۹ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 28, 2024
شیخ مرتضیٰ انصاری

حوزہ/ شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ وہ عظیم شخصیت تھے جو شیعوں میں مرجع کل فی الکل ہوئے، لیکن جس دن ان کی وفات ہوئی اس دن اور جس دن آپ ایک عام طالب علم کی حیثیت سے نجف اشرف میں تشریف لائے تھے آپ کے مالی حالات میں کوئی فرق نہیں تھا۔ جب لوگ ان کے گھر کو دیکھتے تو یہی احساس ہوتا کہ آپ انتہائی تنگدست انسان ہیں۔

انتخاب و ترجمہ: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | خاتم الفقہاء حضرت شیخ مرتضیٰ انصاری رحمۃ اللہ علیہ 1214 ہجری کو دزفول میں پیدا ہوئے۔ حصول علم اور فقاہت و اجتہاد کی اعلیٰ منزلیں طے کرنے کے بعد مسند تدریس کی زینت ہوئے اور متعدد علماء، فقہاء، مجتہدین اور محققین کی تربیت کی۔ آپ کے بعد کے تمام علمائے اعلام، مراجع کرام، آیات عظام نے بلا واسطہ یا با واسطہ آپ سے کسب فیض کیا ہے۔
آپ کی کتابوں میں دو کتابیں فرائد اور مکاسب آج بھی حوزہ ہائے علمیہ اور مدارس دینیہ کے نصاب تعلیم میں شامل ہیں۔ 18 جماد الثانی 1281 ہجری میں آپ کا انتقال ہوا۔ ذیل میں آپ کی حیات طیبہ کے چند واقعات پیش ہیں۔

فقراء کی ہمراہی

باوجود اس کے کہ چالیس ملین شیعہ جناب شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں شرعی رقوم پیش کرتے تھے آپ فقراء جیسی زندگی بسر کرتے تھے۔حتی جو مال بطور تحفہ ملتا تھا اسے بھی طلاب اور ضرورتمندوں میں تقسیم کر دیتے تھے اور کچھ رقم امام علی رضا علیہ السلام کے زائرین کی آزادی کے لئے بھیجتے تھے جنکو راہ مشہد میں ترکمان اسیر کر لیتے تھے۔

کیا ہنر ہے؟
شہید استاد مرتضیٰ مطہری رضوان اللہ تعالیٰ علیہ جناب خاتم الفقهاء شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کے بیت المال کے خرچ میں درستگی ، احتیاط اور دقت نظر کے بارے میں لکھتے ہیں۔
شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ وہ عظیم شخصیت تھے جو شیعوں میں مرجع کل فی الکل ہوئے، لیکن جس دن ان کی وفات ہوئی اس دن اور جس دن آپ ایک عام طالب علم کی حیثیت سے نجف اشرف میں تشریف لائے تھے آپ کے مالی حالات میں کوئی فرق نہیں تھا۔ جب لوگ ان کے گھر کو دیکھتے تو یہی احساس ہوتا کہ آپ انتہائی تنگدست انسان ہیں۔ ایک شخص نے انکی معمولی زندگی کو دیکھتے ہوئے عرض کیا کہ واقعاً یہ آپ کا ہی ہنر ہے کہ اتنی شرعی رقومات ہونے کے باوجود انتہائی معمولی بلکہ تنگدستی کی زندگی بسر کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اس میں کون سا ہنر ہے؟ اس نے کہا کہ اس سے بڑھ کر کیا ہنر ہو سکتا ہے کہ عظیم مرجع دینی ہونے کے باوجود کہ پورا بیت المال آپ کے اختیار میں ہے اور آپ ایسی معمولی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میرا کام کم از کم کاشان سے اصفہان سامان لے جانے والے مزدوروں جیسا ہو کہ کیا کبھی دیکھا کہ وہ کاشان سے اصفہان پیسے لے جائیں اور اصفہان سے سامان لے کر آئیں، کیا کبھی ان مزدوروں نے لوگوں کے مال میں خیانت کی ہے؟ وہ امین ہیں۔ ہمیں بھی امین ہونا چاہئیے۔

عالم و فقیہ کی برائی برداشت نہیں

ایک دن ناصر الدین شاہ قاجار کی بیٹی ایران سے عراق گئیں اور نجف اشرف میں جناب شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کے بیت الشرف پر حاضر ہوئیں تو کیا دیکھا کہ گھر میں انگیٹھی میں کوئلے کے بجائے گوبر کے اُپلے جل رہے ہیں، دیوار پر معمولی دسترخوان آویزاں ہے، مٹی کے چراغ سے کمرہ تھوڑا روشن ہے تو اس نے بے ساختہ کہا کہ اگر یہ مجتہد ہیں تو ملا علی کنی کیا ہیں؟ (آیۃ اللہ العظمیٰ ملا علی کنی رحمۃ اللہ علیہ اس زمانے کے عظیم عالم و فقیہ تھے اور وہ ایران میں مقیم تھے) ابھی اس کی بات تمام نہیں ہوئی تھی کہ آپ نے انتہائی غیض و غضب میں فرمایا: تم نے کیا کہا؟ یہ کیسی کفر آمیز بات کہی؟ تم نے خود کو جہنمی بنا لیا ہے، فورا اٹھو اور میرے پاس سے جاو، ایک لمحہ کے لئے بھی تمہیں یہاں برداشت نہیں کر سکتا کیوں کہ جو عذاب تم پر آئے گا کہیں وہ مجھے بھی نہ لپیٹ لے۔ یہ سنتے ہی شہزادی رونے لگی اور عرض کیا کہ مجھے معاف کر دیں۔
شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ نے معاف کر دیا اور فرمایا تم کہاں اور ملا علی کنی کہاں؟ وہ تیرے باپ (ناصر الدین شاہ قاجار) کے ساتھ رہتے ہیں لہذا انہیں ویسے ہی رہنا چاہئیے لیکن میں طلاب کے ساتھ رہتا ہوں لہذا مجھے ایسے ہی زندگی بسر کرنی چاہئیے۔

بیٹی کا جہیز

اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ دلہن کی رخصتی عقد کے کچھ عرصہ بعد ہوتی ہے۔ جس دن جناب شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کی بیٹی کی رخصتی ہونا طے تھی تو گھر والوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ بیٹی کی رخصتی میں اس کے ساتھ کیا سامان بطور جہیز بھیجنا ہے تو آپ نے حکم فرمایا کہ ایک ٹوکری کھجور بھیج دی جائے، جسے سنتے ہی آپ کی اہلیہ ناراض ہو گئیں تو آپ نے ان کے سامنے بیت المال کا تالا کھولا جہاں الماریوں میں ترتیب سے پیسوں کی تھیلیاں رکھی تھیں۔ آپ نے اپنی زوجہ سے فرمایا: جس قدر مال کا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جواب دے سکو اتنا لے لو۔ کیوں کہ میں نے اتنا ہی مال لیا ہے جس کا جواب دے سکوں۔ آپ کی اہلیہ نے فرمایا، آپ شیخ انصاری ہیں جب آپ اس سے زیادہ کا جواب نہیں دے سکتے تو میں کیسے جواب دے سکتی ہوں۔

گھر کا فرش بیچ کر قرض ادا کروں گا

کہیں سے بیس ہزار درہم جناب شیخ انصاری رحمۃ اللّٰہ علیہ کے پاس آئے جنہیں آپ مستحقین میں تقسیم کر رہے تھے، اسی وقت دکاندار آیا اور کہنے لگا کہ فلاں دن آپ نے چار درہم کا گیہوں بطور قرض لیا تھا، آج قرض ادا کر دیں تو آپ نے اس سے چند دن کی مہلت مانگی، جب وہ چلا گیا تو وہاں موجود ایک عالم دین نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ استاد آپ کے پاس اتنے درہم ہیں تو اسی میں سے قرض ادا کر دیتے، مہلت کیوں مانگی؟
استاد شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ فقراء کا مال ہے، اسمیں میرا کوئی حق نہیں ہے، میں اپنے گھر کا فرش بیچ کر قرض ادا کروں گا۔

اولاد کی دنیا کے لئے اپنی آخرت نہیں برباد کروں گی

ایک دن جناب شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ نے ان سے کہا کہ تمہارے پاس دنیا بھر سے پیسے آتے ہیں لیکن تم اپنے چھوٹے بھائی منصور کو اتنی کم رقم دیتے ہو جو اس کے لئے کافی نہیں ہے۔ استاد شیخ انصاری رحمۃ اللہ علیہ نے فورا ہی بیت المال کی چابھی والدہ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ جتنا چاہیں اپنے بیٹے کو دے دیں لیکن قیامت کے دن اس کا حساب بھی آپ ہی کو دینا ہوگا۔ یہ سنتے ہی انکی والدہ ماجدہ نے فرمایا : میں اولاد کی دنیا کے لئے اپنی آخرت نہیں برباد کروں گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .

تبصرے

  • عاشق حسین میر IN 12:30 - 2023/01/11
    0 0
    تاریخ ولادت شیخ مرتضی انصاری رح درست کریں ورنه انکی عمر1000سے اوپر هو رهی هے با تشکر