تحریر: سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | منگول سردار ہلاکو خان نے جب آخری عباسی حکمراں مستعصم کو خود اس کے محل میں اسیر کر لیا تو دہاڑتے ہوئے بولا تمہارے اس محل کے ہر کمرے میں دس کنیزیں ہیں۔ مگر تم کتنی عورتوں سے شادی کر سکتے ہو؟ تمہارے باورچی خانے میں کتنے زیادہ باورچی ہیں؟
ان اونچی چھتوں، مضبوط دیواروں اور مخملی پردوں سے کیا ملا؟
میں مغل سردار ہلاکو ہوں، میں وہی کھانا کھاتا ہوں جو میرے سپاہی کھاتے ہیں۔ میری سواری وہی ہے جو میرے فوجیوں کی سواری ہے، میں اسی زمین پر سوتا ہوں جہاں میرا لشکر سوتا ہے۔ تمہارے یہاں تو بہت سے علمائے دین ہیں، اللہ والے ہیں ان سے پوچھو کہ کیا وہ ایک ظالم مسلمان حاکم چاہتے ہیں یا ایک عادل کافر حاکم ؟
سب خاموش تھے کہ ہلاکو نے پوچھا کہ بتاو ان دو میں سے کون عوام کے لئے مفید ہے؟ ایک ایسا انسان جسکی زبان پر تو دین ہوتا ہے لیکن لوگوں پر ظلم کرتا ہے۔ یا ایسا کافر جو لوگوں پر عدالت کے ساتھ حکومت کرتا ہے؟
ہلاکو کی دہاڑ پر سب خاموش تھے کہ ایک بوڑھا شخص آگے بڑھا اور بولا: ائے مغل سردار! اپنے سوالات کے جوابات مجھ سے سنو۔ ہم بغداد کے مسلمان کافر عادل حاکم کو مسلمان ظالم حاکم پر فوقیت دیتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو تم اتنی آسانی سے اس قصر تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔
ہم ایسا حاکم چاہتے ہیں جو عدالت سے کام لے اگرچہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔ ہم ایسے حکمرانوں سے عاجز آ چکے ہیں جو اسلام و مسلمین کے نام پر حکومت کرتے ہیں لیکن ظلم کرتے ہیں۔ ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: حکومت کفر کے ساتھ باقی رہتی ہے لیکن ظلم کے ساتھ نہیں۔
اسی اثناء میں مغلوب و اسیر عباسی حاکم مستعصم نے ذلت و رسوائی اور عاجزی سے کھانے کا مطالبہ کیا تو ہلاکو نے مال غنیمت ہیرے جواہرات سونے چاندی سے بنے پہاڑ کی جانب اشارہ کیا تو غلام نے ایک سینی میں سونے کے سکے مغلوب اور شکست خوردہ عباسی حاکم کے سامنے رکھ دیا۔ مستعصم بولا میں بھوکا ہوں مجھے کھانا چاہئیے یہ اشرفیاں نہیں۔
ہلاکو نے جواب دیا: تم نے کیوں سونا چاندی جمع کیا؟ کیوں اس سے اپنی فوج نہیں تیار کی جو تمہاری مملکت کی حفاظت کرتی ؟ مستعصم نے کہا کہ شائد یہی تقدیر الہی ہو۔ ہلاکو نے کہا بس تمہارا قتل بھی تقدیر الہی ہے۔
آخری عباسی حاکم کو ایک بوری میں لپیٹ کر اتنا مارا گیا کہ مر گیا اور عباسی حکومت کا خاتمہ ہو گیا۔