۱۶ آبان ۱۴۰۳ |۴ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 6, 2024
News ID: 393781
5 اکتوبر 2024 - 08:41
ماہ ربیع الثانی 

حوزہ/ ہجری سن کا چوتھا مہینہ ماہ ربیع الثانی ہے، ماہ ربیع الاول کے بعد ہونے کے سبب اسے ربیع الآخر یا ربیع الثانی کہتے ہیں۔ یہ مہینہ کئی جہتوں سے اہمیت کا حامل ہے۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | ہجری سن کا چوتھا مہینہ ماہ ربیع الثانی ہے، ماہ ربیع الاول کے بعد ہونے کے سبب اسے ربیع الآخر یا ربیع الثانی کہتے ہیں۔ یہ مہینہ کئی جہتوں سے اہمیت کا حامل ہے۔ سرکار ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی میلاد مسعود کے بعد کائنات ، خصوصاً جزیرہ عرب بالاخص مکہ مکرمہ میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کی سبب ، آپؐ کی ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں آیات احکام کے نزول اور اس پر عمل اور خالص عادلانہ نظام حکومت کے قیام کے سبب ، آپؐ کی وفات حسرت آیات کے بعد اسلام کے عادلانہ نظام حکومت میں انحراف ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام کی پچیس سالہ خانہ نشینی کا آغاز اور آپؐ کی اکلوتی یادگار بیٹی حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا پر پڑنے والے مصائب اور آپؑ کی مظلومانہ شہادت سے پہلے کے حالات ۔ اسی طرح امام حسین علیہ السلام اور آپؑ کے با وفا اصحاب کی شہادت اور اہل حرم کی مظلومانہ اسیری کے بعد رہائی اور انکی مدینہ واپسی کے بعد وہاں اور دیگر اسلامی مملکت میں رونما ہونے والے حالات ہیں ۔

ذیل میں ماہ ربیع الثانی کی اہم مناسبتیں پیش ہیں۔

یکم ربیع الثانی

1۔ شہادت رسولؐ کے بعد لشکر اسامہ رومیوں سے جنگ کے لئے نکلا۔ سن 11 ہجری

واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں مسلمانوں کو رومیوں سے جنگ کے لئے لشکر اسامہ میں بھیجا لیکن اس وقت کوئی نہ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نافرمانی کی۔

2۔ قیام توابین سن 65 ہجری

جناب سلیمان بن صرد خزاعی کی سرداری میں اہل کوفہ نے یزیدی حکومت کے خلاف قیام کیا اور اس قیام کا مقصد قاتلان امام حسین علیہ السلام سے انتقام لینا اور حکومت کو اہلبیتؑ کے حوالہ کرنا تھا۔

ربیع الاول سن 65 ہجری کو سلیمان بن صرد خزاعی کی قیادت میں یہ لشکر کوفہ سے مظلوم کربلا کے انتقام کے لئے نکلا ۔ پہلے کربلا پہنچا اور مزار مظلوم پر اپنی کوتاہیوں سے توبہ کی اور گریہ و عزاداری کی۔ اس کے بعد لشکر شام کی جانب روانہ ہوا یکم ربیع الثانی 65 ہجری کو عین الوردہ میں جنگ ہوئی۔ جنگ سے پہلے جناب سلیمان بن صرد خزاعی نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے سیکھے ہوئے آداب جنگ کے مطابق اپنے جانشین معین کئے۔ ( الکامل فی التاریخ، جلد 4، ص180۔ 181)

المختصر شدید جنگ ہوئی اور یکے بعد دیگرے کمانڈر شہید ہوئے آخر میں رفاعہ بن شداد نے سپاہیوں کو جنگ سے روک دیا اور کوفہ واپس ہو لئے۔ (تاریخ الاسلام و وفیات المشاہیر و الاعلام، ج1، ص48)

اگرچہ اس جنگ میں شکست ہوئی اور ظاہراً یہ قیام ناکام ہوا۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو اس قیام کی مثال بارش کے اس پہلے قطرہ جیسی ہے جو اپنا وجود کھو دیتا ہے لیکن بعد والوں کے لئے راہ ہموار کر جاتا ہے۔ اسی طرح یہ قیام ناکام ہوتے ہوئے بھی کامیاب رہا کیونکہ اس نے بعد کے قیاموں خصوصاً قیام مختار کے لئے راہ ہموار کی اور چونکہ واقعۂ کربلا کے بعد یہ قیام پہلا شیعہ اتحاد کا مظہر تھا اس لئے اس سے مذہب کو جلا ملی۔

قیام توابین کے وقت بھی جناب مختار قید خانہ میں تھے جب انہیں اس قیام کی شکست اور جناب سلیمان بن صرد خزاعی وغیرہ کی شہادت کی خبر ملی تو قیام توابین کے باقی ماندہ افراد کو تعزیت پیش کی اور اپنے قیام میں شرکت کی دعوت دی۔ (تاریخ طبری ، ج5، ص606)

3۔ شہادت امام محمد باقر علیہ السلام (ایک روایت) سن 114 ہجری

2؍ ربیع الثانی

1۔ ابن معتز کا قتل سن 296 ہجری

بنی عباس کا واحد حاکم ابوالعباس عبداللہ بن محمد معتز تھا جس نے صرف ایک دن حکومت کی، اگرچہ عبد اللہ بن محمد معتز نے امیرالمومنین علیہ السلام کی مدح میں قصیدے اور امام حسین علیہ السلام کے غم میں مرثیے کہے لیکن عباسی حکومت کے خلاف علویوں کے قیام کا شدید مخالف تھا اور اس نے قسم کھائی تھی کہ اگر اسے حکومت ملی تو حکومت کے خلاف قیام کرنے والے تمام علویوں کو قتل کرا دے گا۔ لیکن یہ بھی خدا کی حکمت کہ اسے حکومت ملی لیکن صرف ایک دن کے لئے۔

کیوں کہ اس کے زمانے میں تخت حکومت پر بنی عباس ہی بیٹھتے تھے لیکن امور حکومت کے تمام اختیارات ترکوں کے ہاتھ میں ہوتے، ترک جو چاہتے کرتے ، جسے چاہتے تخت حکومت پر بٹھاتے اور جسے چاہتے اتار دیتے، قید کر لیتے اور قتل کرا دیتے۔ بنی عباس ان کے سامنے اتنے مجبور تھے کہ ان کے حکم کے مطابق یکے بعد دیگرے تخت حکومت پر بیٹھتے اور آخر میں ترکوں کے ہاتھوں ذلت آمیز معزولی، اسیری اور قتل ان کا مقدر بنتی۔

3؍ ربیع الثانی

1۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام جرجان (صوبہ گلستان ) تشریف لائے۔ سن 255 ہجری

محدث قطب الدین راوندی نے اپنی کتاب الخرائج و الجرائح میں جعفر بن شریف جرجانی سے نقل کیا کہ انھوں نے بیان کیا ۔ میں ایک سال حج پر گیا تو اس سے پہلے سامرہ میں امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ میرے ذریعہ شیعوں نے امامؑ کی خدمت میں کافی مال و اسباب بھیجا تھا ۔ اس سے پہلے کہ میں آپؑ سے پوچھتا کہ اسے کس کو دوں آپؑ نے فرمایا: میرے غلام مبارک کو دے دو۔

میں نے آپ کے حکم کے مطابق عمل کیا اور عرض کیا کہ جرجان کے شیعوں نے آپ ؑ کو سلام کہلایا ہے ۔ آپ ؑ نے پوچھا کیا حج کے بعد جرجان واپس جاؤ گے؟ عرض کیا : جی ہاں تو امامؑ نے فرمایا: تم ایک سو ستر (170) دن بعد جرجان پہنچوگے۔ تم ماہ ربیع الثانی کی تیسری تاریخ روز جمعہ صبح میں جرجان پہنچوگے ۔ میرے شیعوں سے کہنا کہ میں بھی اسی روز دن ڈھلنے سے پہلے وہاں آؤں گا۔ جاؤ خدا تمہیں اور جو کچھ تمہارے پاس ہے اسے محفوظ رکھے ۔ جب تم اپنے گھر واپس پہنچو گے تو تمہارے بیٹے شریف کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہو گا ۔ اس کا نام ’’صلت‘‘ رکھنا ، اللہ اسے عظمت و بزرگی عطا کرے گا اور وہ ہمارے شیعوں میں سے ہو گا۔

میں نے عرض کیا کہ ابراہیم بن اسماعیل جرجانی آپؑ کے شیعہ ہیں وہ آپ کے چاہنے والوں کے ساتھ نیکی سے پیش آتے ہیں ہر سال اپنے مال سے ایک لاکھ درہم انکو عطا کرتے ہیں۔

امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: خدا ابراہیم بن اسماعیل کو ہمارے شیعوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے پر جزائے خیر دے، ان کے گناہوں کو معاف کرے اور اللہ انہیں ایک صحت مند بچہ عطا کرے گاجو حق بولے گا ان سے کہنا کہ (امام ) حسن بن علی (عسکری علیہ السلام ) نے کہا ہے کہ اپنے بیٹے کا نام ’’احمد‘‘ رکھیں۔

میں امام علیہ السلام سے رخصت ہوا اور ارکان حج کی ادائگی کے بعد روز جمعہ 3 ؍ ربیع الثانی سن 255 ہجری کو جرجان پہنچا ۔ رشتہ دار، دوست و احباب اور مومنین مجھ سے ملاقات اور حج کی مبارک باد دینے آئے تو میں نے ان سے کہا کہ ہمارے مولا و آقا حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ آج دن ڈھلنے سے پہلے وہ یہاں تشریف لائیں گے لہذا آپ لوگ ان کی زیارت ، اپنے سوالات کے جوابات اور حاجات کی بر آوری کے لئے تیار رہیں۔

سب لوگ نماز ظہرین ادا کرکے میرے گھر میں جمع ہو گئے ۔ابھی تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ امام حسن عسکری علیہ السلام تشریف لائےاور آپؑ نے ہمیں سلام کیا۔ ہم سب نے آپ کا استقبال کیا اور دست بوسی کا شرف حاصل کیا۔

امام عالی مقام نے فرمایا: میں نے جعفر بن شریف سے وعدہ کیا تھا کہ آج دن ڈھلنے سے پہلے یہاں آؤں گا۔ سامرہ میں نماز ظہرین ادا کی اور یہاں آ گیا تا کہ وعدے کو پورا کروں۔ میں تمہارے سامنے ہوں اپنے سوالات پوچھو اور اپنی حاجتیں بیان کرو۔

سب سے پہلے نضر بن جابر نے عرض کیا کہ فرزند رسولؐ کچھ مہینے پہلے میرے بیٹے کی آنکھوں میں تکلیف کے سبب بینائی چلی گئی ہے ۔ آپ خدا سے دعا فرمائیں کہ اسکی بینائی پلٹ آئے۔

امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا: اسے میرے پاس حاضر کرو۔ جب وہ آیا تو آپؑ نے اسکی آنکھوں پر دست مبارک پھیرا اور وہ پہلے کی طرح بینا ہو گیا۔ اس کے بعد لوگوں نے ایک ایک کر کے آپ کی خدمت میں اپنے سوالات پیش کرئیے اور حاجتیں بیان کیں ۔ امام علیہ السلام نے سب کے سوالات کے جوابات اور حاجتوں کی بر آوری فرمائی اور سامرہ واپس تشریف لے گئے۔

موسوعۃالامام عسکری (علیہ السلام) جلد 1، صفحہ335

4؍ ربیع الثانی

1۔ ولادت حضرت عبدالعظیم حسنی علیہ السلام. سن 173 ہجری

نامور عالم اور راوی حدیث حضرت عبدالعظیم حسنی علیہ السلام کا سلسلہ نسب چار واسطوں سے امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام تک پہنچتا ہے۔ آپ کو کئی معصوم ائمہ علیہم السلام کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا، اپنا عقیدہ امام علی نقی علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا تو امامؑ نے اس کی تائید و توصیف فرمائی۔

حضرت عبدالعظیم حسنی علیہ السلا م کا مزار مقدس شہر ری (تہران) میں ہے ۔ بعض روایات کے مطابق آپ کے زائر کو امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب ملتا ہے۔

6؍ ربیع الثانی

1۔ مرگ ہشام بن عبدالملک بن مروان۔ سن 125 ہجری

دسویں اموی حاکم ہشام بن عبدالملک بن مروان نے 19 سال حکومت کی۔ ہشام انتہائی سنگ دل، قصی القلب اور ظالم بادشاہ تھا، اہل بیت علیہم السلام اور ان کے چاہنے والوں کا شدید مخالف تھا ۔ ایک بار اپنے باپ عبالملک کے زمانے میں حج کرنے کے لئے مکہ مکرمہ آٰیا، طواف خانہ کعبہ کے بعد استلام حجر اسود کرنا چاہا لیکن حاجیوں کے جم غفیر کے سبب نہ کر سکا تو ایک کنارے کھڑا ہو گیا، اسی وقت امام زین العابدین علیہ السلام تشریف لائے اور طواف کعبہ کے بعد جب امام عالی مقام استلام حجر کے لئے آگے بڑھے تو مجمع خود بہ خود کنارے ہو گیا ، یہ منظر دیکھ کر ہشام حسد کا شکار ہو گیا ۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ کون ہیں جن کے لئے مجمع خود کنارے ہو گیا تو ہشام نے جانتے ہوئے بھی لا علمی کا اظہار کیا تو وہاں موجود معروف شاعر اہل بیت جناب فرزدق نے امام زین العابدین علیہ السلام کی شان میں فی البدیہہ قصیدہ سنا دیا ۔

جب یزید بن عبالملک کے بعد ہشام حاکم ہوا اور اس کے سیاہ کارناموں کا نیا باب وا ہوا ۔ ہشام نے امام محمد باقر علیہ السلام کو شہید کیا ، شہید حریت حضرت زید کو شہید کرایا۔

2۔ شہادت آیۃ اللہ سید محمد رضا سعیدی رحمۃ اللہ علیہ سن 1390 ہجری

ایران کے معروف شیعہ عالم شہید آیۃ اللہ سید محمد رضا سعیدی رحمۃ اللہ علیہ آیۃ اللہ العظمیٰ سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ اور تحریک انقلاب کے حامی اور مجاہد تھے۔ پہلوی طاغوتی حکومت نے آپ کو اسیر کر کے شہید کر دیا۔ آپ کے فرزند آیۃ اللہ سید محمد سعیدی زید عزہ کریمہ اہلبیتؑ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا قم مقدس کے روضہ مبارک کے متولی ہیں۔ تہران کے موقت امام جمعہ آیۃ اللہ سید احمد خاتمی دام عزہ آپ کے داماد ہیں۔

8؍ ربیع الثانی

1۔ شہادت حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا (رسولؐ خدا کی شہادت کے چالیس دن بعد شہید ہونے والی روایت کے مطابق ) سن 11 ہجری

2۔ ولادت امام حسن عسکری علیہ السلام سن 232 ہجری

۳۔ وفات مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمیٰ فتح الله غروی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ سن 1339 ہجری

9؍ ربیع الثانی

1۔ وفات عالم ، فقیہ اہل بیتؑ و مفسر قرآن آیۃ اللہ اکبر علی ہاشمی رفسنجانی رحمۃ اللہ علیہ (سابق صدر اسلامی جمہوریہ ایران) سن 1438 ہجری

10؍ ربیع الثانی

1۔ وفات کریمہ اہلبیتؑ حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا قم سن 201 ہجری

2۔ ولادت با سعادت حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سن 232 ہجری

3۔ انہدام گنبد امام علی رضا علیہ السلام سن 1330 ہجری

روسی فوجیوں نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ مبارک کے گنبد کو منہدم کیا۔

12؍ ربیع الثانی

1۔ حکم خدا سے پنجگانہ نماز کی تعداد 17 رکعت ہوئی سن یکم ہجری

2۔ آغاز حکومت ابوالعباس سفاح (پہلا عباسی حاکم ) سن 132 ہجری

16؍ ربیع الثانی

1۔ وفات آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمود ہاشمی شاہرودی رحمۃ اللہ علیہ سن 1440 ہجری

عالم، فقیہ، مرجع تقلید اور اسلامی جمہوریہ ایران کے سابق چیف جسٹس، ممبر مجلس خبرگان رہبری، سابق صدر مجمع تشخیص مصلحت نظام

19؍ربیع الثانی

1۔ وفات آیۃ اللہ العظمیٰ سید صدر الدین صدر رحمۃ اللہ علیہ سن 1373 ہجری

22؍ربیع الثانی

1۔ وفات امام زادہ حضرت موسیٰ مبرقع علیہ السلام سن 296 ہجری

آپ امام محمد تقی علیہ السلام کے فرزند، امام علی نقی علیہ السلام کے بھائی اور سادات رضوی کے جد اعلیٰ ہیں۔ آپ کا مزار مقدس قم مقدس میں چہل اختران کے نام سے معروف ہے کیوں کہ آپ کے جوار میں آپ کی نسل کے چالیس سادات دفن ہیں۔

2۔ وفات محدث، مفسر، فقیہ ملا محسن فیض کاشانی رحمۃ اللہ علیہ سن 1091 ہجری

استاد حوزہ علمیہ قم مقدس آیۃ اللہ ڈاکٹر احمد عابدی دام مجدہ نے بیان فرمایا : صفوی دور حکومت میں اصفہان میں شیعہ علماء اور عیسائی علماء میں مناظرہ ہوتا تھا۔ اس وقت عالم تشیع کے ایک عظیم عالم جناب ملا محسن فیض کاشانی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ یورپ سے ایک عیسائی جوان کہ جس کی داڑھی بھی ابھی صحیح سے نہیں نکلی تھی اصفہان آیا اور اس نے کہا کہ میں شیعوں کے سب سے بڑے عالم سے مناظرہ کروں گا اور انہیں شکست دوں گا۔ لوگوں نے اسے ملا فیض کاشانی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپ نے اس جوان سے کہا کہ یورپ میں تجھ سے بڑا کوئی نہ تھا جو مناظرہ کے لئے یہاں آتا تو اس نے جواب دیا کہ آپ میری عمر نہ دیکھیں ، یقین کر لیں کہ مناظرہ میں شکست کھا جائیں گے۔ آپ نے فرمایا ایسا نہیں ہو گا۔ عیسائی جوان نے کہا کہ آپ کو جو پوچھنا ہو مجھ سے پوچھ لیں ۔ صرف میرے ایک سوال کا جواب دے دیں۔ ملا فیض کاشانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: سوال کرو تو اس نے کہا کہ نہیں پہلے آپ کو جو پوچھنا ہے پوچھیں میں بعد میں سوال کروں گا۔

ملا فیض کاشانی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور کوئی چیز لے کر مٹھی بند کر لی اور پوچھا بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ وہ کافی دیر تک سوچتا رہا اور بار بار حیرت سے انکی جانب دیکھتا رہا۔ آپ نے تکرار فرمائی بتاؤ میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ تم تو ابھی کہہ رہے تھے کہ جو پوچھنا ہو پوچھ لیں لیکن تم تو پہلے ہی سوال میں خاموش ہو گئے۔ اس عیسائی جوان نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ آپ کے ہاتھ میں کیا ہے لیکن مجھے حیرت یہ ہے کہ وہ آپ کی جیب اور ہاتھ میں کیسے پہنچی؟ آپ نے پوچھا میرے ہاتھ میں کیا ہے؟ اس نے کہا : جنت کی مٹی ۔ ملا فیض کاشانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: صحیح کہہ رہے ہو ، میرے ہاتھ میں امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک کی خاک ہے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جنت کی خاک بتایا ہے، اس عیسائی جوان نے کہا کہ اگر آپ کے نبی نے یہ فرمایا ہے تو اب مزید بحث کی گنجائش نہیں ہے میں مسلمان ہو رہا ہوں۔

23؍ ربیع الثانی

1۔ وفات عالم ، فقیہ و مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمیٰ احمد نراقی (صاحب کتاب معراج السعادہ) سن 1245 ہجری

تیرہویں صدی ہجری کے عظیم شیعہ عالم، عارف ، فقیہ و مرجع تقلید آیۃ اللہ العظمیٰ احمد نراقی رحمۃ اللہ علیہ المعروف بہ فاضل نراقی ؒ تھے ، آپ نے اپنے والد ملا مہدی نراقی، آیۃ اللہ العظمیٰ سید مہدی بحرالعلوم اور آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ جعفر کاشف الغطا ء رحمۃ اللہ علیہم سے کسب فیض کیا ، آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے جس میں آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ مرتضیٰ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کا نام نامی اسم گرامی سر فہرست ہے۔

اپنے والد ملا مہدی نراقی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد نجف اشرف عراق سے کاشان ایران تشریف لائے اور مومنین کی ہدایت و تبلیغ میں مصروف ہو گئے۔ ایران کے قاجاری شہنشاہ فتح علی شاہ کی جانب سے کاشان میں مقرر حاکم لوگوں پر ظلم کرتا تھا ، لوگ حاکم کے ظلم سے عاجز تھے۔ ملا احمد نراقی رحمۃ اللہ علیہ نے حاکم کاشان کو کاشان سے باہر کر دیا ۔ جب یہ خبر فتح علی شاہ قاجار کو ملی تو اس نے آپ کو بلایا اور غیض و غضب میں بولا کہ آپ حکومت میں دخالت کرتے ہیں۔ ملا احمد نراقی رحمۃ اللہ علیہ نے بارگاہ معبود میں ہاتھوں کو بلند کیا اور عرض کیا ‘‘خدایا! اس ظالم سلطان نے لوگوں پر ظالم حاکم مقرر کیا ۔ میں نے ظلم کو ختم کرنے کے لئے اس ظالم حاکم کو شہر سے باہر کر دیا تو یہ سلطان مجھ پر غضبناک ہے ۔’’ چاہتے تھے کہ بد دعا کریں کہ فتح علی شاہ قاجار اٹھا اور آپ کے ہاتھوں کو پکڑ لیا اور معذرت کی اورکاشان میں ایک بہتر حاکم مقرر کیا۔ (قصص العلماء، صفحہ 130)

ملا احمد نراقی رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ نے مال دنیا بھی وافر مقدار میں عطا کیا تھا،جیسے باغات، جانور وغیرہ۔ ایک دن آپ حمام گئے فراغت کے بعد جب آپ لباس زیب تن فرما رہے تھے تو ایک درویش نے آپ کو سلام کیا اور اعتراض کرتے ہوئے کہا : آپ کہتے ہیں کہ دنیا سے محبت بری ہے، جب کہ آپ کے پاس اس قدر مال دنیا ہے، مجھے تعجب ہوتا ہے کہ آپ اتنا مال چھوڑ کر کیسے اس دنیا سے جائیں گے۔ ملا احمد نراقی رحمۃ اللہ علیہ خاموش رہے ۔ جب حمام سے نکلے تو اس درویش سے پوچھا : کبھی زیارت کے لئے کربلا گئے ہو؟ اس نے کہا نہیں، تو آپ نے فرمایا: چلو پھر ہم دونوں ایک ساتھ پیدل کربلا چلتے ہیں۔ وہ تیار ہو گیا اور دونوں کربلا کی جانب روانہ ہو گئے۔ ایک منزل پر پہنچ کر آپ نے دیکھا کہ درویش کافی پریشان ہے، آپ نے اس کی پریشانی کا سبب پوچھا تو اس نے کہا کہ میرا کشکول حمام میں رہ گیا۔ مجھے کشکول لینے حمام واپس جانا ہو گا۔ ملا احمد نراقی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: مطلب یہی ہے کہ میرے پاس کھیت، باغ، جانور سب کچھ ہے لیکن میں انکی محبت کا اسیر نہیں ہوں ، سب کو اللہ کے حوالہ کیا اور کربلا کی جانب روانہ ہو گیا اور تم ایک کشکول کی محبت میں اس قدر اسیر ہو ، اگر چہ تمہارے پاس مال دنیا نہیں ہے۔

25؍ ربیع الثانی

1۔ معاویہ بن یزید نے حکومت سے کنارہ کشی کی۔ سن 64 ہجری

تیسرا اموی حاکم معاویہ بن یزید اپنے باپ یزید ملعون کی ہلاکت کے بعد حسب وصیت حاکم ہوا۔ تخت حکومت پر قدم رکھا اور ایک تاریخی خطبہ دیا کہ جسمیں اپنے باپ دادا کے گناہ و انحراف کی مذمت کرتے ہوئے امیرالمومنین امام علی علیہ السلام سے جنگ اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو عظیم گناہ بتایا اور خود کو حکومت سے بے دخل کر کے خانہ نشین ہو گیا اور کچھ ہی دنوں بعد دنیا سے رخصت ہو گیا۔ بعض روایات کے مطابق بنی امیہ نے اسے زہر دیا تھا۔

26؍ ربیع الثانی

1۔ وفات آقا نجفی قوچانی ؒ سن 1363 ہجری

چودہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم اور فقیہ آیۃ اللہ سید محمد حسن حسینی قوچانی رحمۃ اللہ علیہ مرحوم آخوند خراسانی ؒکے شاگرد تھے۔ ۳۰ برس کی عمر میں درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔

2۔ وفات علامہ سید مجتبیٰ موسوی لاری رحمۃ اللہ علیہ سن 1434 ہجری

معروف عالم فقیہ اور اہل قلم علامہ سید مجتبیٰ موسوی لاری رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد موضوعات پر کتابیں لکھیں۔ 28 زبانوں میں آپ کی کتابوں کا ترجمہ ہوا ہے۔

28؍ ربیع الثانی

1۔ وفات علامہ امینی رحمۃ اللہ علیہ سن 1390 ہجری

چودہویں صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم، فقیہ، محدث، متکلم اور مورخ علامہ عبدالحسین امینی رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد موضوعات پر کتابیں لکھیں جنمیں ’’الغدیر‘‘ سب سے مشہور اور زباں زد خاص و عام ہے۔

29؍ ربیع الثانی

۱۔ مرگ خالد بن ولید سن 21 ہجری

خالد بن ولید نے فتح مکہ سے پہلے اسلام قبول کیا۔ اسلام قبول کرنے سے پہلے اسلام اور رسولؐ اسلام کا سخت ترین دشمن تھا ۔ اسلام لانے کے بعد اس کا کردار اسلامی کردار سے ہماہنگ نہیں تھا۔ خالد ہی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بعد پہلے دور خلافت میں صحابی رسول جناب مالک بن نویرہؓ کو ناحق شہید کیا اور اسی شب انکی حرمت بھی پامال کی۔ لیکن حکومت نے سیف رسولؐ کہہ کر اسے معاف کردیا۔

30؍ ربیع الثانی

1۔ وفات ام المومنین ، ام المساکین جناب زینب بنت خزیمہ ؓ سن 4 ہجری

ام المومنین جناب زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہا کا شمار ان باعظمت خواتین میں ہوتا ہے جنکا دور جاہلیت میں بھی فقراء و مساکین پر رحم و کرم اور احسان زباں زد خاص و عام تھا کہ آپ کو ’’ام المساکین ‘‘ (مسکینوں کی ماں)کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے جلیل القدر صحابی جناب عبیدہ بن حارث سے آپ کی مکہ مکرمہ میں شادی ہوئی اور آپ نے اپنے شوہر کے ہمراہ مکہ سے مدینہ ہجرت فرمائی۔ مدینہ میں اسلام کی پہلی جنگ ،جنگ بدر میں آپ کے شوہر جناب عبیدہ شدید زخمی ہوکر راہ خدا میں شہید ہو گئے۔ (ابن ہشام ۔ ج 2، ص 277) تو آپ مدینہ میں یک و تنہا ہو گئیں۔

جناب عبیدہ کی شہادت کے ایک برس بعد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی کفالت و سرپرستی کی غرض سے شادی کا پیغام بھیجا جسے آپ نے قبول فرمایا ۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مہر ادا کرکے عقد فرمایا اور آپ کے لئے دیگر ازواج کی طرح ایک حجرہ بنوایا۔ لیکن زندگی نے وفا نہیں کی اور کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ ربیع الثانی سن 4 ہجری کو آپ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ (بلاذری ج 1،ص 516)

جب جناب زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی وفات ہوئی تو اللہ کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کی نماز جنازہ پڑھی اور جنت البقیع میں دفن فرمایا۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو بیویوں نے آپ کی زندگی میں رحلت فرمائی مکہ مکرمہ میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا اور مدینہ منورہ میں جناب زینب بنت خزیمہ رضی اللہ تعالی عنہا ہیں۔ باقی تمام ازواج حضورؐ کی رحلت کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوئیں۔ (تاریخ طبری۔ ج 3، ص 168)

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .