حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، شاید آپ کو سن کر تعجب ہو اور ذہن میں سوال اٹھے کہ ایک ہندو حرم امام رضا علیہ السلام کا کفش بردار کیسے بن سکتا ہے، اور اس کے لئے حرم میں ایک مخصوص کمرہ بنایا جائے جہاں وہ زائرین کے جوتوں کی حفاظت کر سکے؟! لیکن یہ حقیقت ہے، یہ واقعہ آج سے تقریباً 175 سال پہلے رونما ہوا ، مشہد میں یہ پہلا کوئی غیر ملکی تھا جو ہندوستان سے تعلق رکھتا تھا،اس شخص نے حرم امام رضا علیہ السلام میں کفش برداری کا شعبہ سنبھالا، ایک ایسا شخص جو اپنے دوستوں کے ساتھ ایران گھومنے کے لئے آیا اور مشہد کو اپنی آخری منزل بنا بیٹھا۔
اس نے حرم امام رضا علیہ السلام کو دیکھا اور گرویدہ ہو گیا، چوں کہ مسلمان نہیں تھا لہذا دوستوں کو طعنوں سے بچنے کے لئے خود کو دوستوں سے مخفی کر بیٹھا ، دوستوں نے اسے مسلسل کئی دنوں تک ہر طرف ڈھونڈھا لیکن انہوں نے بھی ہار مان لی اور اس کے بغیر ہی ہندوستان واپس جانا پڑا،وہ فارسی نہیں جانتا تھا اور اس کے پاس ٹھہرنے کی جگہ نہیں تھی، اس لیے اس نے امام رضا علیہ السلام کے حرم میں پناہ لی۔
اس کا حرم میں پناہ لینا ہی سبب بنا کہ حرم امام رضا علیہ السلام کے پہلے غیر ملکی کفش برداری کا کمرےہ بعنوان ’’کفشداری ہندی ہا‘‘ کاوجود عمل میں آیا، (کفشداری، یعنی وہ جگہ جہاں زائرین اپنے جوتوں کو حرم میں داخل ہوتے وقت جمع کراتے ہیں)۔
یہ کفش برداری کا کمرہ آج بھی حرم مطہر کے صحن آزادی میں موجود ہے، جہاں آج بھی اس کی پانچویں نسل مسلسل خدمت کر رہی ہے اور اسے اپنے لئے باعث فخر سمجھتی ہے اور اعزازی خادم کے طور پر مصروف خدمت ہے۔ اس ہندوستانی کی چوتھی نسل کے چشم و چراغ ’’محمد ارجمندنیا‘‘ سے جب بات ہوئی انہوں نے اس کی تفصیل بتائی۔
’’محمد ارجمندنیا‘‘ جو کہ اس وقت 87 سال کے ہو چکے ہیں، ان کے فرزند حسین آج بھی حرم میں زائرین کے جوتے جمع کرتے ہیں ، محمد ارجمندنیا نے اس ہندوستانی سے آئے ہوئے ہندو کا نام بتانے سے گریز کیا لیکن پھر بھی عضد الملک یا نائب التولیہ کے نام سے ان کی دستخط موجود ہے۔
بظاہر، یہ ہندو شخص اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ اس کے دوست ہندوستان واپس جا چکے ہیں، اپنے قیام کے لیے حرم کا انتخاب کرتا ہے ، چونکہ اس زمانے میں مغرب کی اذان کے 2 گھنٹے بعد حرم کے دروازے بند کر دئے جاتے تھے، اس لیے ایک خادم نے اسے حرم سے باہر نکال دیا، لیکن وہ صبح تک دروازے کے پاس ہی کھڑا رہا، اس خادم نے امام رضا علیہ السلام کو خواب میں دیکھا کہ امام کہہ رہے ہیں کہ تم نے میرے غلام کو حرم سے کیوں نکال دیا؟
اس خواب کے بعد وہ خادم اس ہندو ہندوستانی شخص کا ہاتھ پکڑتا ہے اور مشہد کے ایک عالم دین کے پاس لے جاتا ہے جو اردو زبان سے واقف تھا، وہ ہندو نے اپنے وطن اور گھر کے بارے میں بتایا کہ وہ کہاں سے آیا ہے اور امام رضا علیہ السلام سے اپنی محبت کے بارے میں بتاتا ہے، اور مسلمان ہونے کی خواہش ظاہر کرتا ہے اور وہ موقع پر ہی مسلمان ہو جاتا ہے۔
’’محمد ارجمندنیا‘‘ نے بتایا کہ اس ہندوستانی شخص نے اس عالم دین سے کہا کہ میں زائرین کا کفش بردار بنوں گا اور ان کے جوتوں کی حفاظت کروں گا۔
مسلمان ہونے کے بعد اس کا نام ’’غلام رضا ‘‘رکھ دیا جاتا ہے، اور وہ صحن آزادی (صحن نو) میں زائرین کے جوتے جمع کرنا شروع کر دیتا ہے، اس شخص کو صحن آزادی میں جوتے جمع کرنے کا ذمہ دار بنا جاتا ہے، حرم امام رضا علیہ السلام میں آج بھی کفشدار ۸ ، کفشداری ہندی ہا کے نام سے موجود ہے۔