بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّهَ يَجِدِ اللَّهَ غَفُورًا رَحِيمًا. النِّسَآء(۱۱۰)
ترجمہ: اور جو بھی کسی کے ساتھ برائی کرے گا یا اپنے نفس پر ظلم کرے گا اس کے بعد استغفار کرے گا تو خدا کو غفور اور رحیم پائے گا۔
موضوع:
اپنے گناہوں پر توبہ کریں اور اللہ سے مغفرت کی امید رکھیں
پس منظر:
اس آیت میں اللہ تعالی نے انسانوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ اپنے گناہوں پر توبہ کریں اور اللہ سے مغفرت کی امید رکھیں۔ اس میں انسانوں کو استغفار کی ترغیب دی گئی ہے تاکہ وہ اللہ کے قریب آئیں۔
تفسیر:
راہ حق سے بھٹکنے والوں کے لیے باب رحمت کھلا ہے۔ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں اور اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں کے لیے وسیلۂ استغفار ہر وقت موجود ہے۔
آیت میں دو گناہوں کا ذکر ہے، برائی اور ظلم۔ ان دونوں کا فرق بیان کرنے والے مفسرین میں بہت اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں، برائی وہ گناہ ہے جو کسی اور شخص کے ساتھ برائی کی ہو اور ظلم اپنے نفس پر کیا ہو۔ بعض دیگر کہتے ہیں۔ [سُوۡٓءًا] گناہ کبیرہ ہے اور ظلم گناہ صغیرہ۔ بعض بالعکس کہتے ہیں۔ ان میں بہتر تفسیر یہ ہے کہ [سُوۡٓءًا] (برائی) سے مراد وہ زیادتی ہو سکتی ہے جو انسان دوسروں کے ساتھ کرتا ہے اور ظلم بہ نفس سے مراد احکام الٰہی کی خلاف ورزی ہے۔ [و العلم عند اللہ]۔
اہم نکات:
1. استغفار کی اہمیت: گناہ کے بعد اللہ سے توبہ اور استغفار انسان کے دل کو سکون دیتی ہے اور اس کے گناہوں کی معافی کا ذریعہ بنتی ہے۔
2. اللہ کی رحمت: اللہ کی مغفرت اور رحمت میں کوئی کمی نہیں۔ انسان چاہے جتنا بڑا گناہ کرے، اللہ کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔
3. انسانی خطاء: انسان خطا کرنے والا ہے، لیکن اللہ نے انسانوں کے لیے توبہ کی ایک راہ رکھی ہے تاکہ وہ اپنی غلطیوں سے سیکھ کر واپس اللہ کی رضا کی طرف لوٹ سکیں۔
نتیجہ:
یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ اگر ہم اپنے گناہوں پر پشیمان ہوں اور اللہ سے توبہ کریں تو وہ ہمیں معاف کر دیتا ہے اور اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور اس کی مغفرت کی امید رکھنی چاہیے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء
آپ کا تبصرہ