۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
ماہ رمضان کی پانچویں دن کی دعا

حوزہ/ خدایا! مجھے اس مہینے میں مغفرت طلب کرنے والوں اور اپنے نیک، صالح  اور فرمانبردار بندوں میں قرار دے اور مجھے اپنے مقرب اولیاء کے زمرے میں قرار دے، تیری رأفت کے واسطے اے مہربانوں میں سب سے زیادہ مہربان۔

تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی

حوزہ نیوز ایجنسیماہ رمضان کے پانچویں دن کی دعا میں ہم پڑھتے ہیں۔’’اَللّهُمَّ اجعَلني فيہ مِنَ المُستَغْفِرينَ وَاجعَلني فيہ مِن عِبادِكَ الصّالحينَ القانِتينَ وَاجعَلني فيہ مِن اَوْليائِكَ المُقَرَّبينَ بِرَأفَتِكَ يا اَرحَمَ الرّاحمينَ‘‘

خدایا! مجھے اس مہینے میں مغفرت طلب کرنے والوں اور اپنے نیک، صالح اور فرمانبردار بندوں میں قرار دے اور مجھے اپنے مقرب اولیاء کے زمرے میں قرار دے، تیری رأفت کے واسطے اے مہربانوں میں سب سے زیادہ مہربان۔

’’اَللّهُمَّ اجعَلني فيہ مِنَ المُستَغْفِرينَ ‘‘ خدایا! مجھے اس مہینے میں مغفرت طلب کرنے والوں میں قرار دے۔ استغفار کے لئے اس کے شرائط ضروری ہیں۔ جس نے حرام مال کھایا ہے استغفار اس کے لئے کافی نہیں ہو گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ جس جس کا مال غصب کیا ہے انہیں راضی کرے۔

اگر رشوت، سود اور ربا کھایا ہے تو پہلے ان کے مالکوں کو واپس کرے یا انکو راضی کرے۔ علمائے اخلاق کے مطابق اگر حرام سے صحت بنائی ہے تو پہلے کم اور حلال کھائیں تا کہ جو مال حرام بدن میں ہے ختم ہو جائے تب استغفار کریں۔

بات آگئی تو یہ ذکر کرنا بے جا نہ ہوگا کہ آج ہمارے سماج میں کتنے ایسے ملیں گے جو یہ کہتے ہیں کہ ہم جو مجلسیں کرتے ہیں، عزاداری کرتے ہیں، نذریں کرتے ہیں وہ میری محنت اور حلال کی، تنخواہ کی ہوتی ہے۔یہ دعویٰ ہی بتا رہا ہے کہ مذکورہ مستحبات کے علاوہ سب کہیں اور سے ہوتا ہے۔ تو یاد رہے کہ وہ جن چیزوں میں آپ محنت اور حلال کی تنخواہ اور رقم خرچ کرتے ہیں وہ سب مستحب ہیں لیکن روزآنہ جو کھا رہے ہیں وہ واجب ہے اس میں مال حلال کا استعمال بدرجہ اولیٰ واجب ہے۔

استغفار یعنی اپنے گناہوں، چاہے ان گناہوں کا ارتکاب زبان سے کیا ہو یا عمل سے انکے سلسلہ میں خدا سے مغفرت اور بخشش کی درخواست کرنا تا کہ اس کے عذاب سے امان نصیب ہو۔

روایات کے مطابق جو مومن استغفار کرتا ہے وہ عذاب سے امان پا جائے گا، اس کے گناہ معاف ہو جائیں گے، فقر و تنگدستی دور ہوجائے گی اور رزق میں اضافہ ہوگا، اگر بے اولاد ہے تواللہ اسے اولاد عطا کرے گا، خدا اس کو آسائش عطا کرے گا اور اسکی عمر طولانی ہوگی، جو استغفار کرے گا تو اللہ اسے ہم و غم سے نجات دے گا، خوف و حراس سے امن و سکون میسر کرے گا۔ اللہ اسکی مشکلات برطرف کرے گا اور مصیبتوں سے نجات دے گا۔

استغفار کے شرائط

ایک شخص نے امیرالمومنین علیہ السلام کے سامنے کہا استغفراللہ تو مولا نے فرمایا: تمہاری ماں تمہارے غم میں بیٹھے۔ جانتے ہو استغفار علیین (بلند مرتبہ) کا مقام ہے، یہ ایسا اسم ہے جس کے چھ معنیٰ ہیں۔ گذشتہ گناہوں پر توبہ، مستقبل میں گناہ نہ کرنے کا عزم، خلق خدا کے حقوق کی ادائیگی تا کہ ایسی پاک و پاکیزہ حالت میں خدا سے ملاقات ہو کہ کسی مخلوق کا حق تمہاری گردن پر نہ ہو، جن واجبات اور فرائض کو ترک کیا ہے انکی ادائیگی، حرام (مال) سے جسم میں جو گوشت بنا ہے غم و الم سے انہیں ختم کرنا اور اطاعت خدا میں زحمت برداشت کرنا جس طرح گناہ میں جسم کو لذت پہنچائی ہے تب کہو استغفراللہ ۔ دعا ہے کہ آج کے دن اللہ ہمیں وہی توفیق توبہ عطا کرے جیسا امیرالمومنین علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے۔

روایت میں ہے توبہ کرنے والے کو اللہ وہاں سے رزق عطا کرے گا جہاں سے اسے کبھی گمان بھی نہیں ہوگا۔

واضح رہے کہ رزق سے مراد صرف پیسے نہیں ہیں بلکہ ہر وہ چیز جو انسان کے لئے دنیا و آخرت میں باعث سعادت اور خوشبختی کا سبب ہو، چاہے پیسہ ہو یا کوئی اور چیز۔ جیسے ہم امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی دعا میں پڑھتے ہیں۔ اللّٰهُمَّ ارْزُقْنا تَوْفِيقَ الطّاعَةِ، وَبُعْدَ الْمَعْصِيَةِ، وَصِدْقَ النِّيَّةِ، وَعِرْفانَ الْحُرْمَةِ...........

خدایا: ہمیں اپنی اطاعت کی توفیق، گناہ سے دوری، نیت میں سچائی اور صاحب حرمت (واجبات) کی شناخت کا رزق عطا فرما۔

وَاجْعَلْنِی فِیهِ مِنْ عِبَادِکَ الصَّالِحِینَ الْقَانِتِینَ اور اس ماہ میں مجھے اپنے صالح اور فرمانبردار بندوں میں قرار دے۔ قرآن کریم میں اللہ نے چار لوگوں کو جنت کی ضمانت اور انہیں کامیابی کی سند دی ہے۔ اور وہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔ یہی صالحین ہیں جنکو سورہ والعصر میں کامیاب انسان بتایا گیا ہے۔ وَالْعَصْرِ‌۔ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ‌۔ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‌
عصر کی قسم ! تمام انسان خسارہ میں ہیں، سواے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور عمل صالح انجام دیا اور آپس میں ایک دوسرے کوحق اور صبر کی وصیت کرتے ہیں۔ وَاجْعَلْنِی فِیهِ مِنْ أَوْلِیائِکَ الْمُقَرَّبِینَ اور مجھے اس ماہ میں اپنے مقرب اولیاء کے زمرے میں قرار دے۔

روایات کی روشنی اللہ کے مقرب بندے وہ ہیں جو زندگی کے کسی لمحے میں یاد خدا سے غافل نہیں ہوتے۔ صرف خدا کی رضا کے لئے پوری زندگی اسکی بندگی میں گذار دیتے ہیں۔ بارگاہ معبود میں مقربین کا جلی نمونہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی ذات ہے کہ آپ نے خود فرمایا:خدایا! میں نے تجھے لائق عبادت جان کر تیری عبادت کرتا ہوں۔

بارگاہ معبود میں دعا ہے کہ خدا ہمیں محمد و آل محمد علیہم السلام خصوصا امیرالمومنین علیہ السلام کی معرفت عطا فرماے اور انکی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرماے تا کہ ہمارا شمار بھی اللہ کے مقرب بندوں میں ہو سکے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .