حوزہ نیوز ایجنسی | آیت اللہ سید علی رضوی 14 ربیع الاول سنہ 1323 ہجری کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد باقر العلوم آیت اللہ سید محمد باقر رضوی ایک جیّد عالم دین تھے، آپ نےابتدائی تعلیم اپنے خانوادہ کے علماء سے گھر میں حاصل کی۔ پھر اس کے بعد مدرسہ سلطان المدارس میں داخل ہوئے اور مدرسہ کے اساتذہ کرام سے کسب فیض کرنے کے بعد صدر الافاضل کی سند دریافت کی۔ آیت اللہ سید علی مدرسہ سلطان المدارس سے فارغ ہونے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے حصول کی غرض سے عراق تشریف لے گئے ۔ وہاں حوزہ علمیہ نجف اشرف اورحوزہ علمیہ کربلا ۓمعلیٰ میں عظیم علماء و فقہاء کی خدمت میں رہ کر کسب فیض کیا ۔
آپ کے اساتذہ میں باقر العلوم آیت اللہ سید محمد باقر رضوی ، ہادی الملت آیۃ اللہ سید محمد ہادی رضوی آیت اللہ سید ابوالحسن موسوی اصفہانی ، آیت اللہ شیخ ضیاء الدین عراقی ، علامہ شیخ محمد کاظم شیرازی ، علامہ شیخ ابراہیم رشتی ، آیت اللہ شیخ عبدالحسین رشتی ، آیت اللہ علامہ سید محسن امین عاملی اور علامہ شیخ ہادی آل کاشف الغطاء کے اسماء قابل ذکر ہیں۔
علماء نجف نے آپ کو " اجتہاد اور روایات" کی اسناد سے نوازا جن میں آیتاللہضیاءالدین عراقی ، آیت اللہہادی آل کاشف الغطاء ،آیت اللہمحمد کاظم اور آیت اللہ ابراہیم رشتی نے اسناداجتہاد سے نوازا اور آیت اللہ عبدالحسین رشتی ، آیت اللہ ابوالحسن موسوی اور آیت اللہ محسن الامین آملی نے نقل روایت کی اسناد عطاء فرمائیں۔
جب آپ عراق سے اپنے وطن واپس تشریف لائے تو مدرسہ سلطان المدارس کے درجہ فوقانیہ میں استاد کی حیثیت سے مقرر ہوئے۔ آپ صدر الافاضل کے طلاب کو نہج البلاغہ اور دیوان حماسہ تدریس فرماتے تھے۔ نادرۃ الزمن علامہ ابن حسن نونہروی نے اپنے شاگردوں کو نصیحت کی کہ اگر نہج البلاغہ پڑھنی ہے تو مولانا سید علی رضوی سے پڑھو کیوں کہ اس وقت ان سے بہتر ہندوستان میں کوئی اور نہج البلاغہ نہیں پڑھا سکتا ، انکے علاوہ ظفر الملت مولانا سید ظفر الحسن اور اسی طرح دیگر اہل علم و نظر جب کسی طالب علم کو حصول علم کے لئے لکھنؤ بھیجتے تو اسے نصیحت کرتے کہ نہج البلاغہ آیت اللہ سید علی رضوی سے پڑھنا۔ آپ کو عربی زبان و ادب پر مکمل عبور حاصل تھا ، عربی شعراء کے اشعار کثرت سے حفظ تھے اور خود بھی عربی میں اشعار کہتے تھے۔ طلاب کو عربی ادب پڑھاتے تو مثالوں میں عربی اشعار سناتے تھے۔
ہر سال 22شعبان المعظم کو مولانا سید محمد صالح کے گھر پر محفل امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف منعقد ہوتی تھی ، جسمیں اردو کے ساتھ ساتھ عربی قصائد بھی پڑھے جاتے تھے ، ایک سال آیت اللہ سید علی رضوی نے عربی میں قصیدہ پیش کیا تو دوسرے عربی زبان شعراءنے یہ کہتے ہوئے اپنا کلام پیش کرنے سے انکار کر دیا کہ جناب کے مکمل کلام کے بعد اب گنجائش نہیں کہ ہم کلام پیش کریں۔
آپ عربی ادب کے علاوہ علم فقہ، اصول، منقولات اور معقولات میں بھی ماہر تھے۔ آپ نے حوزہ علمیہ کی معروف کتاب ‘‘کفایۃ الاصول’’ کی عربی میں شرح لکھنا شروع کی لیکن مصروفیات کے سبب مکمل نہ کر سکے۔
آیت اللہ سید علی رضوی ؒ نے تقریباً چالیس برس سلطان المدارس میں طلاب کی تربیت فرمائی ۔ آپ کے شاگردوں کی فہرست طویل ہے جن میں کچھ اسطرح ہیں : آیت اللہ سید محسن نواب، آیت اللہ سید محمد جعفر رضوی ،مولانا سید شبیہ الحسن نونہروی،مولانا سید محمد باقر صدر الافاضل ،مولانا سید نجم الحسن رضوی کراروی،مولانا مرزا محمد عالم ،مولانا مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی، مولانا سید محمد تقی رضوی (آل باقر العلومؒ)، اور حکیم امت مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق نقوی۔
سنہ 1975 عیسوی میں آپ کے بڑے بھائی آیت اللہ سید محمد رضوی کی وفات کے بعد مدرسہ کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر آ گئی ۔ سنہ 1975ء سے 1985ء تک آپ مدرسہ کے پرنسپل رہے۔
نماز ظہرین کے بعد جب شریعت کدہ پر تشریف لاتے تو مختصر آرام کے بعد مدارس کے طلاب درس پڑھنے کے لئے آپ کے گھر آتے تھے۔ ظہر کے بعد آپ کا گھر بھی مدرسہ کی شکل اختیار کر لیتا تھا ، آپ کا سارا ہم و غم یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ طلاب کی تربیت کی جا سکے۔ آیت اللہ سید علی رضوی سلطان المدارس کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مدرسۃ الواعظین اورشیعہ عربی کالج کے ممتحن بھی تھے۔ آپ تبلیغ کے لئے ہر سال ماہ رمضان میں الہ آباد تشریف لے جاتے تھے۔ صفوۃ العلماء مولانا سید کلب عابد کی عدم موجودگی میں شاہی آصفی مسجد لکھنؤ میں نماز جمعہ کی امامت بھی فرماتے تھے۔
آیت اللہ سید علی رضوی دینی، تعلیمی اور تبلیغی خدمات میں مصروفیت کے باوجود کبھی بھی قومی مسائل سے غافل نہیں ہوئے ۔ مدتوں مجلس علمائے شیعہ میں نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اسی طرح لکھنؤ کی عزاداری کے تحفظ کی خاطر علماء و مومنین کے ساتھ جیل میں بھی رہے۔
جہاں آپ ہندوستان کے علماء و مومنین کے نزدیک قابل احترام تھے وہیں ایران و عراق کے علماء بھی آپ سے کافی متاثر تھے، آیت اللہ اکبر ہاشمی رفسنجانی ؒ جب پہلی بار ایران سے لکھنؤ تشریف لائے تو ملاقات کے لئے آپ کے شریعت کدہ پر بھی حاضر ہوئے جو یقیناً انتہائی غیر معمولی بات ہے۔ آپ کی زندگی انتہائی سادہ تھی ، غرباء و مساکین کی امداد میں سبقت فرماتے تھے۔ بڑے بڑے اہل ثروت آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے لیکن آپ نے کبھی ان سے اپنی ذات اور اپنے اہل وعیال کے لئے کوئی مطالبہ نہیں کیا ۔
آپ نے مصروفیت کے با وجود امام زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں کے مجموعہ صحیفہ سجادیہ کا اردو ترجمہ کیا، جو صرف ترجمہ ہی نہیں ہے بلکہ دعائےمعصوم کی دعا کی ترجمانی سے نزدیک ہے، اسی طرح ‘‘دعائے سمات’’ کا بھی سلیس اردو میں ترجمہ فرمایا۔
آیت اللہ سید علی رضوی کی شادی خانہ آبادی آپ کے چچا ہادی الملت آیۃ اللہ سید محمد ہادی کی دختر نیک اختر سے ہوئی ۔ اللہ نے آپ کو تین بیٹیاں اور تین بیٹے عطا کیے۔ بیٹوں کے نام کچھ اس طرح ہیں: مولانا سید محمد عباس کربلائی، مولانا سید حیدر عباس اور جناب سید ظفر عباس رضوی ۔
آخرکار یہ علم و عمل کا آفتاب 12ربیع الثانی سن 1406 ہجری بمطابق 25 دسمبر سن 1985 عیسوی میں سر زمین لکھنؤ پر غروب ہو گیا اور نماز جنازہ کے بعد مجمع کی ہزار آہ و بکاء کے ہمراہ حسینیہ غفرانمآب ؒ لکھنؤ میں سپرد خاک کر دیا گیا ۔
ماخوذ از : نجوم الہدایہ، تحقیق و تالیف: مولانا سید غافر رضوی فلکؔ چھولسی و مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی، ج9، ص 121دانشنامہ اسلام، انٹرنیشنل نورمیکروفلم دہلی 2023