۱۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۹ شوال ۱۴۴۵ | May 8, 2024
News ID: 391089
8 جون 2023 - 00:27
آیۃ اللہ سید علی رضوی ؒ 

حوزہ/ آیۃ اللہ سید علی رضوی طاب ثراہ دینی، علمی، تعلیمی، تبلیغی خدمات میں مصروفیت کے باوجود کبھی بھی قومی مسائل سے غافل نہیں ہوئے ۔ مدتوں شیعہ مجلس علماء میں نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دی اسی طرح لکھنؤ کی عزاداری کے تحفظ کی خاطر دیگر علماء و مومنین کے ہمراہ جیل بھی گئے۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | آیۃ اللہ سید علی رضوی طاب ثراہ کا تعلق ایک دینی اور علمی خانوادہ سے ہے ، سن 821 ہجری میں ایران کے مشہور و معروف شہر حرم اہل بیت ؑ عشّ آل محمد قم مقدس سے آپ کے جد اعلیٰ عالم و عارف مولانا سید حسین رضوی کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کشمیر تشریف لائے تھے۔ مولانا سید حسین رضوی ؒ صاحب کرامت عالم تھے ، آپ کا زہد و تقویٰ مشہور تھا ، تقریباً نصف صدی تک آپ نے کشمیر اور اس کے اطراف میں مذہب حقہ اہل بیت علیہم السلام کی تبلیغ و ترویج فرمائی ۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کی اولاد نے آپ کے مشن کو آگے بڑھایا۔

مولانا سید حسین رضوی کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کی نسل میں بہت سے عظیم علماء و فقہاء گذرے ہیں جنہوں نے مذہب اہل بیت علیہم السلام کی تبلیغ و ترویج میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں ۔ ان میں سے ایک بانی مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ (لکھنو) فقیہ احسن نادرۃ الزمن آیۃ اللہ العظمی سید ابوالحسن رضوی کشمیری المعروف بہ آغا ابّو رحمۃ اللہ علیہ اور انکے فرزند ارجمند عالم و فقیہ سرکار باقر العلوم آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمدباقر رضوی اعلیٰ اللہ مقامہ تھے۔آیۃ اللہ سید علی رضوی ؒ 

سرکار باقر العلوم رحمۃ اللہ علیہ کی نمایاں خدمات میں سے ایک ان کے والد ماجد کے قائم کردہ مدرسہ سلطان المدارس کی موجودہ عمارت ہے کہ اس سے پہلے مدرسہ کی اپنی کوئی عمارت نہیں تھی۔

سرکار باقر العلوم ؒ کے منجھلے فرزند حافظ و معلم نہج البلاغہ ، شارح صحیفہ سجادیہ آیۃ اللہ سید علی رضوی طاب ثراہ تھے ۔ آپ 14؍ ربیع الاول سن 1323 ہجری مطابق 20 مئی سن 1905 عیسوی کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے ۔ گھر میں ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ سلطان المدارس سے صدر الافاضل کیا ، اس کے بعد مزید اعلیٰ تعلیم کے سلسلہ میں عراق تشریف لے گئے جہاں حوزہ علمیہ نجف اشرف اور حوزہ علمیہ کربلا معلیٰ میں عظیم علماء و فقہاء سے کسب فیض کیا اور ان سے اجتہاد و روایات کے اجازات حاصل کئے ۔ 16؍ شعبان المعظم سن 1346 ہجری کو جب آپ کے والد ماجد سرکار باقر العلوم ؒ کا سفر زیارت کے دوران کربلا معلیٰ میں انتقال ہوا تو اس وقت آپ اور آٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓپ کے بھائی آیۃ اللہ سید محمد رضوی طاب ثراہ وہیں تھے۔

آیۃ اللہ سید علی رضوی طاب ثراہ نے ہندوستان اور عراق میں جن علماء اور فقہاء سے شرف تلمذ حاصل کیا ، انمیں سب سے پہلے آپ کے والد ماجد سرکار باقر العلوم آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد باقر رضوی اعلیٰ اللہ مقامہ، چچا سرکار ہادی الملت آیۃ اللہ سید محمد ہادی رضوی رحمۃ اللہ علیہ تھے اور عراق میں آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن موسوی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ (سرکار باقر العلوم ؒکے ہم درس تھے)، علامہ شیخ محمد بن رجب علی عسکری تہرانی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ آقا ضیاء الدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ شیخ محمد کاظم شیرازی رحمۃ اللہ علیہ ، علامہ شیخ ابراہیم رشتی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ شیخ عبدالحسین رشتی رحمۃ اللہ علیہ، صاحب اعیان الشیعہ آیۃ اللہ علامہ سید محسن امین عاملی رحمۃ اللہ علیہ اور صاحب مستدرک نہج البلاغہ علامہ شیخ ہادی آل کاشف الغطاء رحمۃ اللہ علیہ سے کسب فیض کیا اور اجہتاد و روایات کے اجازات حاصل کئے۔

نجف اشرف سے جب اپنے وطن لکھنؤ تشریف لائے تو مدرسہ سلطان المدارس میں درجہ عالیہ میں استاد کی حیثیت سے آپ کا تقرر ہوا۔ آپ سند الافاضل کے طلاب کو نہج البلاغہ اور دیوان حماسہ تدریس فرماتے تھے۔ نہج البلاغہ کی تدریس میں آپ کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ نادرۃ الزمن علامہ ابن حسن نونہروی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگردوں کو نصیحت کی کہ اگر نہج البلاغہ پڑھنی ہے تو مولانا سید علی رضوی صاحب قبلہ سے پڑھو کیوں کہ اس وقت ان سے بہتر ہندوستان میں کوئی اور نہج البلاغہ نہیں پڑھا سکتا ، بلکہ ظفر الملت مولانا سید ظفر الحسن صاحب طاب ثراہ اور اسی طرح دیگر اہل علم و اہل نظر جب کسی طالب علم کو حصول علم کے لئے لکھنؤ بھیجتے تو اسے نصیحت کرتے کہ نہج البلاغہ آیۃ اللہ سید علی رضوی صاحب قبلہ سے پڑھنا۔

آپ کو عربی زبان و ادب پر بھی مکمل عبور حاصل تھا اور عربی شعراء کے اشعار کثرت سے حفظ تھے اور خود بھی عربی میں اشعار کہتے تھے۔ طلاب کو عربی ادب پڑھاتے وقت مثالوں میں کثرت سے اپنے اور دوسرے شعراء کے اشعار سناتے تھے۔ جیسا کہ آپ کے شاگرد مولانا سید شبیہ الحسین نونہروی طاب ثراہ (سابق ہیڈ آف دی ڈپارٹمنٹ لکھنؤ یونیورسٹی ) نے بیان فرمایا : ‘‘ہم جناب سے بہت مانوس تھے، دوران درس کبھی کبھی جب ان سے عربی اشعار کی خواہش ظاہر کرتے تو آپ فی البدیہ بہت سے عربی اشعار سناتے تھے۔ ’’

مولانا سید لیاقت رضا رضوی طاب ثراہ نے بیان فرمایا کہ 22؍ شعبان المعظم کو ہر سال مولانا سید محمد صالح صاحب مرحوم کے گھر پر محفل امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف منعقد ہوتی تھی ، جسمیں اردو کے ساتھ ساتھ عربی قصائد بھی پڑھے جاتے تھے ، ایک سال آیۃ اللہ سید علی رضوی صاحب مرحوم نے عربی میں قصیدہ پیش کیا تو دوسرے عربی زبان شاعر نے یہ کہتے ہوئے اپنا کلام پیش کرنے سے انکار کر دیا کہ ‘‘جناب کے مکمل کلام کے بعد اب گنجائش نہیں کہ ناچیز کلام پیش کرے۔’’

عربی ادب کے علاوہ علم فقہ و علم اصول فقہ اور منقولات و معقولات میں بھی ماہر تھے۔ آپ نے حوزہ علمیہ کی معروف کتاب ‘‘کفایۃ الاصول’’ کی عربی میں شرح لکھنا شروع کی لیکن تدریسی و دیگر مصروفیات کے سبب مکمل نہ کر سکے۔

آیۃ اللہ سید علی رضوی ؒ نے تقریباً چالیس برس مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ میں طلاب کی تعلیم و تربیت فرمائی ، آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے جنمیں سے چند کے اسماء گرامی مندرجہ ذیل ہیں ۔

مولانا سید محمد مہدی رضوی صاحب مرحوم

مولانا سید محمد صالح رضوی صاحب مرحوم

مولانا سید ابن حسن رضوی کربلائی صاحب مرحوم

مولانا سید محمد عباس رضوی صاحب مرحوم

جناب مولانا سید محسن نواب صاحب مرحوم

مولانا سید محمد جعفر رضوی صاحب مرحوم (سابق پرنسپل مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ)

مولانا ڈاکٹر سید بدر الحسن صاحب مرحوم

مولانا ڈاکٹر سید شبیہ الحسن نونہروی صاحب مرحوم

مولانا پروفیسر سلیمان عباس صاحب مرحوم

مولانا ڈاکٹر حسین محمد جعفری صاحب مرحوم

مولانا شیخ رضوان حسین صاحب (مبلغ افریقہ)

مولانا سید محمد عباس صاحب (مبلغ افریقہ)

مولانا خلیل عباس صاحب صدر الافاضل (مبلغ افریقہ)

مولانا سید محمد باقر صاحب مرحوم صدر الافاضل (سابق مدیر اصلاح ، کھجوا)

مولانا سید نجم الحسن رضوی کراروی صاحب مرحوم

مولانا مرزا محمد عالم صاحب مرحوم (بانیٔ جامعۃ التبلیغ لکھنؤ)

مولانا مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی صاحب مرحوم

خطیب اکبر مولانا مرزا محمد اطہر صاحب مرحوم

مولانا سید محمد تقی رضوی صاحب مرحوم (آل باقر العلومؒ)

حکیم امت مولانا ڈاکٹر سید کلب صادق نقوی صاحب مرحوم

سلطان العلماء مولانا سید غلام حسین رضا آقا صاحب مرحوم حیدر آباد

مولانا سید غلام مرتضیٰ صاحب

مولانا محمد مظہر حسین معروفی صاحب مرحوم

مولانا تفضل مہدی معروفی صاحب

مولانا علی قاسم رضوی صاحب مرحوم (مدفون وادی السلام نجف اشرف)

مولانا مشتاق احمد کوپاگنجی صاحب

مولانا سید بیدار حسین صاحب مرحوم (استاد سلطان المدارس)

مولانا شفیق حسین صاحب (استاد سلطان المدارس)

مولانا سید محمد اصغر صاحب (استاد سلطان المدارس)

مولانا محمد حسن معروفی صاحب ( مبلغ لندن)

آفتاب شریعت مولانا سید کلب جواد نقوی صاحب قبلہ (امام جمعہ لکھنؤ)

مولانا سید محمد مجتبیٰ رضوی صاحب قبلہ (استاد سلطان المدارس)

سن 1975 عیسوی میں جب آپ کے بڑے بھائی آیۃ اللہ سید محمد رضوی طاب ثراہ (سابق پرنسپل مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ) کی وفات ہوگئی تو مدرسہ کی مدیریت کی ذمہ داری آپ کے سپرد ہوئی ۔ تقریباً دس برس 1975 سے 1985 تک آپ مدرسہ کے پرنسپل رہے۔ یوں تو جناب مدرسہ کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لئے ہمیشہ اپنے بڑے بھائی کے شانہ بہ شانہ رہے لیکن آپ کے اہم کارناموں میں سے ایک مدرسہ سلطان المدارس کی باؤنڈری وال ہے جس سے مدرسہ کے دشمنوں کے منصوبوں پر پانی پھر گیا۔

آیۃ اللہ سید علی رضوی طاب ثراہ نے امام زین العابدین علیہ السلام کی دعاؤں کے مجموعہ صحیفہ سجادیہ کا ترجمہ فرمایا ، چونکہ آپ عربی ، فارسی اور اردو تینوں زبانو کے ماہر تھے ، تینوں زبانوں میں اس کی شرحیں آپ کے پیش نظر تھیں لہذا آپ کا ترجمہ صرف ترجمہ نہیں بلکہ دعاء معصوم کی ترجمانی سے نزدیک ہے، نیز یہ جہاں ایک دینی اور علمی کتاب ہے وہیں ایک ادبی کتاب بھی ہے۔

اسی طرح روز جمعہ آخری وقت میں پڑھی جانے والی مشہور دعا ‘‘دعائے سمات’’ کا بھی آپ نے ترجمہ فرمایا۔ ممکن ہے بعض اذہان میں سوال پیدا ہو کہ آخر اتنی عظیم دینی اور علمی شخصیت ہونے کے باوجود آپ کے قلمی آثار بہت ہی کم ہیں تو اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ آپ تدریس میں زیادہ مصروف رہتے تھے۔ صبح سے ظہر تک مدرسہ سلطان المدارس میں تدریس فرماتے۔ نماز ظہرین کے بعد جب شریعت کدہ پر تشریف لاتے تو مختصر آرام کے بعد لکھنؤ کے مختلف مدارس کے طلاب پڑھنے کے لئے آپ کے گھر آتے تھے یعنی ظہر کے بعد آپ کا گھر بھی مدرسہ کی شکل اختیار کر لیتا، آپ کا سارا ہم و غم تھا کہ زیادہ سے زیادہ طلاب کی تعلیم و تربیت کی جا سکے، اسی طرح مدرسہ سلطان المدراس کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مدرسۃ الواعظین ، شیعہ عربی کالج کے ممتحن اور شیعہ کالج مینیجنگ کمیٹی کے ممبر تھے۔ تبلیغ کے لئے ہر سال ماہ رمضان میں الہ آباد تشریف لے جاتے تھے۔ نیز صفوۃ العلماء آقائے شریعت مولانا سید کلب عابد صاحب مرحوم کی عدم موجودگی میں شاہی آصفی مسجد لکھنؤ میں بعض اوقات نماز جمعہ کی امامت بھی فرماتے تھے۔

آیۃ اللہ سید علی رضوی طاب ثراہ دینی، علمی ، تعلیمی ، تبلیغی خدمات میں مصروفیت کے باوجود کبھی بھی قومی مسائل سے غافل نہیں ہوئے ۔ مدتوں شیعہ مجلس علماء میں نائب صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دی اسی طرح لکھنؤ کی عزاداری کے تحفظ کی خاطر دیگر علماء و مومنین کے ہمراہ جیل بھی گئے۔

آیۃ اللہ سید علی رضوی طاب ثراہ کا جہاں ہندوستان میں علماء و مومنین احترام کرتے تھے وہیں بیرون ممالک خاص طور سے ایران و عراق کے علماء بھی آپ سے کافی متاثر تھے، آیۃ اللہ اکبر ہاشمی رفسنجانی ؒ جب پہلی بار ایران سے لکھنؤ تشریف لائے تو ملاقات کے لئے جناب کے شریعت کدہ پر بھی حاضر ہوئے جو یقیناً انتہائی غیر معمولی بات ہے۔ آپ کو رہبر کبیر انقلاب آیۃ اللہ العظمیٰ سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ اور اسلامی انقلاب سے خاص لگاؤ تھا کہ آپ نے اپنے فرزند مولانا سید حیدر عباس رضوی صاحب قبلہ سے امام خمینی قدس سرہ کے نام ایک لکھوا کر بھیجا ۔

تمام تر دینی اور علمی عظمت کے باوجود آپ کی زندگی انتہائی سادہ تھی ، غرباء و مساکین کی امداد میں سبقت فرماتے تھے۔ بڑے بڑے اہل ثروت آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے لیکن کبھی ان سے اپنی ذات اور اپنے اہل عیال کے لئے کوئی مطالبہ نہیں کیا بلکہ انہیں احساس بھی نہیں ہونے دیتے تھے۔ آپ کے بھانجے آفتاب شریعت مولانا سید کلب جواد نقوی صاحب قبلہ امام جمعہ لکھنؤ نے اپنے مقالے میں تحریر فرمایا: ‘‘غیرت اور حمیت انسان کے کردار کا زیور ہے ، عزت نفس کی حفاظت کرنا کمال انسانیت ہے، ماموں ابا (آیۃ اللہ سید علی رضوی) اعلیٰ اللہ مقامہ کی غیرت و حمیت لائق صد ستائش اور ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ اس واقعہ کا میں خود گواہ ہوں ۔ خوجہ جماعت کے صدر لکھنؤ تشریف لائے ، میرے ماموں نے کھانے کی دعوت کی۔ صدر صاحب نے دعوت قبول کر لی۔ ماموں ابا مرحوم کا ملاقات کا کمرہ قدرے غنیمت تھا ۔ وہاں کھانا ہوا۔ ماموں ابا نے مہمان کے ہاتھ بھی وہیں دھلوائے ۔جب مہمان چلے گئے تو میں نے پوچھا کہ گھر کے صحن میں حوض موجود ہے ، آپ مہمان کو ہاتھ دھلوانے کے لئے وہاں کیوں نہیں لے گئے ۔ فرمایا: تم دیکھ رہے ہو میرا گھر ٹوٹا ہوا ہے اگر میں مہمان کو صحن میں لاتا تو انکی نظر میرے ٹوٹے ہوئے بوسیدہ گھر پر پڑتی ، اس بات کو میری غیرت نے گوارا نہیں کیا ، پھر فرمایا: دوسرا پہلو یہ ہے کہ کہیں انکے ذہن میں یہ خیال نہ آ جاتا کہ میں جان بوجھ کر انہیں اپنا ٹوٹا گھر دکھا رہا ہوں تا کہ ان کی طرف سے کچھ امداد مل جائے ۔ اس لئے میں انہیں حوض کی طرف نہیں لایا ۔ کردار کی ایسی مثالیں اب نادر و نایاب ہیں ۔ ’’

آیۃ اللہ سید علی رضوی طاب ثراہ کی شادی خانہ آبادی آپ کے چچا ہادی الملت آیۃ اللہ سید محمد ہادی طاب ثراہ کی دختر نیک اختر سے ہوئی ۔ اللہ نے آپ کو تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا کیں۔

۱۔ مولانا سید محمد عباس کربلائی صاحب مرحوم ( کربلائی میاں)

۲۔ مولانا سید حیدر عباس رضوی صاحب قبلہ کہ جنہوں اپنے والد ماجد کے ترجمہ صحیفہ سجادیہ کو ایک بار پھر ادارہ اصلاح لکھنؤ کے ذریعہ نشر کرایا ہے، نیز آپ کے دو بیٹے برادران عزیز حجۃ الاسلام مولانا سید علی عباس رضوی صاحب قبلہ اور حجۃ الاسلام مولانا سید اطہر عباس رضوی صاحب قبلہ ہیں اور الحمد للہ دونوں اپنے آباء کے علمی وارث بھی ہیں ۔

۳۔ جناب سید ظفر عباس رضوی صاحب مرحوم (سابق لائبریرین مدرسہ سلطان المدارس لکھنؤ)

بڑی بیٹی مولانا سید محمد صالح صاحب مرحوم استاد فقہیات مدرسہ سلطان المدارس کی اہلیہ تھیں۔

منجھلی بیٹی جناب مولانا سید محمد جعفر رضوی صاحب مرحوم (سابق پرنسپل مدرسہ سلطان المدارس و جامعہ سلطانیہ) کی اہلیہ تھیں ۔

چھوٹی بیٹی مولانا سید لیاقت رضا رضوی صاحب مرحوم کی اہلیہ مرحومہ تھیں۔

آیۃ اللہ سید علی رضوی طاب ثراہ کا 12؍ ربیع الثانی سن 1406 ہجری مطابق 25 دسمبر سن 1985 عیسوی کو لکھنؤ میں انتقال ہوا اور حسینیہ غفرانمآب ؒ لکھنؤ میں دفن ہوئے ۔

یقیناً موت ہر ذی روح کا نصیب ہے ، موت انکے لئے نابودی اور عدم ہے جنہیں دنیا میں صرف اپنی اور اپنے والوں کی فکر رہتی ہے اور صرف انہیں کی آسائش کا خیال رہتا ہے ، دوسروں پر کچھ بھی گذر جائے اس سے انہیں کوئی مطلب نہیں ، کسی پر کیا بیت جائے اس سے انہیں کوئی واسطہ نہیں ۔ لیکن اس کے برخلاف جنکی زندگیاں اطاعت خدا میں بسر ہوتی ہیں ، اللہ کی عبادت اور اسکی مخلوق کی خدمت جنکی زندگیوں کا نصب العین ہوتا ہے وہ خود تو دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن ان کے چھوڑے نقوش نسل آئندہ کے لئے مشعل راہ اور ان کے آثار صدقہ جاریہ ہوتے ہیں ۔ آیۃ اللہ سید علی رضوی رحمۃ اللہ علیہ ۳۸ برس قبل دنیا سے گذر گئے لیکن انکی دینی، علمی، تعلیمی ، تربیتی اور ثقافتی آثار ان کے باقیات الصالحات میں شامل ہیں ۔

مومنین کرام سے مرحوم کے علوئے درجات کے لئے سورہ فاتحہ کی گذارش ہے۔

(علماء کے مقالات اور مولانا سید حیدر عباس رضوی صاحب قبلہ (آل باقر العلومؒ) کے بیان سے ماخوذ)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .