تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی । سن ۸۳ ہجری میں خاندان اشعری نے کوفہ سے قم کی جانب ہجرت کی اور دوسری صدی ہجری میں اسی خاندان کے دیگر افراد کی کثرت سے ہجرت کے سبب قم میں شیعوں کی تعداد کا اس قدر اضافہ ہوا کہ شیعہ اکثریت میں شمار ہونے لگے۔
ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے زمانہ حضور میں آپ کے متعدد نمایندوں اور وکلاء کا مرکز یہی شہر قرار پایا۔ خاندان اشعری کے ساتھ دوسرے کئی نامور شیعہ خاندان بھی یہاں مقیم ہو گئے ۔ نیز کثرت سے سادات کی آمد نے قم کی رونق کو چار چاند لگا دیا۔
ظاہر ہے جس شہر میں نامور علمی شخصیتیں جمع ہوں اور تعلیم و تعلم کا سلسلہ بھی جاری ہو تو وہ شہر مرکز علم بن جاتا ہے۔ لہذا اس شہر میں دوسری صدی ہجری میں ہی حوزہ علمیہ قائم ہو گیا تھا۔ جناب علی بن بابویہ قمی رحمۃ اللہ علیہ اور انکے فرزند ارجمند جناب شیخ صدوق رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے بھی اسی شہر میں قیام فرمایا ، اسی طرح علماء ، فقہاء، مورخین ، محدثین، مفسرین کی ایک طویل فہرست ہے جن کا تعلق قم سے ہے۔
زمانہ قدیم سے ہی یہ شہر اہل بیت علیہم السلام کے چاہنے والوں کا شہر رہا ہے اور علوم اہلبیت علیہم السلام یہاں سے پوری دنیا میں نشر ہوا اور ہو رہا ہے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ کے قم آنے سے قبل ظالم حکمرانوں نے اس شہر کی علمی مرکزیت کو ختم کرنے کی نہ صرف کوششیں کی بلکہ ایسے سفاکانہ اقدامات کئے کہ علماء و طلاب کے لئے یہ سر زمین تنگ ہو گئی۔ نتیجہ میں حوزہ علمیہ کی وہ رونق ختم ہو گئی ۔ درس و تدریس، بحث و مباحثہ، تحقیق و تالیف کا سلسلہ اگر رکا نہ بھی ہو تو کم ضرور ہو گیا تھا۔ کتب خانے بند ہو گئے تھے ، مدرسوں میں سناٹا چھا گیا تھا ۔ ضرورت تھی کہ پھر کوئی ایسی علمی اور عملی شخصیت آئے جو صحرا کو گلشن بنا دے۔ اس کا وجود خزاں کو بَہار میں بدل دے۔
لہذا قم مقدس کے بزرگوں جنمیں فقیہ و مجاہد آیۃ اللہ محمد تقی بافقی رحمۃ اللہ علیہ کا نام نامی اسم گرامی سر فہرست ہے، نے آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ کو قم مقدس آنے کی دعوت دی کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ سامرا، کربلا اور اراک کے حوزہ ہائے علمیہ کو آپ نے چار چاند لگایا تھا اور آپ ہی کے سبب وہاں علماء و طلاب کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ بھی ہوا تھا۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کریم سے استخارہ کیا تو آیت الہی نے رہنمائی کی ۔ ’’۔۔۔۔۔۔۔وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ‘‘ (اور اس مرتبہ اپنے تمام گھر والوں کو ساتھ لے کر آنا۔ سورہ یوسف آیت ۹۳) لہذا آپ اپنے شاگردوں کے ہمراہ قم مقدس تشریف لے آئے۔ آپ کی ہجرت نے مذہب کو تقویت اور حوزہ علمیہ کو رونق بخشی بلکہ جو حوزہ علمیہ تعطیل ہو گیا تھا اسے دوبارہ حیات مل گئی۔ مدارس میں رونق، کتب خانوں میں اہل تحقیق کا ہجوم ، ہر جانب علوم آل محمد ؑ کی تعلیم کا نہ رکنے والا سلسلہ قائم ہو گیا۔
آیۃ اللہ العظمیٰ حائری ؒ نے تقریبا سو ایسے شاگرد تربیت کئے جو آسمان علم و فقاہت پر سورج چاند بن کر دمکے اور چمکے جنمیں رہبر کبیر انقلاب آیۃ اللہ العظمیٰ سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد رضا گلپایگانی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد علی اراکی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ العظمیٰ سید شہاب الدین مرعشی نجفی رحمۃ اللہ علیہ کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں کہ آپ نے آیۃ اللہ العظمیٰ خمینی ؒ جیسا شاگرد تربیت کیا کہ جس نے نہ صرف قم بلکہ پوری دنیا میں دین اسلام اور مذہب اہلبیت ؑ کی عظمت کو نہ صرف پہچنوایا بلکہ دنیا سے اقرار بھی کرا لیا۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ ۱۲۷۶ ھ کو میبد کے علاقہ مہرجرد کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جناب محمد جعفر مرحوم تھے جو انتہائی دیندار اور عابد و زاہد تھے۔ابتدائی تعلیم کے حصول کی خاطر اپنے خالو جناب میر ابو جعفر کے ساتھ اردکان گئے ۔ اردکان آئے ہوئے ابھی آپ کو کچھ ہی دن گذرے تھے کہ اطلاع ملی کہ آپ کے والد ماجد کا انتقال ہو گیا لہذا آپ وطن واپس آگئے۔ کچھ عرصہ وطن میں قیام رہا ۔ پھر والدہ ماجدہ سے اجازت لے کر یزد تشریف لے گئے اور وہاں مدرسہ محمد تقی خان میں تعلیم حاصل کی۔
۱۲۹۸ ہجری میں اپنی والدہ ماجدہ کے ہمراہ عراق تشریف لے گئے۔ کربلاے معلی میں دو برس جناب فاضل اردکانی رحمۃ اللہ علیہ کے زیر نظر تعلیم حاصل کر مرجع بزرگ آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللہ علیہ (جنہوں نے تنباکو کی حرمت کا تاریخی فتویٰ دے کر برطانوی استعمار کو شکست فاش دی تھی) سے کسب فیض کے لئے سامرا تشریف لے گئے.
سامرا میں آپ نے ۱۳۰۰ سے ۱۳۱۲ ہجری تک یعنی ۱۲ برس قیام کیا۔ پہلے دو سے تین سال سطوح عالی کے فقہ و اصول کے دروس آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ فضل اللہ نوری، آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا ابراہیم محلاتی ، آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا مہدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہم جیسے اساتذہ سے حاصل کئے۔ اس کے بعد فقہ و اصول کے درس خارج کے لئے آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد فشارکی اصفہانی اور آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد تقی شیرازی رحمۃ اللہ علیہما اور کچھ مدت تک آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللّٰہ علیہ کے دروس میں شرکت کی اور آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا حسین نوری سے اجازہ روایت حاصل کیا۔
آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا محمد حسن شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد آپ اپنے استاد آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد فشارکی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ کے ہمراہ نجف اشرف تشریف لے گئے۔ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد فشارکی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ محمد کاظم خراسانی المعروف بہ آخوند خراسانی سے کسب فیض کیا اور آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد فشارکی اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ کے آخر وقت میں خدمت کی۔ جب ان کا انتقال ہو گیا تو ایران واپس آگئے۔
ایران پہنچ کر سلطان آباد اراک میں حوزہ علمیہ قائم کیا۔ جب سیاسی مشکلات درس و تدریس میں مانع ہوئیں تو دوبارہ نجف اشرف چلے گئے اور مرحوم آخوند خراسانی رحمۃ اللہ علیہ اور صاحب کفایہ آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد کاظم طباطبائی یزدی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شریک ہوئے۔
نجف اشرف میں کچھ عرصہ قیام کے بعد آپ کربلاے معلی تشریف لے آئے جہاں ۸ برس قیام کیا اور تدریس فرمائی۔ حائر حسینی سے تمسک کے سبب ہی آپ کو حائری کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔
اراک کے مومنین کے اصرار پر ۱۳۳۲ ہجری میں ایران تشریف لائے اور اراک میں حوزہ علمیہ قائم کیا۔ آپ کی زعامت اور تدریس کے سبب بہت جلد ہی حوزہ علمیہ اراک اپنی نمایاں ترقی سے مشہور ہوا اور یہی سبب ہوا کہ دیگر شہروں سے بھی کثرت سے طلاب اراک کی جانب کوچ کرنے لگے۔ انہیں طلاب میں ایک اہم نام رہبر کبیر انقلاب، بانی اسلامی جمہوریہ ایران امام خمینی قدس سرہ کا ہے کہ آپ اصفہان سے اراک تشریف لائے اور جب ۸ برس حوزه علمیہ اراک میں خدمات کے بعد بزرگان قم کے اصرار پر آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ قم تشریف لے گئے تو امام خمینی قدس سرہ بھی قم مقدس تشریف لے آئے۔
آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ حوزہ علمیہ کی بقا اور دوام کی خاطر سیاست سے دور رہتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ جب تک لوگوں میں علم و شعور نہیں ہوگا کوئی بھی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی لہذا پہلے علم و شعور کی تربیت کی جائے اور اس کا اہم ذریعہ حوزہ علمیہ ہے۔ اگرچہ ظاہرا آپ نے نہ عراق میں کسی سیاسی تحریک میں شرکت کی اور نہ ہی ایران میں لیکن امام خمینی قدس سرہ جیسے شاگرد تربیت کئے جنہوں نے نہ صرف ظالم پہلوی شہنشاہیت کو ختم کیا بلکہ عالمی استعمار کو بھی للکارا۔
طلاب سے محبت، انکی دل جوئی، مدد اور انکے لئے سہولتیں فراہم کرنا آپ کا خاصہ تھا۔ نہ صرف طلاب بلکہ عام مومنین کی بھی مدد اور خبر گیری بھی آپ کی نمایاں خصوصیات میں شامل ہے۔
امام حسین علیہ السلام سے عشق
آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری رحمۃ اللہ علیہ کی جہاں اہم خصوصیت تزکیہ نفس تھی وہیں اہلبیت علیہم السلام خصوصا امام حسین علیہ السلام سے آپ کا والہانہ عشق بھی زباں زد خاص و عام ہے۔ آپ کا دستور تھا کہ فقہ کے درس سے پہلے کوئی شاگرد اہلبیت علیہم السلام کے مصائب بیان کرتا اسکے بعد آپ درس دیتے تھے۔ مجالس عزا اور جلوس عزا میں شرکت کرتے بلکہ سامرا میں دوران قیام نوحہ خوانی بھی فرماتے تھے۔ آپ فرماتے تھے "میرے پاس جو کچھ ہے امام حسین علیہ السلام سے ہے۔"
بزرگ اساتذہ نے بیان کیا کہ جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو نیت سے پہلے کربلا کا رخ کر کے فرماتے"۔صلی الله علیک یا ابا عبد الله اشهد انک قد اقمت الصلوة." فرماتے تھے یہ نماز امام حسین علیہ السلام کے سبب قائم ہے۔
عزاے فاطمی کی سہ روزہ مجالس کے انعقاد کے علاوہ مجالس عزا میں خطاب بھی فرماتے۔
پہلے علماء منبر پر بہت کم جاتے تھے۔ بلکہ ذاکرین ہی آتے تھے۔ آپ کا نظریہ تھا کہ منبر اہل علم کا مقام ہے لہذا اہل علم ہی منبر پر آئیں تا کہ منبر صرف گریہ و عزاداری ہی نہیں بلکہ مقصد عزا کے رواج اور انسانی تربیت کا ذریعہ بن جائے۔
ظاہر ہے جب منبر اہل علم سے خالی ہوگا تو وہاں سے علم کی توقع عبث ہے۔ نتیجہ میں لوگ منبر کو خفیف اور رسم ہی سمجھیں گے آپ جہاں تدریس فرماتے تھے وہیں منبر سے تبلیغ بھی فرماتے تھے۔
افسوس یہ آفتاب علم و فقاہت ۱۷ ذی القعدہ ۱۳۵۵ ہجری کو قم میں غروب ہو گیا اور حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا کا روضہ مبارک آپ کا آخری مسکن قرار پایا۔ آج آپ نہیں ہیں لیکن آپ کی کتابیں تشنگان علم کے لئے آب زلال ہیں۔ آپ کے قائم کردہ حوزہ علیہ قم کی بین الاقوامی دینی خدمات آپ کے باقیات الصالحات میں شامل ہیں۔