۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
علامہ سید ابن حسن نونہروی

حوزہ/ پیشکش: دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمائکروفلم سینٹر دہلی کاوش: مولانا سید غافر رضوی چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی

حوزہ نیوز ایجنسی علامہ ابن حسن نونہروی سنہ 1317ہجری میں سرزمین نونہرہ ضلع غازی پور پر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد "سید محمد جواد" تھے۔

علامہ کو "نادرۃ الزمن، ملک الناطقین، صدر الواعظین، استاذ الواعظین اور صدر المتألہین" کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔

آپ کی ابتدائی تعلیم نونہرہ میں انجام پائی اس کے بعد لکھنؤ کے لئے عازم سفر ہوئے اور مدرسہ سلطان المدارس میں رہ کر بزرگ اساتذۂ کرام سے کسب فیض کیا جن میں سے حکیم سید محمدہادی ، مولانا سیدمحمد مرتضیٰ فلسفی ، باقر العلوم آیۃ اللہ سید محمد باقر رضوی ، مولانا سید محمد ہادی اور مولانا محمد رضا کے نام لئے جاسکتے ہیں۔ صدرالافاضل کی سند حاصل کرنے کے بعدتینتیس سال تک سلطان المدارس میں ایک بہترین مدرّس کا کردار ادا کیا اور اس کے بعد مدرسۃ الواعظین میں پرنسپل کے عنوان سے منتخب کرلئے گئے۔

تدریس کے میدان میں اپنی مثال آپ تھے، جب عربی ادب پڑھاتے تو محسوس ہوتا کہ میدان ادب کے تنہا ترین شہسوار ہیں، اصول پڑھاتے تو ایسا لگتا کہ ان سے بڑا کوئی اصولی نہیں۔

علامہ نے اپنی پوری زندگی تبلیغ دین اور درس و تدریس کے لئے وقف کردی تھی آپ کے شاگردوں کی تعداد اندازہ سے زیادہ ہے جنہوں نے درس و تدریس کے علاوہ میدان قلم میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہےان میں سے ظفرالملت آیۃ اللہ سید ظفر الحسن اعظمی، صدرالملت علامہ سیدمحمد مجتبیٰ نوگانوی، صفوۃ العلماء سید کلب عابد لکھنوی، ضیاء الواعظین علامہ سید وصی محمد فیض آبادی اور مولانا محمد طاہر گوئلی کے اسمائے گرامی قابلِ ذکر ہیں۔

علامہ کی زندگی میں وعدہ کی وفا نہایت اہم شئے تھی، اگر کوئی وعدہ کرتے اس کی وفا کو اپنا عینی فریضہ سمجھتے اور اس کے مقابل دنیاوی مال و دولت کواہمیت نہیں دیتے تھے۔ (تفصیل کے لئے مراجعہ کیجئے: نجوم الہدایہ، ج1، ص63)۔

آپ آسمان خطابت کے خورشیدِ درخشاں تھے۔ خطابت کے لئے برِّ صغیر کے مختلف علاقوں میں سفر کیا اور ہندوستان کی تقسیم کے بعد بھی دو مرتبہ لاہور کا سفر کیا۔ موصوف نے ایران و عراق میں بھی اپنی خطابت کے جوہر دکھائے۔ (تقریری جھلک: روئے زمین پر سب سے پہلے جو چیز وجود میں آئی ہمارے سامنے وہ اوّل بیت "خانہ کعبہ " ہے، پہلا گھر… جسم کے اندر جو سب سے پہلے متحرک ہے وہ کون؟ ہمارا قلب…۔ قلب کو کعبہ سے کتنی مناسبت ہوئی! اب فرمائیے حضور! اگر علی ؑ کعبہ میں پیدا نہ ہوں تو کہاں پیدا ہوں؟ صلوات… اللھم صل علیٰ محمد و آل محمد… کہاں پیدا ہوں…)

مسلسل اٹھاون سال تک ردولی میں عشرۂ محرم کو خطاب فرمایا، یہاں کی صورتِ حال یہ تھی کہ چودھری ارشاد حسین صاحب، علامہ مرحوم کو عشرۂ محرم کی پہلی مجلس میں یا تو وضو کرتے وقت منبر پر جانے سے پہلے یا پھر منبر پر پہنچنے کے بعد خطبہ ختم ہونے پر موضوع یا آیت دیتے تھے جس کے تحت موصوف پورا عشرہ خطاب کرتے تھے۔آپ جلالی میں مسلسل چالیس برس تک اربعین کی مجلس کو خطاب فرماتے رہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علامہ شہرت کو پسند نہیں فرماتے تھے اورہمیشہ مؤمنین سے کہتےکہ اشتہار کی کیا ضرورت ہے؟ میں اشتہارسے راضی نہیں ہوں!۔

علامہ کو علم ریاضی میں اتنی مہارت تھی کہ انگلینڈ اور ہندوستان کے اساتذہ آپ کی صلاحیت کے قائل تھے، موصوف ایک جانے مانے فلسفی تھے۔ (تفصیل کے مراجعہ کیجئے: انوار فلک، ج1، ص15)۔ علامہ کو پورا قرآن حفظ تھا اور مکمل نہج البلاغہ بھی حفظ تھی حتی کہ نہج البلاغہ کی شرحوں پر بھی دقیق نظر تھی۔

علامہ کے دو بیٹے تھے جن میں سے فرزنداکبر مولانا شبیہ الحسن نے مدرسہ سلطانیہ سے صدرالافاضل کی سند حاصل کرنے کے بعدعلیگڑھ مسلم یونیورسٹی سےبی اے، ایم اے اور ایل ایل بی کی اسناد حاصل کیں اورپھر لکھنؤ یونیورسٹی سے دوسرا ایم اے کرنے کے بعد وہیں سےپی ایچ ڈی کی سند دریافت کی اور اسی یونیورسٹی میں پروفیسر کے عنوان سے پہچانے گئے۔ شبیہ الحسن صاحب ایک جید عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے مستند صاحب قلم بھی تھے۔
علامہ کے دوسرے فرزند سید ضیاء الحسن: اپنے زمانہ میں اپنی مثال آپ تھے اور ان کا شماربہترین شعراء میں ہوتا تھا۔

جہانِ خطابت کا یہ درخشاں آفتاب، فالج جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوکر شہر لکھنؤ کے محلّہ کٹرہ ابوتراب خان میں سنہ 1400 ہجری میں غروب ہوگیا اور ارباب علم و فن کو روتابلکتا چھوڑ کر امامبارگاہ غفرانمآب میں عروسِ دائمی سے ہم آغوش ہوگیا۔

علامہ موصوف کی وفاتِ پرملال پر دنیا بھر کے ارباب علم و ادب نے اپنے اپنے انداز سے غم کا اظہار کیا۔ کسی نے مضمون نگاری کے ذریعہ تو کسی نے قطعہ وفات کے ذریعہ مرحوم کی خدمت میں خراج عقیدت پیش کیا۔ اظہارغم کرنے والوں کی فہرست بہت طولانی ہے لہٰذا صرف نمونہ کے طور پر چند اداروں اور شہروں کے ناموں کا تذکرہ کررہےہیں: شیعہ عربی کالج لکھنؤ، دفتر تنظیم المکاتب لکھنؤ، شہرمیرٹھ، آرہ، پورہ معروف، جھانسی، راجستھان، پٹنہ، کلکتہ،لاہور، بنارس، جھنگ، الہ آباد،مرادآباد اور دیگر ہزاروں شہروں سے بکثرت تسلیت پیش کی گئی۔
۞۞۞
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج1، ص61، دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2019ء۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • Haider zaidi IN 05:10 - 2022/03/05
    0 0
    Jazakallah bohut achhi malomat uor uolama ko zinda karna bardi bat he
  • احمد حسینی IN 18:32 - 2022/03/07
    0 0
    جزاک اللہ