۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
تصاویر/ دیدار دبیر شورای عالی انقلاب فرهنگی با آیت الله حسینی بوشهری

حوزہ/ انجمن مدرسین (اساتذہ) حوزہ علمیہ قم کی اعلی کونسل کے سربراہ نے مرجع عالیقدر حضرت آیت اللہ العظمی فاضل لنکرانی (مرحوم) کی عظمت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا:وہ واقعاً آسمان فقاہت کا چمکتا ہوا اور تابناک چہرہ تھے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیۃ اللہ سید ہاشم حسینی بوشہری نے انقلابی مرجع آیت اللہ العظمی فاضل لنکرانی کے سیاسی اور اجتماعی افکار کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا: وہ دنیائے تشیع میں بہت بڑی شخصیت تھے، وہ انقلابی، مجاہد ،سچے خدمت گزار اور امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے دلدادہ تھے۔ وہ انقلاب اسلامی اور ولایت کے راستے پر گامزن رہے۔

آیت اللہ حسینی بوشہری نے مزید کہا: اجتہاد، علم اور فقاہت کی بلندیوں تک پہنچنا کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ اس کے لیے بہت زیادہ محنت اور خدا سے رابطہ ضروری ہے۔

انہوں نے ایک فقیہ جامع الشرائط کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے کہا: انسان کو جہاں حق ہو اسے پہچاننا چاہئے اور جہاں باطل ہو اس کی بھی شناخت حاصل کرنی چاہئے لیکن ایک فقیہ کو ان تمام موارد سے پہلے دیکھنا چاہئے اور بعض اوقات خبردار بھی کرنا چاہئے۔

آیت اللہ حسینی بوشہری نے کہا: اگر کسی کو اتنا علم عطا کیا گیا ہو تو یعنی درحقیقت اسے خیر کثیر عطا کی گئی ہے۔

انہوں نے کہا: آیت اللہ فاضل لنکرانی ایک نامورفقیہ اور اپنے زمانہ کی نابغہ شخصیت تھے۔ وہ ابتدا ہی سے نابغہ تھے اور آخر کار معرفت اور فقاہت کی بلندیوں تک پہنچے۔

انہوں نے کہا: آیت اللہ فاضل النکرانی نے ایک نجیب و شریف خاندان میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد گرامی آیت اللہ فاضل قفقاضی آیت اللہ بروجردی کے مشیر تھے۔

اسمبلی آف ایکسپرٹس (مجلس خبرگان رہبری) کے رکن نے کہا: آیت اللہ فاضل (رحمۃ اللہ علیہ) نےاس زمانے مین کمسن تھے لیکن وہ لڑکپن میں ہی روحانیت کی فضا سے آشنا ہو گئے تھے اور انہوں نے علمی فضا میں تربیت پائی اور تیرہ سال کی عمر میں دینی علوم کو سیکھنے کا آغاز کیا۔انہوں نے 19 سال کی عمر میں آیت اللہ بروجردی کی بحث "کتاب الصلاۃ" میں شرکت کی۔ جس درس میں شرکت کرتے رات کو اسے عربی میں لکھتے تھے۔ آیت اللہ بروجردی ان کی تقریر کو خود پڑھتے اور ان کی دلجوئی کرتے تھے اور آیت اللہ بروجردی نے آیت اللہ فاضل کے متعلق فرمایا تھا: "اس جوان مجتہد کی قدر کو جانیں"۔

آیت اللہ سید حسینی بوشہری نے کہا: آیت اللہ فاضل کےدوسرے استاد حضرت امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) تھے۔ وہ امام خمینی(رحمۃ اللہ علیہ)  کے دلدادہ اور عاشق تھے اور یہی چیز ان کے دروس اور خطبوں میں مشاہدہ کی جا سکتی ہے۔

انہوں نے کہا: آیت اللہ فاضل کے والد گرامی نے بہت پاکیزہ زندگی بسر کی اور اچھی تربیت اور حلال روزی انسان ساز ہوتی ہے۔

انجمن مدرسین (اساتذہ) حوزہ علمیہ قم کی اعلی کونسل کے سربراہ نے کہا: وہ واقعا آسمان فقاہت کا چمکتا ہوا اور تابناک چہرہ تھے۔میں نے ۱۵ سال تک ان کی شاگردی کی۔ وہ بحث حج میں جب روایات کا ذکر کرتے تو اس قدر مدلّل گفتگو کرتے کہ سب کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتے۔

آیت اللہ حسینی بوشہری نے کہا: چالیس موضوعات پر ان کے شاہکار آثار موجود ہیں۔ بعض کتابیں انہوں نے جلاوطنی کے زمانے میں لکھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کبھی علم و تحقیق کو ترک نہیں کیا۔

انہوں نے کہا: یہ مرجع عالیقدر بہت انقلابی تھے۔ وہ امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کی تحریک کے آغاز سے ہی ان کی خدمت میں تھے اور انہوں نے امام خمینی (رحمۃ اللہ علیہ) کے ساتھ رہنے کو حوزہ علمیہ میں تدریس پر ترجیح دی اور خطرات کی پرواہ نہیں کی۔

آیت اللہ حسینی بوشہری نے کہا: وہ حوزہ علمیہ کے استقلال کے قائل تھے اور کہتے تھے "حوزہ علمیہ کو ہمیشہ مستقل رہنا چاہئے"۔ وہ ولی فقیہ کے احکام کو لام الاجراء سمجھتے تھے۔ وہ فلسطین اور لبنان میں جہاد کے متعلق فرماتے تھے "دشمن سے ڈرنا نہیں چاہئے بلکہ اس کے مقابلے میں ثابت قدمی دکھانی چاہئے"۔

آیت اللہ حسینی بوشہری نے اس مرجع تقلید کی آنے والے زمانے پر نگاہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: انہیں بخوبی علم تھا کہ مستقبل میں حوزہ علمیہ کو فقیہ اور عالم کی ضرورت ہوگی اور اس فقہی مرکز کی تاسیس کا مقصد بھی یہی تھا۔

انہوں نے کہا: دنیائے تشیع کے اس مرجع عظیم الشان کا نظریہ تھا کہ حکومت اسلامی کی مشروعیت (جواز) ولایت فقیہ کے بغیر ناممکن ہے اور انقلاب اسلامی کا سب سے بڑا کام دنیا میں تشیع کا تعارف کرانا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .