حوزہ نیوز ایجنسی | گلی کے نکڑ والے مکان سے ہمیشہ لڑائی جھگڑے کی آوازیں بلند ہوتی تھیں شروع شروع میں تو اڑوس پڑوس کو بہت تشویش ہوئی لیکن کچھ وقت بعد وہ اس آہ و بکا کو سننے کے عادی ہوگئے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ جنت بی بی کی منگنی بچپن میں ہی خاندانی رسم ورواج کے تحت قیس گل نامی شخص سے کی گئی۔یہ اس کا چچا زاد بھی تھا۔
جنت بی بی سلیقہ مندباشعور سگھڑ اور نماز کی پابند خاتون تھی۔ اس کے حسن اخلاق کی وجہ سے محلے کی عورتیں اس کی گرویدہ تھیں۔ ہروقت اسکے گرد عورتوں کا جمگھٹا لگارہتا تھا۔ جنت بی بی غریب خاندان سے تعلق رکھتی تھی بس نصیب کی بات قیس گل کے ساتھ بیاہی گئی۔ خاندانی رسم ورواج جیت گئے اور جنت بی بی ہارگئی۔
قیس گل ان پڑھ جاہل جھگڑالو اور حد درجے کا اجڈ اور گنوار تھا۔ ہر بات میں ضد لگانا، ہر آدمی سے بات بے بات الجھنا اس کا وطیرہ تھا۔ مزدوری کرکے واپس گھر آتا تو گھر میں قدم رکھتے ہی کسی نہ کسی بہانے سےجنت بی بی سے لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتا۔ وہ بیچاری ہاتھ باندھتی رہتی لیکن اس ظالم کو ترس نہ آتا کئی بار اس کے سر میں زخم آئے، ہاتھوں کی انگلیاں توڑیں غرضیکہ غصے میں یہ آدم زاد تشدد کی تمام حدیں پار کرجاتا۔
شروع میں تو اہل محلہ معاملہ رفع دفع کروانے کیلئے پہنچ جاتے تھے لیکن انہوں نے قیس گل کی بد زبانی کے باعث مداخلت چھوڑ دی۔ جنت بی بی سارا دن گھر کے کام کرتی بچوں کا خیال رکھتی لیکن اس کی کوئی ادا بھی اس سنگدل شوہر کو موم نہ کرسکی۔
محلے والے بھی اس بدزبان کو منہ نہ لگاتے تھے۔ پرلے درجے کا نکھٹو قیس گل جب جی میں آتا بیوی سے کہتا ۔جاؤ مجھے کسی سے ہزار روپے لا دو۔ مرتی کیا نہ کرتی بیچاری مجبور ہوکر کسی کی منت سماجت کرتی اور اسے پیسے لاکر دیتی ۔ بچے بڑے ہورہے تھے اخراجات اور ضرورتیں بڑھ رہی تھیں لیکن قیس گل کی جیسے ابھی تک عقل داڑھ نہ نکلی تھی۔ بچے سمجھدار ہوئے تو ماں کا سہارا بن گئے۔ جب باپ سیخ پا ہونے لگتا تو بچے ڈھال بن جاتے لیکن پھر بھی کبھی کبھی آگ کے الاؤ جھلسا دیتے تھے۔
محلے کے سبھی لوگ سوچ بچار کررہے تھے کہ اس جانور نما انسان کو اس نیک سیرت جنت بی بی کے پلو میں کیوں باندھا گیا وہی خاندانی رسم ورواج وہی کزنز میرج۔ وہی بچپن کی منگنی۔ آخر لڑکیوں کو رسم و رواج کی بھینٹ کیوں چڑھا دیا جاتا ہے!؟ وہ بھی انسان ہیں ان کی بھی ایک زندگی ہے ان کی بھی پسند ناپسند ہے۔ ہم بن پوچھے بغیر رضامندی کے بچوں کے رشتے کیوں طے کرتے ہیں؟ ہم تو اپنی زندگی گزار چکے بچوں نے اپنی زندگی اپنی منشا اور مرضی سے گزارنی ہے۔ انہیں ہم یہ حق کیوں نہیں دیتے کہ وہ شادی سے پہلے اپنی رائے کا اظہار کر سکیں اور ان کے معیار کے مطابق ان کا رشتہ طے کیا جائے۔ اس میں غلط کیا ہے۔ لیکن آج بھی بعض علاقوں اور قبائل میں لڑکیاں وہی پرانے رسم و رواج کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں۔ دنیا چاند پر پہنچ چکی ہے لیکن ہم میں سے بعض آج بھی لکیر کے فقیر ہیں۔
خدارا اپنی بچیوں کے رشتے طے کرتے وقت ان کی رائے کا احترام کیجئے ان کے مستقبل کا فیصلہ دو منٹ میں جذبات میں آکر ہرگز نہ کیجئے۔