۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
رمضان المبارک کے چھبیسویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! اس مہینے میں میری کوششوں کو لائق قدردانی قرار دے، میرے گناہوں کو اس میں قابل بخشش قرار دے، اور میرے عمل کو اس میں مقبول اور میرے عیبوں کو پوشیدہ قرار دے، اے سننے والوں میں سب سے زیادہ سننے والے۔ 

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسی ماہ رمضان کے چھبیسویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔ ’’أللّهُمَّ اجْعَلْ سَعْيي فيہ مَشكوراً وَذَنبي فيہ مَغفُوراً وَعَمَلي فيہ مَقبُولاً وَعَيْببي فيہ مَستوراً يا أسمَعَ السّامعينَ‘‘
خدایا! اس مہینے میں میری کوششوں کو لائق قدردانی قرار دے، میرے گناہوں کو اس میں قابل بخشش قرار دے، اور میرے عمل کو اس میں مقبول اور میرے عیبوں کو پوشیدہ قرار دے، اے سننے والوں میں سب سے زیادہ سننے والے۔
قرآن کریم کا اعلان ہے ’’وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَى ۔ وَأَنَّ سَعْيَهُ سَوْفَ يُرَى ‘‘ اور یہ کہ انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے۔ اور اس کی سعی و کوشش عنقریب دیکھی جائے گی۔ (سورہ نجم۔ آیت ۳۹ و ۴۰) جس سے واضح ہوتا ہے کہ بغیر سعی و کوشش کے انسان کے کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے۔ انسان کی ملکیت وہی ہے، اس کا اختیار اسی پر ہے جسے اپنی محنت سے حاصل کرتا ہے۔
اسلام بے کاری اور مفت خوری کا مخالف ہے۔ اسی لئے جہاں نماز و روزہ کا حکم دیا وہیں تجارت اور کسب حلال کا بھی حکم دیا ہے۔’’ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‘‘۔ پھر جب نماز (جمعہ) تمام ہو جاے تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل (روزی) تلاش کرو اور اللہ کو بہت یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاو۔ (سورہ جمعہ۔ آیت ۱۰) یعنی انسان کو اللہ نے صرف مصلی پر بیٹھ کر نماز، دعا و مناجات کا حکم نہیں دیا بلکہ واجب کی ادائیگی کے بعد کسب حلال کا بھی حکم دیا۔ اور اس آیت میں جہاں کسب حلال کی ترغیب ہے وہیں دو باتوں کی جانب خاص توجہ کا بھی حکم دیا ہے ایک فضل خدا دوسرے ذکر خدا۔ یعنی انسان لاکھ کوشش کرے، لاکھ محنت کرے لیکن اگر اس کا فضل شامل حال نہ ہوا تو نہ دنیا میں کامیابی ممکن ہے اور نہ ہی آخرت میں انسان کامیاب ہو سکتا ہے۔
دوسری بات جسکی جانب قرآن کریم نے متوجہ کیا وہ ذکر خدا ہے۔ اور یہی ذکر خدا، یاد الہی بندے کی زندگی کا محور ہے چاہے وہ انسان کی عبادی زندگی ہو یا معاشی پہلو ہو۔ ہر مقام پر ذکر خدا لازم و ضروری ہے۔ جناب موسیٰ علیہ السلام سے خود خدا نے خطاب کیا۔’’ وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي‘‘۔ اور میری یاد (میرے ذکر) کیلئے نماز قائم کرو۔ (سورہ طہ، آیت ۱۴) یعنی نماز جو دین کا ستون ہے، اسلام کا چہرہ ہے اور اسلام کا رکن ہے کہ اگر نماز قبول تو سارے اعمال قبول ہو جائیں گے اور اگر نماز رد ہو گئی تو سارے اعمال رد ہو جائیں گے۔ لیکن اس نماز کا مقصد یاد خدا اور ذکر الہی ہے۔ اسی طرح تجارت اور کسب حلال میں بھی جس چیز کی جانب اللہ نے متوجہ کیا وہ یاد خدا اور ذکر الہی ہے۔ اگر نماز جیسی عظیم عبادت ذکر خداسے خالی ہو تو وہ عبادت کہنے کے قابل نہیں۔ اور اگر انسان یاد خدا کے سایہ میں تجارت و کسب حلال کرے تو یہ عبادت ہو جائے گی۔ سعی کوشش دونوں جگہ ہے چاہے وہ نماز و روزہ ہو یا کسب و تجارت، لیکن وہی سعی و کوشش مشکور و مقبول قرار پائے گی جو یاد الہی اور تقویٰ کے زیر سایہ ہو جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے۔
’’إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى ۔ فَأَمَّا مَن أَعْطَى وَاتَّقَى ۔ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى ۔ فَسَنُيَسِّرُہُ لِلْيُسْرَى ۔ وَأَمَّا مَن بَخِلَ وَاسْتَغْنَى ۔ وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى ۔ فَسَنُيَسِّرُہُ لِلْعُسْرَى ۔ وَمَا يُغْنِي عَنْہُ مَالُہُ إِذَا تَرَدَّى ‘‘ یقیناً تمہاری کوششیں مختلف قِسم کی ہیں۔ تو جس نے (راہِ خدا میں) مال دیا اور پرہیزگاری اختیار کی۔ اور اچھی بات (اسلام) کی تصدیق کی۔ تو ہم اسے آسان راستہ کیلئے سہو لت دیں گے۔ اور جس نے بُخل کیا اور (خدا سے) بےپرواہی کی۔ اور اچھی بات کو جھٹلایا۔ تو ہم اسے سخت راستے کی سہولت دیں گے۔ اور اس کا مال اسے کوئی فائدہ نہ دے گا جب وہ (ہلاکت کے) گڑھے میں گرے گا۔ (سورہ لیل، آیت 4 تا 11)
مذکورہ آیات سے واضح ہو گیا کہ وہی سعی مشکور قرار پائے گی جس میں عطا، تقویٰ اور تصدیق ہو گی لیکن جس سعی و کوشش میں کنجوسی، لاپرواہی اور حق کی تکذیب ہو گی اس میں ہلاکت ہی انسان کا مقدر ہے۔
لہذا چاہے عبادت ہو یا کسب و تجارت اس میں تقویٰ ہی محور ہو اور انسان اللہ سے فضل کی درخواست کرے۔ جیسا کہ امام علی رضا علیہ السلام نے فرمایا: اس کا اجر جو اپنے اور اپنے گھر والوں کے مخارج زندگی کے سلسلہ میں فضل خدا کا طلب گار ہوتا ہے، مجاہد راہ خدا کے اجر سے زیادہ ہے۔
ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے اصحاب کے ہمراہ ایک راستہ سے گذر رہے تھے کہ کیا دیکھا کہ ایک شخص کسب حلال میں مصروف اور بہت زیادہ محنت کر رہا ہے۔ اصحاب نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے کاش! اس کی یہ کوشش راہ خدا میں ہوتی۔ حضورؐ نے فرمایا: اگر اس کا مقصد اپنا، اپنے اہل و عیال والدین، زوجہ اور بچوں کی کفالت ہے تو یہ راہ خدا میں شمار ہوگا۔
اگر ہم انبیاء و مرسلین علیہم السلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں یہی ملے گا کہ انبیاء و مرسلین علیہم السلام نے جہاں دین کی تبلیغ کی، بشریت کو راہ ہدایت و سعادت دکھائی وہیں کسب حلال کے لئے محنت و زحمت فرمائی۔ خود ہمارے حضورؐ نے چوپانی کی اور مال خدیجہؑ سے تجارت کی۔ اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے چوپانی کی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے چوبانی کی اور گھر بنائے۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے درزی کا کام کیا، حضرت نوح نے بڑھئی (کارپینٹر) کا کام کیا۔ اسی طرح تمام انبیاء علیہم السلام نے کام کیا اور اپنی محنت سے رزق حاصل کیا۔
روایت میں ملتا ہے کہ ایک دن خدا وند عالم نے اپنےصاحب کتاب (زبور) نبی حضرت داؤد علیہ السلام پر وحی کی کہ اے داؤد! تمہاری ساری باتیں مجھے پسند ہیں لیکن تمہاری ایک بات مجھے پسند نہیں ہے ۔ جناب داؤد علیہ السلام نے عرض کیا ۔ خدا یا! رہنمائی فرما۔ ارشاد ہوا کہ تم اپنی زندگی بیت المال سے چلاتے ہو ۔ خود کیوں رزق حلال کے لئے محنت نہیں کرتے؟ واضح رہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے معصوم نبی تھے ۔ اگر وہ بیت المال سے کچھ لیتے بھی تھے تو وہ ’’قوت لا یموت‘‘ (اتنا ہی جس سے موت نہ آے۔) ہی لیتے تھے۔ لیکن اللہ کو یہ بھی ناگوار گذرا کہ اس کا نبی ؐ کیوں بیت المال پر اپنی زندگی بسر کرے؟ کیوں نہ خود کام کرے اور اپنی محنت کی کمائی سے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالے۔ حضرت داؤدؑ نے بارگاہ خدا میں عرض کیا کہ خدایا! میں کیا کروں تو ہی مجھے ہدایت فرما۔ ارشاد ہوا کہ داؤد ؑ! ہم نے تمہیں یہ قدرت دی کہ تم لوہے کو موم کی طرح نرم کر سکتے ہو۔ اور جناب داؤد علیہ السلام نے زرہ بنانی شروع کی اور اس سے اپنا خرچ چلاتے تھے۔
’’وذَنْبی فیهِ مَغْفوراً وعَملی فیهِ مَقْبولاً‘‘ اور میرے گناہوں کو اس میں قابل بخشش قرار دے، اور میرے عمل کو اس میں قبول کر لے۔
ماہ رمضان گناہوں سے مغفرت کا مہینہ ہے ۔ خصوصاًماہ رمضان کے یہ آخری دس دن مغفرت کے دن ہیں ۔ اس ماہ میں گناہ معاف ہوتے ہیں اور اعمال قبول ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایاکہ تمہاری پشت گناہوں سے سنگین ہے لہذا طولانی سجدے کرو تا کہ پشت ہلکی ہو سکے۔
’’وَعَيْببي فيہ مَستوراً‘‘ اور ہمارے عیوب کو پوشیدہ کر دے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک عظیم صفت اس کا ستار العیوب ہونا ہے ۔ اور یہ اس کا کرم ہے کہ وہ ستار العیوب ہے ورنہ کوئی بندہ کسی بندہ کو اپنی صورت نہیں دکھا سکتا تھا۔
روایت میں ہے مومن کو چاہئیے کہ اس کے اندر اللہ کی صفت ستارالعیوب پائی جائے۔ دوسروں کے عیوب چھپائے ظاہر نہ کرے۔
خدا یا! ہمیں اپنی راہ میں کوشش کرنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمارے گناہوں کو معاف کر دے ، اعمال کو قبول کر لے اور ہمارے عیوب کو چھپا دے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .