۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
مولانا سید صفی حیدر زیدی

حوزہ/ سکریٹری تنظیم المکاتب نے کہا کہ ہم ان جرائم پر شیعہ سنی یا مسلم غیر مسلم کا رنگ دے کر اپنے کو مطمئن نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ ظالم شیعہ سنی یا مسلم غیر مسلم کے دشمن نہیں ہیں بلکہ یہ بشریت کے دشمن اور انسانیت کے مجرم ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،مولانا سید صفی حیدر زیدی سکریٹری تنظیم المکاتب نے فسلطین اور افغانستان میں حالیہ حملہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں شیعوں کا خون بہے یا فلسطین میں سنیوں کا انسانی حقوق کی خاموشی افسوسناک ہے۔

بیان کا مکمل متن اس طرح ہے:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
من قتل نفسا  بغير نفس أو فساد فى الارض فكانما قتل الناس جميعا.مايده ٣٢
جو ايک بے گناہ کی جان لے اُسنے سارے انسانوں کی جان لی
قال امیرالمومنین علیه السلام : و کونا للظّالم خصماً و للمظلوم عوناً

ہمیشہ ظالم کے دشمن  اور مظلوم کے حامی رہو۔ 
اگر قرآن کی بات سمجہی گئی ہوتی اور
 امیرالمومنین علیہ السلام کی بات مانی گئی ہوتی  تو آج دنیا پر عدل و انصاف کا راج ہوتا، بے گناہوں کا خون اس بے دردی سے نہ بھایا جاتا، کمزور اور مظلوم اپنے دینی اور انسانی حقوق سے محروم نہ ہوتے۔  لیکن اس بے توجہی نے انسانیت کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا۔ 

آج عالمی استکبار نے پوری دنیا خصوصا اسلامی ممالک سے امن و سلامتی کو چھین لیا ہے۔  آئے دن دہشت گردانہ حملے ہو رہے ہیں۔ مظلوموں کاخون بہایا جا رہا ہے۔ 

چند روز قبل کابل افغانستان کے سیدالشہداء گرلس اسکول کی بے گناہ بچیوں پر دہشت گردانہ اور وحشیانہ حملہ عالمی استکبار کی سازشوں اور اس کے زر خریدوں کے جرائم کا نتیجہ ہے۔ 
روح اسلام اور اسکی تعلیمات سے محروم یہ ظالم دور جاہلیت کے خواہاں ہیں، جس طرح دور جاہلیت میں لڑکی کو بے جرم و خطا زندہ دفنا دیا جاتا تھا اور عورتیں اپنے انسانی حقوق سے محروم تھیں اسی طرح یہ ظالم و جاہل ،خواتین کی تعلیم کے خلاف ہیں، طالبانی دور میں بچیوں کے لئے تعلیمی مراکز کا فقدان اور آج آئے دن لڑکیوں کے اسکولوں پر حملہ ہمارے مدعا پر دلیل ہے۔ جب کہ رسول اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان مردوں اور عورتوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا ہے۔ 

ماہ مبارک رمضان میں جب پوری دنیا میں مسلمان نماز، روزہ، دعا اور استغفار میں مصروف ہیں تو آخر یہ کیسے مسلمان ہیں جنہوں نے رحمت و برکت کے مہینہ میں بے گناہ اسکولی بچیوں کا خون بہا دیا، دسیوں بچیاں شہید اور دسیوں بچیاں زخمی ہیں جس سے انسانیت شرم سار اور آدمیت گریہ کناں ہے۔ 

خون میں لت پت بچیوں کے اسکولی بیگ اور لباس دیکھ کر جہاں ہر دل غم زدہ اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ وہیں عالمی استکبار کی رسوائی اور ان دہشت گردوں کی بے دینی کا ثبوت ہے۔ کیا اسلام قصاص جیسے اہم مسائل کے علاوہ کبھی کسی غیر مسلم کے بھی قتل کی اجازت دیتا ہے؟ کیا قرآن کریم نے ایک بے گناہ کے قتل کو ایک امت کا قتل نہیں بتایا؟ 

اگر یہی حملہ یورپ یا امریکہ کے کسی ملک میں ہوتا تو انسانی حقوق کے عالمی اداروں سمیت پوری دنیا کا میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا اور جب تک مجرموں کو سزا اور پوری دنیا کو معلوم نہ ہو جاتا خاموش نہ ہوتے لیکن افسوس چاہے افغانستان میں شیعوں کا خون بہے یا فلسطین میں سنیوں کا سب سکوت میں بہتری سمجھتے ہیں۔ 

عالم اسلام چاہے وہ شیعہ ہوں یا سنی ان کو یہ سوچنا ہو گا بلکہ عالم انسانیت کے لئے غور و فکر  کامقام ہے کہ ظلم ظلم ہے چاہے افغانستان، فلسطین، یمن، بحرین، برما، نائجیریا اور لبنان میں مسلمانوں پر  ہو یا رنگ و نسل کی بنیاد پر امریکہ سمیت دنیا کے دیگر انسانی حقوق کی پاسبانی کا نعرہ لگانے والے ممالک میں سیاہ فام نہتے شہریوں پر ظلم اور انکے بنیادی حقوق سے محرومی ہو۔ ہمارا دینی فریضہ اور انسانیت کا تقاضہ ہے کہ اس کے خلاف جتنا ممکن ہو آواز اٹھائیں۔  ہم ان جرائم پر شیعہ سنی یا مسلم غیر مسلم کا رنگ دے کر اپنے کو مطمئن نہیں کر سکتے کیوں کہ یہ ظالم شیعہ سنی یا مسلم غیر مسلم کے دشمن نہیں ہیں بلکہ یہ بشریت کے دشمن اور انسانیت کے مجرم ہیں۔

ہم نہ یہ سوچ کر خاموش بیٹھ سکتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ہم کم از کم میڈیا، سوشل میڈیا پر اپنا  درد دل رکھ سکتے ہیں،جس سے مظلومین کو یہ احساس ہو کے وہ اکیلے نہیں ہیں۔ مربوط ملک کی ایمبسی اور اقوام متحدہ تک اپنی آواز پہنچا سکتے ہیں۔ جس سے ظالموں کے حوصلے پست اور مظلوموں کے دلوں کو سکون نصیب ہو گا۔ جس طرح آج اس جان لیوا کرونا وبا میں لوگوں تک پہنچنے سے ان کے دلوں کو سکون ملتا ہے۔ 

ہم سیدالشہداء گرلس اسکول پر ہوئے دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ شہداء کے علو درجات اور زخمیوں کی صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔ ان کے سوگوار اور غم زدہ کنبوں کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہیں کہ اس حادثہ نے صرف آپ کو غم زدہ نہیں کیا بلکہ ہم بھی غم زدہ ہیں۔ بلکہ ہر وہ انسان غمگین ہے جس کے اندر انسانیت باقی ہے۔ 

ہم عالم تشیع کے مبلغین خصوصا افغانستان کے مبلغین کی خدمت میں تجویز پیش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ مکتب اہلبیت علیہم السلام کی تبلیغ کریں، دنیا کے سامنے ائمہ معصومین علیہم السلام کی احادیث اور سیرت کو پیش کریں، نیز عصر غیبت میں علمائے ابرار کی روش بیان کریں کیوں کہ سلفیوں نے سوچی سمجھی سازش کے تحت عوام کو گمراہ اور شیعوں سے بد گمان کر دیا ہے، شیعیت کو کفر و الحاد کا مترادف بتا کر شیعوں کے قتل پر عام انسان کو اکساتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ ہماری ساری کوشش یہی ہو کہ زیادہ سے زیادہ مکتب اہلبیت علیہم السلام کو دنیا میں پیش کیا جائے تا کہ صرف یہ نادان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اصل اسلام جسمیں فضیلت و عزت ہے، سے واقف ہو اور اسلام کے سلسلہ میں جو غلط فہمیاں پیدا کی گئیں ہیں وہ دور ہو سکیں۔ 

مولا علی علیہ السلام کے چاہنے والوں اور غلاموں سے بھی دست بستہ گذارش ہے کہ ایسے ہر رویہ، ایسی ہر گفتگو اور ایسے ہر لفظ سے پرہیز کریں جس سے دشمن کے ہاتھ مضبوط ہوں یعنی سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے ایسی باتیں کر کے انہیں شیعیت کا دشمن بنا دیا جاتا ہے۔ جیسا کہ مراجع کرام نے بھی تاکید کرتے ہوئے فرمایا ہے:  اگر مشرق میں ہمارے کسی رویہ کے سبب مغرب میں کسی مومن کو قتل کیا جاتا ہے تو اس قتل میں ہم برابر کے شریک ہیں۔ 

اقوام متحدہ سے اپیل ہے کہ وہ افغانستان سمیت دنیا کے تمام ممالک میں امن و سلامتی کو یقینی بنائے تا کہ انسانیت کو سکون اور بشریت کو چین نصیب ہو۔ 

افغانستان حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ اس حادثہ کے مجرموں کو جلد از جلد ان کے کیفر کردار تک پہچائے تا کہ مستقبل میں ان کے ملک اور ملت کی سلامتی ممکن ہو سکے۔ 

اپنی حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مناسب اقدام کرے تا کہ پورے علاقہ میں امن و سلامتی قائم ہو سکے۔

والسلام 

مولانا سید صفی حیدر زیدی 

سکریٹری تنظیم المکاتب

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .