۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
سید ابن طاؤوس

حوزہ/ سید ابن طاووس رحمۃ اللہ علیہ ایک عظیم عالم، فقیہ، خبیر و بصیر اور دور اندیش تھے لیکن تقویٰ و پرہیزگاری اور دعا و مناجات کی کثرت کے سبب آپ ایک عارف و زاہد مشہور ہیں ۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی | ساتویں صدی ہجری کے نامور شیعہ عالم، عارف ، فقیہ جمال العارفین رضی الدین ابوالقاسم سید علی بن موسیٰ بن جعفر بن طاووس المعروف بہ سید ابن طاووس رحمۃ اللہ علیہ 15؍ محرم الحرام سن 589 ہجری کو حلّہ (عراق) کے ایک نامور دینی اور علمی سید خاندان میں پیدا ہوئے۔ آپؑ کے والد ماجد سید موسیٰ بن جعفر رضوان اللہ تعالیٰ علیہ عالم اور راوی حدیث تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ چھٹی صدی ہجری کے معروف شیعہ عالم، فقیہ و محدث وَرّام بن ابی فِراس حِلّی رحمۃ اللہ علیہ کی دختر نیک اختر تھیں ، جناب ورّام ؒ ابتدا میں کئی اہم سرکاری عہدوں پر فائز ہوئے لیکن کچھ ہی دنوں بعد تمام عہدوں سے استعفیٰ دے کر زہد وتقویٰ اور تعلیم و تعلّم میں مصروف ہو گئے۔ آپ سید ابن طاووس ؒ کے نہ صرف نانا تھے بلکہ استاد اور مربی بھی تھے اور سید ابن طاووسؒ کے مطابق انکی علمی اور عملی تربیت میں انھوں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ جناب ورّام ؒ نے اپنے نواسے کو نصیحت کی تھی کہ ‘‘نورچشم! جس میدان میں بھی قدم رکھنا چاہے وہ میدان علم ہو یا میدان عمل کبھی بھی کم پر راضی نہ ہونا۔’’ یعنی علم ہو یا عمل ہر میدان میں حرف آخر بننا۔ اسی طرح آپ نے بھی اپنے فرزند کو نصیحت فرمائی تھی کہ ‘‘فقہ کو اس قدر پڑھنا کہ کسی کی تقلید کرنے کی ضرورت نہ پڑے ، کیوں کہ جو بھی اس سے کم پر راضی ہو ا اس نے شکست قبول کر لی۔ ’’ حقیقت ہے کہ یہ دونوں نصیحتیں ہم طلاب کے لئے چراغ ہدایت اور سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں اور ہمارے لئے قابل غور ہیں کہ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے مسائل حل ہوں اور مشکلات برطرف ہوں تو دینی تعلیم کے حصول میں جب تک ہمیں منزل نہ مل جائے سفر جاری رکھیں ورنہ کم علم اور بے دین ہمیں گمراہ کر دیں گے۔

سید ابن طاووس رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں اپنے والد ماجد اور جد نامدار ( نانا) سے حاصل کی۔ بچپن ہی میں آپ کی ذہانت و فطانت ظاہر تھی کہ علم فقہ میں آپؑ نے جتنا ایک سال میں پڑھا اور سیکھا اتنا دوسرے بچّے کئی سال میں پڑھتے اور سیکھتے تھے۔ المختصر صرف ڈھائی سال کی مدت میں آپؒ نے علم میں کمال حاصل کر لیا اور استاد سے بے نیاز ہو گئے اور فقہ کی دوسری تمام کتابیں خود ہی مطالعہ فرمائی۔ لیکن یہ نکتہ قابل غور ہے کہ علم فقہ میں کمال حاصل ہونے کے باوجود آپ فتویٰ دینے میں احتیاط فرماتے تھے، سورہ الحاقہ کی آیت نمبر 44 اور 45 ‘‘وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ’’ (اور اگر یہ پیغمبر ہماری طرف سے کوئی بات گڑھ لیتا تو ہم اس کے ہاتھ کو پکڑ لیتے) کی تلاوت کرتے ہوئے فرماتے کہ ‘‘جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس سلسلہ میں اپنے رسول کے ساتھ بھی سخت رویہ رکھا ہے تو ہمارا کیا ہو گا کہ اگر ہم غلطی سے اس کے کلام اور مرضی کے خلاف کوئی بات کہیں ۔ ’’ مقام حیرت بھی ہے اور ہمارے لئے درس بھی کہ جب ایسی عظیم علمی اور عملی شخصیت دینی مسائل میں اپنا نظریہ پیش کرنے میں اس قدر احتیاط کرے تو ہمیں اپنی حیثیت پہچانتے ہوئے بدرجہ اولیٰ احتیاط کرنی چاہئیے ۔

حلّہ میں چند برس تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ کاظمین تشریف لے گئے اور وہاں وزیر مملکت جناب ناصر بن مہدی کی دختر نیک اختر سے شادی کی ، خود آپ نے فرمایا کہ اس شادی کے سبب مجھے بغداد میں رہنے کا موقع ملا اور آپ نے 15 سال بغداد میں قیام فرمایا۔

بغداد میں دوران قیام عباسی حاکم مستنصر نے آپ سے درخواست کی کہ آپ مملکت کے مفتی اعظم بن جائیں ، نقابت کا عہدہ قبول کر لیں ، مستنصر کے بیٹے نے درخواست کی کہ دربار میں امور مملکت کے سلسلہ میں ہونے والے جلسوں میں شرکت کریں اور مشورے دیا کریں ، مستنصر نے آپ سے درخواست کی آپ مغول بادشاہ کے پاس اس کے سفیر بن کر جائیں۔ نیز مستنصر مسلسل یہ پیشکش کرتا رہا کہ آپ اس کے وزیر اعظم بن جائیں ، ان تمام درخواستوں کو قبول کرنے سے آپ نے مسلسل انکار کیا اور ان میں سے کسی بھی عہدہ کو قبول نہیں کیا۔

عباسی حکومت کی جانب سے مسلسل اصرار سے عاجز آکر آپ واپس حّلہ تشریف لے آئے اور حلّہ میں آپ کے فرزند محمد مصطفیٰ پیدا ہوئے۔ حلّہ میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد آپ مع اہل و عیال نجف اشرف تشریف لے گئے جہاں تین برس قیام رہا ، نجف اشرف میں ہی آپ کے دوسرے فرزند جناب علیؒ پیدا ہوئے ، تین سال نجف میں رہنے کے بعد آپ مع اہل و عیال کربلا تشریف لائے جہاں کتاب ‘‘فرج المھموم’’ کی تالیف مکمل کی۔ تین سال کربلا میں قیام کے بعد آپ واپس بغداد آ گئے اور تا حیات بغداد میں ہی قیام رہا۔ 5؍ ذی القعدہ سن 664 ہجری کو بغداد میں وفات پائی ، جنازہ نجف اشرف لے جایا گیا جہاں امیرالمومنین علیہ السلام کے روضہ مبارک میں دفن ہوئے۔

کربلا معلّیٰ میں تین سال قیام کے بعد آپ کا ارادہ تھا کہ سامرہ تشریف لے جائیں اور وہاں بھی قیام کریں لیکن کچھ اتفاق ایسا ہوا کہ آپ کو بغداد جانا پڑا اور یہی زمانہ عباسی حکومت کے زوال کا زمانہ تھا ، ہلاکو خان اپنے لشکر کے ساتھ بغداد کو گھیرے ہوئے تھا ۔ ماحول انتہائی مشکل اور پر آشوب تھا ، آخر کار ہلاکو خان نے بغداد پر قبضہ کیا ، مستنصر گرفتار ہوا اور عباسی حکومت کا خاتمہ ہو گیا ۔ اس دوران سید ابن طاووس ؒ نے یہی کوشش کی کہ عراقی عوام کا کم سے کم جانی اور مالی نقصان ہو اور اس میں آپ کو کامیابی بھی ملی۔

ہلاکو خان نے بغداد میں علماء کو جمع کر کے پوچھا کہ ایک عادل کافر کی حکومت چاہتے ہیں یا ایک مسلمان ظالم کی حکومت چاہتے ہیں ۔ سید ابن طاووس رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ایک عادل حاکم کی حکومت ظالم کی حکومت سے بہتر ہے۔ ظاہر ہے آپؑ نہ صرف کائنات کے عظیم عادل امام، خلیفہ، حاکم امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی نسل سے تھے بلکہ آپؑ ان کے سچّے شیعہ اور پیروکار بھی تھے اور مولا علی علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ ‘‘حکومت کفر کے ساتھ تو چل سکتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں چل سکتی۔’’ تاریخ گواہ ہے جن حاکموں نے ظلم کیا وہ خود ایک دن ہلاک ہو گئے، نمرود و فرعون و شداد سے لے دور حاضر میں صدام اور قذافی کی تایخ ہمارے لئے درس عبرت ہے۔

ہلاکو خان نے آپ سے علویوں کی نقابت کا عہدہ قبول کرنے کی درخواست کی جسے پہلے تو آپ نے قبول کرنے سے انکار کیا لیکن جب عالم و فاضل ، حکیم و دانشور ، فقیہ و ماہر علم نجوم خواجہ نصیر الدین رحمۃ اللہ علیہ نے سفارش کی تو آپ نے قبول کر لیا۔ آپ کے اس اقدام سے جہاں دشمنوں نے یہ افواہ پھیلائی کہ شیعوں نے بنی عباس کی اسلامی حکومت کو ختم کرنے کے لئے کفار کی حمایت کی وہیں بے طرف اور آزاد اندیش افراد نے آپ کی دور اندیشی کی تعریف و تمجید کی کہ آپ کے سبب انسانی جان و مال کا نقصان بہت کم ہوا۔

سید ابن طاووس رحمۃ اللہ علیہ کی تالیفات و تصنیفات کی طویل فہرست ہے ، جسمیں سے دو کتابین زیادہ مشہور ہیں ایک دعاؤں اور زیارتوں کا مجموعہ ہے ‘‘اقبال الاعمال’’ دوسرے کتاب ‘‘اللهوف علی قتلی الطفوف’’ ہے جسمیں مدینہ سے امام حسین علیہ السلام کی روانگی سے لے کر اہل حرم کے مدینہ واپسی تک کے حالات بیان ہوئے ہیں، ماضی اور حال کے علماء نے اس کتاب لھوف کو معتبر جانا ہے اور خطباء اور ذاکرین کو نصیحت بھی کی کہ وہ اس کتاب سے مصائب بیان کریں، لہذا ہم اپنے علماء کے پیغام کو پہچانے کی غرض سے آپ تما م مومنین خصوصاً خطباء و ذاکرین سے گذارش کریں گے کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ ہو چکا ہے لہذا آپ اسے حاصل کر کے مطالعہ فرمائیں تا کہ بعض اوقات جو غیر مستند روایتیں سننے کو ملتی ہیں وہ سلسلہ اگر ختم نہ بھی ہو تو کم ضرور ہو جائے۔

مذکورہ مطالب سے واضح ہے کہ سید ابن طاووس رحمۃ اللہ علیہ ایک عظیم عالم، فقیہ، خبیر و بصیر اور دور اندیش تھے لیکن تقویٰ و پرہیزگاری اور دعا و مناجات کی کثرت کے سبب آپ ایک عارف و زاہد مشہور ہیں ۔

بارگاہ خدا میں دعاہے کہ وہ آپ کےدرجات میں اضافہ فر مائے اور ہمیں علم و عمل ، معرفت، زہد و تقویٰ کی توفیق کرامت فرمائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .