے اور اللہ {وَ رَفَعْنا لَكَ ذِكْرَكَ} کا اعلان کرے گا جسکی ایک تفسیر یہ ہے کہ توحید کی گواہی کے ساتھ ہمیشہ نبی(ص) کی رسالت کی گواہی اور آپ(ص) کا ذکر بھی ہمیشہ موجود رہے گا۔ یہ نتائج {ِاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً} کا مصداق ہیں، جسے اس سورہ میں دو بار ذکر کیا گیا ہے۔ ان آیتوں میں دو اصول پیش کئے گئے ہیں۔ پہلا صریح اور وہ یہ کہ سختی کے ساتھ یا اس کے بعد آسانی ہے. اور دوسرا ضمنی اور وہ یہ کہ ان آسانیوں تک رسائی تبھی ممکن ہوگی جب ہم سختیوں کے دوران اپنی امید قائم رکھیں اور اپنے آپ کو تیار کریں، نہیں تو سختیوں کا زمانہ طولانی ہوجائے گا۔
انھوں نے کہا کہ عام طور پر مفسرین کی نظر میں سختی کے ساتھ آسانی ہے کیونکہ لفظ ’’مع‘‘ ہمراہی پر دلالت کرتا ہے۔ لیکن علامہ طباطبائی(رہ) کی نظر میں ہر سختی کے بعد آسانی ہے۔ وہ ’’مع‘‘ کو اس آیت میں ترتیب کے لئے لیتے ہیں اور ظاہرا انکی دلیل اس آیت سے قبل والی آیات ہیں۔مذکورہ دو تفسیروں کو ممکن ہے اس طرح جمع کیا جائے کہ سورے میں لفظ "يُسْر" بصورت نکرہ تکرار ہوا ہے، اس صورت میں ادبیات عرب کے قواعد کے مطابق دونوں لفظ یسر سے دو الگ الگ آسانیاں مراد ہیں. پہلے یُسر سے مراد وہ آسانیاں ہیں جو سختیوں کے ساتھ ہوتی ہیں، اور دوسرے یُسر سے مراد وہ آسانیاں ہیں جو سختیوں کے بعد ہوتی ہیں۔ اور لفظ "مع" کا استعمال "بعد" کی جگہ پر اس بات کی طرف اشارہ ہے کے سختی اور آسانیوں میں صرف ترتیب نہیں بلکہ ایک گہرا رابطہ ہے یعنی بعد والی آسانیوں کا توقف پہلے والی سختیوں اور مشکلات پر ہے جس سے دوسرا اصل استخراج ہوا ہے۔ البتہ اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ ممکن ہے سختیاں کوئی نسل برداشت کرے اور آسانیاں کوئی دوسری نسل حاصل کرے۔
دس سال پہلے ایران میں دشمنان انقلاب نے ایک خطرناک فتنہ اٹھایا اور اس کے دس سال بعد حال ہی میں پھر ایک نیا فتنہ اٹھا۔ ان میں کتنی مشکلیں پیش آئیں اور عوام، حکومت اور اسلامی نظام کے
مولانا علی عباس خان نے مذکورہ پہلے قانون کو سمجھنے کے لئے دو مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ پہلی مثال: دس سال پہلے ایران میں دشمنان انقلاب نے ایک خطرناک فتنہ اٹھایا اور اس کے دس سال بعد حال ہی میں پھر ایک نیا فتنہ اٹھا۔ ان میں کتنی مشکلیں پیش آئیں اور عوام، حکومت اور اسلامی نظام کے خیرخواہوں بالخصوص رہبرانقلاب کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ رہبر انقلاب نے نظام اسلامی کو بچانے کے لئے اپنی آبرو کو داؤں پر لگایا۔ لیکن نظام کے ارکان ناامید نہ ہوئے جس کے نتیجہ میں سختیوں کے ساتھ اور بعد دو آسانیاں بھی سامنے آئیں:الف) سختیوں کے ساتھ آسانی :نظام اسلامی کے کئی دشمن ان فتنوں میں کھل کر سامنے آئے اور نظام کی گرفت میں آگئے، ورنہ وہ ہمیشہ نظام اسلامی کے لئے چھپ کر مشکلات پیدا کرتے رہتے۔ ب) سختیوں کے بعد آسانی: ان حالات میں مواصلاتی نظام کی مدیریت کا جو تجربہ ذمہ داران کو حاصل ہوا اس سے دشمن کافی حد تک مایوس ہوا۔ دنیا میں عموما مواصلاتی نظام یا تو مکمل طور پر بند کیا جاتا ہے یا اسے مکمل طور پر آزاد چھوڑا جاتا ہے. لیکن یہاں پر صرف بیرونی مواصلات پر پابندی لگائی گئی تاکہ دشمن کے منصوبے ناکام ہوں، لیکن مواصلاتی نظام کے داخلی شعبہ میں کوئی خاص خلل واقع نہیں ہوا.دوسری مثال: بابری مسجد کے معاملے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ. خود فیصلے کے متن میں ایسے نکات ملے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فیصلہ کچھ اور آنا چاہئے تھا۔ سختی یہ پیش آئی کہ توقع کے بالکل برخلاف فیصلہ آیا البتہ اس میں بھی آسانیوں کے پہلو موجود ہیں:الف) سختیوں کے ساتھ آسانی: عدالت عظمیٰ نے مسلمانوں کو معاوضہ میں کہیں اور زمین دے کر یہ بتایا کہ زمین تمہاری ہی ہے، لیکن کچھ مصلحتوں کی بنا پر ہم تم کو نہیں دے سکتے۔ بہت سے دانشوروں نے یہ بھی کہا کہ اگر اس کے برخلاف فیصلہ آتا تو ملک میں خون خرابہ ہوتا۔ یعنی اس سے ظاہر ہوگیا کہ اگرچہ مسلمان فیصلہ سے خوش نہیں ہیں لیکن وہ ملک کی فضا خراب بھی نہیں کرنا چاہتے اور وہ ملک کی مصلحت کو نظر میں رکھتے ہیں اور اس کے دردمند ہیں۔ ب) سختیوں کے بعد آسانی: یہ اس وقت ممکن ہیں جب ہم اس سختی سے درس عبرت لیں اور اپنے آپ کو آنے والے زمانے کے لئے تیار کریں۔
انھوں نے کہا کہ دوسرا قانون: عُسر اور یُسر کا رابطہ اس وقت باقی رہتا ہے جب ہم عُسر کے زمانے میں امیدوار رہیں اور اپنے آپ کو ہر طرح سے تیار کریں۔ شیطان کا سب سے بڑا حربہ ناامید کرنا ہے۔ ہم کو لوگوں کو پرامید بنانا چاہئے۔ البتہ اس بات کی طرف بھی توجہ ہے کے ہندوستانی معاشرے کو ظلم سے نجات دلانے کا فرض سب سے زیادہ ہمارا ہے کیونکہ ہم اس مکتب کے ماننے والے ہیں جس کے رہبروں نے ہر معاشرے کو نجات دلانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔
مولانا علی عباس خان نے کہا کہ فیصد کے اعتبار سے چاہے بڑی نہ ہو لیکن تعداد ہماری کم نہیں۔ اس کی حفاظت کرنی چاہئے اور اس میں اضافہ ہونا چاہئے،ہماری عوام میں محبت اہل بیت(ع) کا ہونا: یہ ایک بڑا امتیاز ہے۔ ہم کو اس کی قدر کرنی چاہئے۔ کبھی کبھی ہم اپنی باتوں سے اس محبت کی ناقدری کرتے ہیں اور ہماری عوام میں سختیوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت کا ہونا: البتہ ہم نے اسے صحیح جہت نہیں دی ہے۔ وہ سختیوں کو برداشت کرتے ہیں لیکن اس کا صحیح نتیجہ نہیں لے پاتے ہیں۔ اگر ہم اس کو صحیح جہت دیں گے تو اس کا نتیجہ بھی ملے گا۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے جوانوں کی صلاحیت اور ان کا نبوغ: خود جامعۃ المصطفی میں ہمارے ملک کے طلباء کی تعلیمی کارکردگی اس بات کی گواہ ہے۔سخت تاریخی تجربوں کا ذخیرہ: جیسے کہ حکومت اودھ کے ختم ہونے کے بعد کا ہولناک زمانہ، جب لکھنؤ کا بڑا امامباڑہ ایک طویل عرصہ تک انگریز فوج کی چھاؤنی اور گھوڑوں کا اصطبل بنا۔ پھر جب حالات کچھ سنبھلے تو ہمارے چار مجتہدین (ناصر الملت، نجم الملۃ، باقر العلوم اور آقا حسن طاب ثراھم) نے یہ فیصلہ لیا کہ ہم کو قوم کی ناگفتہ بہ اجتماعی صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے کچھ کرنا ہے۔ آل انڈیا شیعہ کانفرنس، شیعہ یتیم خانہ اور شیعہ کالج، و غیرہ جیسے اہم اداروں کی بنیاد رکھی۔ یہ سب اس لئے کہ انہوں نے پہلے تو یہ دیکھا کہ ہم انگریزوں سے اب جنگی اسلحے سے نہیں لڑ سکتے ہیں لیکن عقل کے اسلحہ سے ضرور مقابلہ کر سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اب اس دور میں پرانے طریقوں سے کام نہیں چلے گا لہذا کالج اور دوسرے ادارے نئے زمانے کے تقاضہ کے تحت شروع کئے۔ یہ ہمارا ماضی کا تجربہ ہے کہ جب ہم علم حاصل کر کے اتحاد کے ساتھ چلتے ہیں تو کر دکھاتے ہیں۔ لیکن یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب ہم میں شرح صدر کے ساتھ مشکلات برداشت کرنے کی صلاحیت ہو۔
مولانا علی عباس خان نے کہا کہ تاریخ نے ہم کو بتایا ہے کہ اسلام اور انسانیت کے دشمنوں کے منصوبے کبھی پائیدار نہیں رہتے ہیں۔ دشمن آخر آپس میں ہی ٹکراتے ہیں۔ لیکن ان کا ٹکرانا ہمارے لئے اسی وقت مفید ہوسکتا ہے جب ہم نے پہلے سے اس کے لئے تیاری کر رکھی ہو۔ ورنہ اگر ابھی تیاری نہ کی ہو تو جب موقع آئے گا تو ہم وقت سے فائدہ نہیں اٹھا پائیں گے۔ ہم کو سیرت صادقین(ع) پر عمل کرتے ہوئے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جب بنی امیہ اور بنی عباس ٹکرائیں تو ہم کو کسی کا ساتھ نہیں دینا ہے بلکہ الہی منصوبوں کو آگے بڑھانا ہے۔ تیاری کے لئے قم جیسی عظیم جگہ موجود ہے۔ اس سے فائدہ اٹھانا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس مذہب کو آگے بڑھانے کے لئے بہت سی سختیاں اور عُسر برداشت کی گئی تھیں۔ اہل بیت علیہم السلام قتل ہوئے اور اہل حرم نے اسیری اور ظلم و ستم کی سختیاں جھیلیں. لیکن اللہ نے مشکلات کے ساتھ اور مشکلات کے بعد، بہت ساری آسانیاں پیدا کیں جن کی جانب خود معصومین(ع) نے اشارہ فرمایا ہے۔
نشست کے اختتام پر نذر کے ذریعہ مدعوین کی پذیرائی کی گئی اور اس دوران مذکورہ موضوع اور مولانا علی عباس خان کے بیان کی روشنی میں سوال و جواب اور بحث و مباحثہ کا سلسلہ بھی رہا۔
اس سوال کے جواب میں کہ اگر یہ کہا جائے کہ بابری مسجد معاملہ میں عدالت کے غیر منصفانہ فیصلہ کی سختی کے ساتھ یہ آسانی بھی موجود ہے کہ ایسا فیصلہ ہماری جانی حفاظت کا سبب بنا تو ایک اہم سوال اٹھتا ہے: یہ سلسلہ آخر کب تک چلتا رہے گا کہ کسی قوم کے حقوق مسلسل چھینے جائیں، اور وہ یہ سوچ کر خوش ہوتی رہے کہ کم از کم ہمیں زندہ تو چھوڑ دیا جاتا ہے؟ انھوں نے کہا یہ فیصلہ غیر عادلانہ ہے اور اس پر کوئی حق پسند انسان در حقیقت خوش نہیں ہو سکتا. لیکن فیصلے کی تلخی اور اسکے بعد امن و امان کا برقرار رہنا، ہمارے لیے پرانی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنی کمزوریاں دور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ جب تک ہم ایسے موقعوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے، ہمارے حقوق کی پامالی کا سلسلہ جاری رہے گا.
انھوں نے کہا کہ ۱۹۹۲ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد سے آج تک مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا. لیکن اب فیصلہ آنے کے بعد اس پر ہائے واویلا مچائی جارہی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟_
مولانا فصاحت حسین نے کہا کہ یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ۱۹۹۲ء کے بعد سے کچھ نہیں کیا گیا۔ البتہ جو کچھ کیا گیا ممکن ہے کہ ناقص یا ناکافی رہا ہو. اسی لئے یہاں موجود علماء ان خامیوں کو پہچاننے اور ان کمزوریوں کو دور کرنے پر تاکید فرما رہے ہیں.
مولانا علی عباس خان نے کہا کہ بابری مسجد کے انہدام کے بعد ہندوستان میں مساجد کے احیا اور تحفظ کی تحریک شروع ہوئی۔ اگر یہ واقعہ نہ ہوا ہوتا تو شاید یہ تحریک شروع نہ ہوتی۔ اب ہم کو غور کرنا چاہئے کہ مسجدوں کو کس طرح معارف کا مرکز بنایا جاسکتا ہے۔
ایک اور سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کوشش کرنی چاہئے اخلاقی فضائل خصوصا سعہ صدر حاصل کریں تاکہ چھوٹے مسائل کو لیکر آپس میں نہ الجھیں، بلکہ عظیم مقاصد کو سامنے رکھ کر آپس میں مل کر چلنے کی مشق کریں.
مولانا عابد رضا نوشاد نے بھی کہا کہ عالم بزمان بننا، یعنی بصیرت کا حصول۔ ساتھ ہی تشکیلاتی کام کا تجربہ حاصل کرنا. منصوبہ بندی کے ساتھ اہداف اور حکمت عملی معین کرنے کا طریقہ سیکھنا۔ ان سب کے لئے درسی مطالعات کے علاوہ غیردرسی مطالعہ ضروری ہے. لیکن یہ غیردرسی مطالعہ صرف معارف کی حد تک محدود نہیں ہونا چاہئے بلکہ تاریخ، سیاست اور جغرافیہ وغیرہ کا بھی دقیق مطالعہ کرنا چاہئے.
سوال کے جواب میں انکا کہنا تھا کہ اگر کوئی سختی عالم مادہ کا تقاضہ ہو تو ہم اسے اپنی ترقی کا وسیلہ سمجھیں. اور اگر ہماری غلطیوں کے نتیجہ میں پیش آئی ہو تو ہم اسے اصلاح کریں اور استغفار کے ذریعہ اس کا ازالہ کریں. اس طرح ہر مشکل کا سر اٹھا کر سامنا کر سکتے ہیں.
مولانا قمر مہدی کا کہنا تھا کہ ائمہ(ع) کی زندگی ہمارے سامنے ہے جس سے مشکلات کا سامنا کرنے کا درس ملتا ہے۔ اس کے علاوہ مشکلات میں کامیابی سے زندگی گزارنے کے لئے علماء کی سیرت ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ شہید مطہری، شیخ انصاری اور دوسرے علماء رحمۃ اللہ علیہم کی زندگی بہت سختیوں میں گزری ہے۔ بعض علماء ایسے گزرے ہیں جن کے کئی بچے غربت کی وجہ سے مرگئے، لیکن وہ پھر بھی اجتہاد کے مرتبہ تک پہنچے۔ اگر ہم ان کو اسوہ بنائیں تو ہم ان سختیوں کا کامیابی سے سامنا کر سکتے ہیں۔
مولانا علی عباس خان کہا کہ انتخاب کرتے وقت ذاتی شوق، صلاحیت اور معاشرے کی ضرورت کو سمجھنا، ان سبھی کا اہم کردار ہوتا ہے. لہذا مقدمات کے دور (کارشناسی) میں ہم کو اس طرح تیاری کرنی چاہئے کہ بعد میں جس میدان مین بھی تمرکز کرنا چاہیں تو کر سکیں۔ اس کے علاوہ مسلسل طور پر حالات زمانہ سے باخبر رہیں، اور اہلیت رکھنے والے افراد سے مشورہ ضرور کرتے رہیں۔ اللہ کی مدد سے صحیح وقت پر صحیح فیصلے کرنے میں رہنمائی ہوگی.
اس نشست میں شاعر اهلبیت(ع) حافظ حسن رضا بنارسی نے امید بخش منظوم کلام پیش کیا:
قرآن ہے گواہ کہ سختی کے ساتھ ساتھ
خالق نے راحتی کے بھی رکھے معاملات
گر سختیوں کا وقت ہو، لازم ہے پھر ثبات
اک روز مشکلوں سے ملے گی تمہیں نجات
بحر حیات میں کوئی طغیانی آئے گی
ہاں سختیوں کے بعد پھر آسانی آئے گی
ہر اک بشر سے کہتی ہے اللہ کی کتاب
گر عسر کا ہے ذکر تو یسرا کا بھی ہے باب
کانٹوں کے درمیان ہی اگتے ہیں سب گلاب
اور شب گزار کر ہی نکلتا ہے آفتاب
اے کلمہ گویو لکھ دو ستم کی جبین پر
اک روز عدل پھیلے گا ساری زمین پر
ہاں! پڑھ کے دیکھ لیجئے تاریخ کربلا
ہر ایک ظلم جس پہ روا تھا یزید کا
تشنہ لبی سے خشک تھا شبیر کا گلا
سوکھے ہوئے گلے پہ بھی خنجر چلا کیا
مظلوم کی تھی ان مع العسر پہ نظر
اس واسطے کٹا دیا سجدے میں اپنا سر
تشنہ لبی میں خوش تھی سپاہ شہ انام
ان کی نظر میں کوثر و تسنیم کا تھا جام
مشکل پہ صبر کرتا تھا ہر ایک خاص و عام
شکوہ نہ لب پہ لایا کوئی ایک نیک نام
کہتا تھا سختیوں میں یہی عشق کا جنون
ان سختیوں کے بعد ابد تک کو ہے سکون
آب و غذا و دولت و ثروت کو چھوڑ کر
شاہی کو ترک کر کے حکومت کو چھوڑ کر
دنیا کی ساری جھوٹی فضیلت کو چھوڑ کر
حر سختیوں میں آ گیا راحت کو چھوڑ کر
بولا میں سختیوں سے ہی آسانی پاؤنگا
رومال فاطمہ لئے جنت میں جاؤنگا
معصومہ کے سفر کی تو دشواریاں ہیں یاد
کس درجہ لوگ رکھتے تھے معصومہ سے عناد
ساوہ میں پہنچیں بی بی تو کرنے لگے فساد
لگتا تھا جیسے آ گیا دور بن زیاد
دشواریوں سے تھک کہ نہ واپس وطن گئیں
زینب کا عکس حضرت معصومہ بن گئیں
اھل ستم جہاں سے فنا ہو گئے مگر
بی بی ابھی بھی رہتی ہیں اس سر زمین پر
قم کی زمیں ہے علم و معارف کا جو نگر
یہ ہے وجود حضرت معصومہ کا اثر
عسرا کے بعد دیکھئے یسرا کی شاہی ہے
بی بی کا روضہ میرے سخن کی گواہی ہے
دشواریوں میں ہوتا ہے مومن کا امتحان
کافر ہمشیہ رہتا ہے عشرت کے درمیان
ہاں سختیوں سے گزرا ہے نبیوں کا کاروان
بارہ اماموں کی یہی کہتی ہے داستان
ایمان والوں کے لیئے دنیا قلیل ہے
اور کافروں کے واسطے سونے کا فیل ہے
دشواریوں میں صبر کا دامن نہ چھوڑنا
خالق کے شکر سے کبھی رشتہ نہ توڑنا
تم مشکلوں کی ایسے کلائی مروڑنا
مشکل کشاء سے رابطہ مشکل میں جوڑنا
رنگ حنا نکھرتا ہے دشواریوں کے بعد
پتھر بھی ہیرا بنتا ہے دشواریوں کے بعد