۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
آقا ضیاء الدین عراقی

حوزہ/ استاد الفقہاء آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی رحمۃ اللہ علیہ جو آپ کے نامور شاگرد تھے ، نے فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ آقا ضیاء ؒ کی طرح مدرس بنوں۔ ‘‘

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی آیۃ اللہ العظمیٰ آقا ضیاء الدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ سن 1278 ہجری کو سلطان آباد اراک (ایران) کے ایک دیندار اور علمی خانوادے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد ملا محمد کبیر المعروف بہ آخوند کبیر رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف اراک بلکہ عالم تشیع کے عظیم عالم، عارف اور فقیہ تھے۔

آقا ضیاء عراقی ؒ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن سلطان آباد میں اپنے والد ماجد اور دیگر ذی استعداد اساتذہ سے حاصل کی اور اسی کمسنی میں آپ کی ذکاوت و ذہانت کا شہرہ ہو گیا تھا۔ ابھی زندگی کی بارہ بہاریں ہی دیکھی تھیں کہ عالم و عارف اور فقیہ باپ کے سایہ سے محروم ہو گئے۔

آیۃ اللہ اراکی ؒ بیان فرماتے ہیں کہ جناب صمصام الملک جو ایک صاحب ثروت و دولت شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ خود اہل علم اور علم و علماء دوست بھی تھے۔ وہ آپ کے والد کے دروس میں شریک ہوتے تھے۔ جب والد کا انتقال ہو گیا تو وہ آپ کو والد کا جانشین سمجھ کر کسب علم کے لئے حاضر ہوتے تھے۔ جس وقت آپ کی عمر فقط 24 برس تھی ایک دن جناب صمصام الملک آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ایک مسئلہ دریافت کیا جس کا آپ اطمینان بخش جواب نہ دے سکے تو جناب صمصام الملک نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مارا اور کہا : ’’آہ! آخوند کبیرؒ کا دروازہ بند ہو گیا۔ ‘‘

آقا ضیاء الدین عراقیؒ فرماتے تھے کہ یہ سن کر مجھے محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے گرم کھولتا پانی میرے سر پر ڈال دیا ہو۔ جناب صمصام الملک کے اسی ایک جملے نے آپ میں انقلاب پیدا کر دیا اور آپ فوراً اراک سے اصفھان چلے گئے اور چھ برس حوزہ علمیہ اصفھان کے نامور علماء و فقہاء سے کسب فیض کیا۔

سن 1307 ہجری میں اصفہان سے سامرا (عراق) تشریف لے گئے کچھ عرصہ سامرا میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد باب مدینۃ العلمؑ کے جوار نجف اشرف کی جانب ہجرت کی اور پوری زندگی وہیں درس و تدریس وتحقیق میں بسر کی۔

حوزہ علمیہ نجف اشرف میں آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا حبیب الله رشتی رحمۃ اللہ علیہ ، صاحب کفایہ آیۃ اللہ العظمیٰ محمد کاظم خراسانی المعروف بہ آخوند خراسانی رحمۃ اللہ علیہ ، آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا حسین خلیلی رحمۃ اللہ علیہ ، شیخ الشریعہ آیۃ اللہ العظمیٰ فتح الله شریعت اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد طباطبائی فشارکی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا ابراہیم محلاتی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ سے کسب فیض کیا اور درجہ اجتہاد پر فائز ہوئے۔ آپ کے ہم درس اور مباحثین میں آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالحسن اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ محمد حسین اصفہانی (کمپانی) رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ میرزا نائینی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔

مسند تدریس: آیۃ اللہ العظمیٰ آقا ضیاء الدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ نجف اشرف میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تدریسی فرائض بھی انجام دیتے رہے ۔ جب آپ کے استاد آخوند خراسانی ؒ نے رحلت فرمائی تو طلاب کے اصرار پر درس خارج کا سلسلہ شروع کیا اور 30 سال تک دروس خارج کی تدریس کی ۔ اگرچہ آپ کے تدریس کا زمانہ 60 برس ہے۔

آپ نے علم اصول کو نمایاں ترقی عطا کی اور سیکڑوں فقہاء و مجتہدین کی تربیت فرمائی۔ آپ کے شاگردوں کی طویل فہرست ہے جنمیں استاد الفقہاء آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم موسوی خوئی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ سید محمد رضا گلپائگانی رحمۃ اللہ علیہ، آیۃ اللہ العظمیٰ محمد علی اراکی رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمیٰ محمد تقی بہجت رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کے اسمائے گرامی سر فہرست ہیں۔

مبالغہ نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی علمی شخصیت پر کچھ کہنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ کیوں کہ ’’قدر گوہر شاہ داند یا بداند جوہری‘‘

آیۃ اللہ العظمیٰ آقا ضیاء الدین عراقی رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے سے آج تک علماء و فقہاء کے نزدیک آپ کا علم اور علمی نظریات محترم ہیں اور جب بھی علمی گفتگو خصوصاً علم اصول فقہ پر گفتگو ہوتی ہے تو آپ کا نام نامی اسم گرامی احترام سے لیا جاتا ہے۔ منقول ہے کہ ایک دن رہبر کبیر انقلاب آیۃ اللہ العظمیٰ سید روح اللہ موسوی خمینی قدس سرہ نے اپنے علم اصول کے درس خارج میں ایک مسئلہ بیان کیا تو ایک شاگرد نے عرض کیا کہ ’’آقا ضیاء عراقیؒ کا بھی یہی نظریہ ہے۔ ‘‘ تو امام خمینیؒ نے ایک خاص انداز میں فرمایا: ’’آقا ضیاء نہ کہو بلکہ آقا ضیاء الدین ؒ کہو۔ ‘‘

اسی طرح استاد الفقہاء آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی رحمۃ اللہ علیہ جو آپ کے نامور شاگرد تھے ، نے فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ آقا ضیاء ؒ کی طرح مدرس بنوں۔ ‘‘

آپ اپنے شاگردوں کے لئے ایک مہربان اور شفیق باپ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان سے انتہائی اخلاق اور انکساری سے ملتے اور مزاح بھی فرماتے تھے۔ جیسے آپ نے فرمایا: اگر درس صبح میں ہو تو استاد اور شاگرد دونوں سمجھتے ہیں، اگر عصر (سہ پہر) میں ہو تو صرف استاد سمجھتا ہے اور اگر شب میں درس ہو تو نہ استاد سمجھتا ہے اور نہ ہی شاگرد۔

تدریس کے علاوہ مختلف موضوعات پر کتابیں بھی تالیف و تصنیف فرمائی جنکی ایک طویل فہرست ہے۔ امام حسین علیہ السلام سے عشق : ایام محرم میں اپنے گھر پر مجالس عزا منعقد کرتے تھے اور خود منبر پر تشریف لے جاتے اور خطاب فرماتے تھے۔ امام حسین علیہ السلام کے ذکر مصیبت پر شدید گریہ فرماتے اور آپ کی مجلس سن کر حاضرین بھی گریہ کرتے تھے۔

وفات حسرت آیات: علم و فقاہت کا نیر تاباں ۲۸ ؍ ذی القعدہ 1361 ہجری کو نجف اشرف میں غروب ہو گیا اور امیرالمومنین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دفن ہوئے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .