۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
آیۃ اللہ العظمی میرزا جواد تبریزی رح

حوزہ/ آج پوری دنیا میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی جو عزاداری ہو رہی ہے اور اس کو اہمیت دی جا رہی ہے تو اس سنت حسنہ کے بانی اور محرک آیۃ اللہ العظمی میرزا جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی 

حوزہ نیوز ایجنسیمرجع عالی قدر آیۃ اللہ العظمی میرزا جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ ۱۳۴۵ ھ کو ایران کے شہر تبریز میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد جناب حاج علی کبار مرحوم ایک ایسے تاجر تھے جو اپنے ایمان اور عدالت کے سبب مشہور تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہ سلطان ایک دیندار خاتون تھیں۔ 
 آیۃ اللہ العظمی میرزا جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے ہائی اسکول تک عصری تعلیم حاصل کی۔ بچپن سے ہی اپنی ذہانت اور تعلیم میں لگن کے سبب مشہور تھے اور امتحانات میں نمایاں نمبروں سے کامیاب ہوتے لیکن ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ کو علوم اہلبیت اور خدمت دین کا شوق ہوا تو تبریز کے مدرسہ طالبیہ میں داخلہ لیا۔ اگرچہ احباب اور گھر والوں نے منع کیا لیکن آپ نے اپنے والد کو راضی کر لیا اور مدرسہ میں داخل ہو ئے اور چار برس میں مقدماتی تعلیم مکمل کی اور حوزہ علمیہ قم مقدس کی جانب روانہ ہو گئے۔ 
حوزہ علمیہ قم میں آیۃ اللہ العظمی سید محمد حجت کوہ کمری رحمۃ اللہ علیہ اور آیۃ اللہ العظمی بروجردی رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم اساتذہ سے کسب فیض کیا، اور مسجد نو میں تدریسی فرائض انجام دیتے تھے دن بہ دن طلاب کی کثرت آپ کی علمی عظمت اور حسن تدریس کی غماز تھی۔ آیۃ اللہ العظمی بروجردی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ہونہار شاگرد کی علمی استعداد  کو ملاحظہ کیا تو حوزہ علمیہ قم میں ممتحن مقرر فرمایا۔ 
آیۃ اللہ العظمی میرزا جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی دلی تمنا تھی کہ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں تعلیم حاصل کریں لیکن حالات اس کی اجازت نہیں دی، ایک دن آپ مراجع کرام و علمائے عظام کی خدمت تشریف فرما تھے کسی علمی مسئلہ پر بحث ہو رہی تھی ہر ایک اپنا نظریہ بیان کر رہا تھا جب آپ کو موقع ملا تو آپ نے اپنا نظریہ بیان کیا جسے سب نے قبول کیا اور تعریف کی، وہیں علم و علماء دوست ایک تاجر بھی موجود تھے جب سب لوگ جانے لگے اور آپ بھی اٹھنا چاہتے تھے کہ اس دیندار تاجر نے اشارہ کیا کہ تشریف رکھیں آپ سے کام ہے، جب سب چلے گئے تو تاجر نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اگر آپ کو کوئی ضرورت ہو تو بیان کریں تا کہ میں اسے انجام دوں تو آپ نے فرمایا ابتدا سے میری دلی تمنا ہے کہ نجف اشرف میں تعلیم حاصل کروں لیکن میرے حالات اسکی اجازت نہیں دیتے، تاجر نے کہا میں مکمل خرچ دینے کو تیار ہوں آپ نجف اشرف تشریف لے جائیں۔ 
مسبب الاسباب پروردگار کی اس عنایت پر ۵ سال قم میں رہنے کے بعد آپ نجف اشرف کی جانب روانہ ہو گئے۔ نجف اشرف میں مدرسۃ قوام السلطنۃ شیرازی میں قیام فرمایا، آیۃ اللہ العظمی سید عبدالھادی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ اور استاد الفقہا آیۃ اللہ العظمی سید ابوالقاسم خوئی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں شرکت کی، جب آپ پہلی بار آیۃ اللہ خوئی رحمۃ اللہ علیہ کے درس میں پہنچے تو وہاں جاری بحث میں شریک ہوئے آپ کی سوالات و جوابات سن کر آقای خوئی رحمۃ اللہ علیہ کافی متاثر ہوئے دوسرے دن ایک طالب علم سے پوچھا یہ صاحب کون ہیں؟ تو انھوں نے بتایا یہ تبریز کے رہنے والے آقای جواد ہیں جو قم سے تشریف لائے ہیں۔ تو آقای خوئی نے فرمایا: انکا مستقبل روشن ہے۔ اسی طرح جب آیۃ اللہ مشکینی رحمۃ اللہ علیہ نے آقای خوئی سے آپ کے بارے میں سوال کیا تو فرمایا وہ فاضل اور مجتھد مطلق ہیں۔ 
آیۃ اللہ العظمی سید خوئی رحمۃ اللہ علیہ نے آیۃ اللہ العظمی جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ کی علمی استعداد کو دیکھتے ہوئے اپنی مجلس استفتاءات (شرعی احکام کا جواب دینے والی کمیٹی) میں شامل کیا۔ 
آیۃ اللہ العظمی سید محسن الحکیم رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد آقای جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے نجف اشرف میں درس خارج کی تدریس کا آغاز کیا۔ جب اسکی اطلاع آیۃ اللہ العظمی خوئی رحمۃ اللہ علیہ کو ملی تو مسرور ہوئے اور مبارک باد دی۔ لیکن افسوس صدام ملعون نے آپ کو عراق سے نکلنے پر مجبور کیا تو آپ قم تشریف لے آئے، آپ کے نجف اشرف سے چلے جانے سے آیۃ اللہ العظمی خوئی رحمۃ اللہ علیہ رنجیدہ خاطر ہوئے۔ 
قم مقدس آنے کے بعد آپ نے یہاں درس و تدریس کا آغاز کیا، نام و نمود سے ہمیشہ دور رہے، شاگردوں کے لئے ایک شفیق باپ کی حیثیت رکھتے ان کے دکھ درد کا خیال رکھتے،  شرعی رقومات کا استعمال حسب ضرورت ہی کرتے، متعدد بار توضیح المسائل کا مطالبہ ہوا لیکن آپ نظر انداز کر دیتے جب آیۃ اللہ العظمی اراکی رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تو جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم نے ۷ مراجع تقلید کا اعلان کیا جس میں آپ کا بھی نام شامل تھا۔ تو لوگوں کے اصرار پر مرجعیت قبول فرمائی اور توضیح المسائل پیش کی۔
آیۃ اللہ العظمی میرزا جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ جہاں علمی لحاظ سے اعلی مرتبہ پر فائز تھے، درس و تدریس ہی آپ کی زندگی تھی جیسا کہ خود فرمایا: چالیس برس ہو گئے نہیں جانتا تعطیل کسے کہتے ہیں۔ وہیں اہلبیت علیہم السلام سے توسل اور انکی عزاداری کا خاص اہتمام فرماتے ایام عزاداری کے علاوہ ہر جمعرات کو آپ کے یہاں مجلس عزا منعقد ہوتی جس میں آپ عام مومنین کی طرح ہی تشریف فرما ہوتے۔ منقول ہے کہ ایک دن آپ کے یہاں مجلس ہو رہی تھی خطیب نے چاہا کہ آپ کی صحت و سلامتی کی دعا کرائیں جسے آپ نے فورا منع کیا اور گریہ کرتے ہوئے فرمایا: منبر سے امیرالمومنین علیہ السلام کا ذکر کریں، حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی عظمت بیان کریں، امام حسن علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام اور ائمہ معصومین علیہم السلام کا تذکرہ کریں کیوں کہ دشمنوں نے اسی منبر سے ان حضرات کی توہین کی ہے، میرا ذکر نہ کریں۔ 
آج پوری دنیا میں حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی جو عزاداری ہو رہی ہے اور اس کو اہمیت دی جا رہی ہے تو اس سنت حسنہ کے بانی اور محرک آیۃ اللہ العظمی میرزا جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔ ۳ جمادی الثانی یوم شہادت صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیہا آپ اپنے حسینیہ سے برہنہ پا حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک تک تشریف لے جاتے تھے۔ موسم گرما کی شدت کے سبب حکومت نے سڑک پر پانی چھڑکوانا چاہا تو آپ نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ مدینہ میں شہزادی سلام اللہ علیہا نے جن مصائب کا سامنا کیا اس کے سامنے یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ 
آیۃ اللہ میرزا جواد تبریزی رحمۃ اللہ علیہ نے جس طرح اہلبیت علیہم السلام کی محبت سے سرشار، عزاداری اور مجالس کو اہمیت دیتے تھے کہ ایک مرتبہ دوران درس ایک طالب علم نے سوال کیا تو آپ نے اسے جواب دیا لیکن اس نے پھر سوال کیا تو آپ نے جواب دیا جب کئی بار سوال و جواب ہوا تو آپ نے اس سے فرمایا کہ اب کلاس بعد سوال کریں میں کلاس بعد جواب دوں گا تو اس نے کہا کہ استاد یہ مجلس عزا نہیں کہ صرف سنا جائے اور کوئی سوال نہ ہو۔ یہ سننا تھا کہ آپ کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا، فرمایا: ائے کاش! یہ مجلس عزا ہوتی، مجلس عزا کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی باتیں نہ کیا کرو۔ اسی طرح آپ اہلبیت علیہم السلام کے سلسلہ میں شک و شبہات ایجاد کرنے والوں سے کبھی مروت نہیں فرماتے تھے اور اس کا منھ توڑ جواب دیتے۔ 
افسوس صد افسوس ۲۸ شوال ۱۴۲۷  ھ کو آپ نے رحلت فرمائی اور کریمہ اہلبیت حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیہا کے روضہ مبارک میں دفن ہوئے۔

محرک عزائے فاطمی؛ آیۃ اللہ العظمی میرزا جواد تبریزی رح
تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

تبصرہ ارسال

You are replying to: .