تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی | ہر قتل ہونے والا شہید نہیں ہوتا بلکہ شہید میں کچھ خصوصیات پائے جاتے ہیں جنمیں ایک اہم خصوصیت اپنے ذمہ داریوں کی بغیر کسی کمی و زیادتی کے بطور کامل ادائیگی ہے۔
بقول علامہ اقبال
’’یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں‘‘
یہی یقین محکم اور عمل پیہم شہید کو شجاعت اور اخلاص عطا کرتا ہے کہ وہ خدا کے علاوہ نہ کسی سے ڈرتا ہے، نہ کسی سے لو لگاتا ہے اور نہ ہی خود کی فکر کرتا ہے۔ شہید صرف یہ سوچتا ہے کہ اس کا پروردگار اس سے راضی رہے۔
دشمنان خدا، خدا والوں کو قتل کرنے کے موقع تلاش کرتے ہیں کیوں کہ انکی نظر میں ہر مقتول معدوم ہے لیکن اللہ والے قدم قدم پر، لمحہ بہ لمحہ شہادت کی جستجو کرتے ہیں کیوں کہ انکی بلند روح، عظیم کردار قفس بدن میں قید ہوتا ہے جب اسے آزادی ملتی ہے تو آفاق پر چھا جاتا ہے کہ قاتل زندہ رہتے ہوئے بھی گمنامی کے گورستان میں گم ہو جاتا ہے اور شہید قتل ہونے کے بعد بھی زباں زد خاص و عام ہوجا تا ہے۔
آہ! کابل افغانسان کی زمین ایک بار پھر مظلوموں کے خون سے سرخ ہوگئی۔ بے گناہ اسکولی بچے اور بچیاں دہشت گردوں کے بزدلانہ حملے میں شہید ہوگئے۔
انا للہ و انا الیہ راجعون
بچے اور بچیاں ملک و ملت کا مستقبل ہوتے ہیں آج کا طالب علم کل کا عالم اور دانشور ہے۔ آج یہ لکھنا پڑھنا سیکھ رہے ہیں تو کل اگلی نسل کو سکھائیں گے۔ آج یہ نور علم سے اپنے وجود کو نورانی کر رہے ہیں تو کل ان سے گھر، سماج ، ملک منور ہو گا۔ ظاہر ہے جب علم پھیلے گا تو جہالت کا خاتمہ ہوگا، لوگوں میں شعور پیدا ہو گا تو ہر ظالم و جابر کا اقتدار خطرے میں آئے گا لہذا تاناشاہوں نے ہمیشہ عوام کو جاہل رکھا تا کہ کوئی بھی ان کے سامنے سر نہ اٹھانے پائے یعنی جہاں کہیں بھی ابوجہل کی نسل کا غلبہ ہوا وہاں سب سے پہلے تعلیم کو روکا گیا، تبلیغ و ہدایت پر پابندی لگائی گئی۔
تاریخ گواہ ہے کہ ہر نبی اور انکے وصی نے جب بھی لوگوں کی ہدایت کا اعلان کیا تو یہی انسانیت دشمن ان کے سب سے بڑے دشمن ہوگئے اور انکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے لیکن ہر محاذ پر ناکامی ان کا مقدر بنی ۔ خود ہمارے نبی رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ابتدائے بعثت میں تقریر کرنی چاہی تو انہیں روکا گیا اور جب زندگی کے آخری ایام میں تحریر کرنا چاہا تب بھی روکا گیا۔ آج کے دلخراش حادثہ نے واضح کر دیا کہ دہشت گرد دشمنان خدا و رسولؐ ہیں اور یہ بھی نہیں چاہتے کہ کوئی پڑھے لکھے۔ لیکن یہ نا عاقبت اندیش یہ بھول گئے کہ علم و ہدایت نور ہے جو نہ تقریر و تحریر کے روکنے سے رکتا ہے اور نہ ہی اہل علم کو قتل کرنے سے۔ کیوں کہ آندھیوں میں علم و ہدایت کےچراغ کی لو اور تیز ہو جاتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ جو نور کے سامنے پردہ ظلمت بنتا ہے تو وہ خود ختم ہو جاتا ہے۔
’’وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ‘‘