حوزہ نیوز ایجنسی | مولانا سید اطہر عباس رضوی بتاریخ 16/ شوال 1382 ہجری میں سرزمین لشکری پور ضلع چھپرہ صوبہ بہار پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد سید انور عباس رضوی کا شمار اپنے وقت کے متدین افراد میں ہوتا تھا۔
مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن لشکری پور میں مہربان اساتذہ سےحاصل کی اس کے بعد بھارت کی ریاست اُتر پردیش میں دریائے گنگا کے کنارے پر آباد دنیاکے مشہور و معروف قدیمی شہر "بنارس" کا رخ کیا اور وہاں جامع العلوم جوادیہ عربی کالج میں داخل ہو کر شمیم الملت کی سرپرستی میں جید اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا۔
بنارس میں چند سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد عازم لکھنؤ ہوئے اور ناظمیہ میں امیرالعلماء کی زیر نگرانی بزرگ اساتذہ کی خدمت میں زانوئے ادب تہ کیے۔ سن 1982 عیسوی میں لکھنؤ کو ترک کرکے قم المقدسہ ایران کا رخ کیا ، وہاں جید اساتذہ کرام سے کسب فیض کیا اور سن 1993 عیسوی میں اپنے وطن واپس آئے۔
آپ کے اساتذہ میں: آیت اللہ حرم پناہی، ظفرالملت، امیرالعلماء، شمیم الملت، آیت اللہ وجدانی فخر، مولانا سید احمد حسن بنارسی، مولانا رسول احمد رضوی، مولانا سید مرتضیٰ نقوی، مولانا سید شاکر حسین امروہوی، مولانا شہنشاہ حسین، مولانا ممتاز علی اور مولانا ابن حیدر وغیرہ کے نام سرفہرست ہیں۔
علمائے ایران و عراق نے آپ کو امورحسبیہ اورنقل روایت کے اجازات سے نوازا جن میں سے: آیت اللہ محمد علی عراقی، آیت اللہ محمد فاضل، آیت اللہ ناصرمکارم شیرازی، آیت اللہ محمد فاضل،آیت اللہ شیخ بشیر حسین نجفی، آیت اللہ محمد علی شیرازی، آیت اللہ شیخ محسن حرم پناہی ، آیت اللہ محمد رضا موسوی اور آیت اللہ محمد تقی کے نام سر فہرست ہیں۔
سن 1993 عیسوی میں ایران سے واپسی کے بعد مغربی بنگال کے شہر" کلکتہ" میں تبلیغی فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہوگئے ۔ موصوف کلکتہ کی "بصراوی مسجد" میں کئی برس تک امام جمعہ و جماعت کے عہدے پر فائز رہے، آپ نے محراب عبادت کے ساتھ ساتھ منبر خطابت کو بھی تبلیغ کا ذریعہ قرار دیا اور مختصر عرصہ میں وہ شہرت حاصل کی جو ہندوستان کی تاریخ خطابت میں کم نظیر ہے۔ آپ نے ہندوستان اور بیرون ہندوستان میں اپنی خطابت کےجوہر دکھائے۔
مولانا اطہر کی خطابت میں موضوعات کا تنوع واضح طور پر دیکھنے کو ملتا تھا آپ کو سننے والے افراد جانتے ہیں کہ آپ مناسبت کا خیال کرتے ہوئے مناسبت ہی کے عنوان پر پوری مجلس تمام کردیتے تھے۔ سامعین بھی آپ کی خطابت کو بہت پسند کرتے تھے۔ موضوعات کا تنوع آپ کے وسیع المطالعہ اور وسیع الذوق ہونے کی دلیل ہے ۔ موصوف نے اپنی زندگی کا آخری عشرہ محرم چھولس سادات میں خطاب کیا۔
شہر کلکتہ کی ضرورت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سن 1993 عیسوی میں آپ نے لڑکیوں کے لئے" الزہرا ایجوکیشنل سینٹر" کے نام سے ایک درسگاہ قائم کی اس درسگاہ کی پرنسپلی کی ذمہ داری آپ کی اہلیہ نے سنبھالی جس کو آج تک بحسن و خوبی انجام دے رہی ہیں۔ مولانا اطہر عباس جب تک باحیات رہے اس درسگاہ کی سربراہی کرتے رہے اور آپ کی رحلت کے بعد درسگاہ کی سربراہی آپ کے فرزند مولانا مہر عباس رضوی نے اپنے ذمہ لے لی اور اس ذمہ داری کو اچھی طرح نبھا رہے ہیں۔
مولانا اطہر عالم ہونے کے ساتھ ساتھ اور برجستہ شاعر بھی تھے ، اطہر تخلص فرماتے تھے بطور نمونہ:
غیروں کا کیا گلہ کروں اپنوں سے جوملا نوک زباں کا زخم کلیجے کے پار ہے
امام وقت کی مدح میں کہے ہوئے کلام کا ایک شعر یوں ہے:
کون کہتا ہے کہ وہ روح رواں پردہ میں ہے آنکھ پر پردے پڑے ہیں وہ کہاں پردہ میں ہے
مولانا مرحوم شاعر، خطیب اور عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ بااخلاق خوش مزاج، انتہائ ملنسار اور بیباک شخصیت کے مالک تھے اسی لیے مغربی بنگال کے مؤمنین موصوف کوخمینی بنگال کے لقب سے یاد کرتےتھے۔ اپنے بڑوں کا احترام کرنا، چھوٹوں سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا اور ان کی اصلاح و تربیت کرنے کی کوشش آپ کا طرہ امتیاز تھا۔ موصوف مجلس علماء ہند کے سکریٹری تھے اور اپنے فریضہ کو بحسن و خوبی انجام دیتے تھے۔
اللہ نے آپ کو دو بیٹیاں اور دو بیٹوں سے نوازا جومولانا سیدمہر عباس عرف جواد اور رضا عباس کے نام سے معروف ہیں۔موصوف نے اپنے سارے بچوں کو زیورعلم سے آراستہ کیا۔
افسوس یہ برجستہ خطیب اور بیباک عالم دین بتاریخ 18/ ذی الحجہ سن 1438 ہجری بروز اتوار حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مغربی بنگال کے شہر کلکتہ میں خاموشی کی نذر ہوگیا چاہنے والوں کا مجمع شریعت کدہ پر امنڈپڑا 20 / ذی الحجہ کو غسل و کفن کے بعد پہلی نماز جنازہ شمیم الملت اور دوسری نمازجنازہ آفتاب شریعت مولانا کلب جواد کی اقتدا میں ادا ہوئی اور مٹیابرج کلکتہ کے قبرستان محمدی میں سپرد خاک کردیا گیا۔ آپ کی مجلس چہلم مولانا عقیل الغروی اور مولانا ڈاکٹر کلب صادق نے خطاب فرمائی۔