منگل 4 فروری 2025 - 04:00
عطر قرآن | راز کی باتوں میں خیر اور اللہ کی رضا کے حصول کی اہمیت

حوزہ/ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو راز کی باتوں سے بچنے اور معاشرتی بہبود کے کاموں کی ترغیب دی ہے۔ جو شخص اللہ کی رضا کے لیے صدقہ، نیکی، اور اصلاح کے کام کرے گا، اسے اللہ تعالیٰ بڑا اجر عطا فرمائے گا۔ یہ آیت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم اپنی باتوں اور اعمال میں اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھیں اور معاشرے کے لیے مفید کام کریں۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

لَا خَيْرَ فِي كَثِيرٍ مِنْ نَجْوَاهُمْ إِلَّا مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَةٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلَاحٍ بَيْنَ النَّاسِ ۚ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا. النِّسَآء(۱۱۴)

ترجمہ: ان لوگوں کی اکثر راز کی باتوں میں کوئی خیر نہیں ہے مگر وہ شخص جو کسی صدقہ, کا» خیر یا لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دے اور جو بھی یہ سارے کام رضائے الٰہی کی طلب میں انجام دے گا ہم اسے اجر عظیم عطا کریں گے۔

موضوع:

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں انسانی معاشرے میں راز کی باتوں (نجویٰ) کے بارے میں واضح ہدایت دی ہے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اکثر راز کی باتوں میں کوئی خیر نہیں ہوتی، سوائے ان باتوں کے جو صدقہ، معروف (نیکی)، یا لوگوں کے درمیان اصلاح کے لیے ہوں۔ جو شخص یہ کام اللہ کی رضا کے لیے کرے گا، اسے اللہ تعالیٰ بڑا اجر عطا فرمائے گا۔

پس منظر:

یہ آیت مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ اس وقت مسلم معاشرے میں مختلف قسم کی راز کی باتیں اور سازشیں ہوتی تھیں، جن کا مقصد اکثر لوگوں کو نقصان پہنچانا یا فتنہ پیدا کرنا ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں سے بچنے کی تلقین کی اور صرف ان باتوں کو مفید قرار دیا جو معاشرتی بہبود، خیر، اور اصلاح کے لیے ہوں۔

تفسیر:

زیر زمین چلنے والی باتیں نہایت خطرناک ہوتی ہیں۔ اس لیے عام طور پر راز میں دو باتیں کہی جاتی ہیں: ایک وہ جو اپنے فائدے کی ہو اور دوسری وہ جو دوسروں کے لیے نقصان دہ ہو۔ ورنہ اگر بھلائی کی بات ہو تو اکثر اسے چھپانے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ البتہ بھلائی کی بات کو اس وقت چھپایا جاتاہے، جب اسے کسی قسم کی ریاکاری سے پا ک رکھنا مقصود ہو۔ چنانچہ صدقات کے بارے میں ارشاد ہوا:

[اِنۡ تُبۡدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا ہِیَ ۚ وَ اِنۡ تُخۡفُوۡہَا وَ تُؤۡتُوۡہَا الۡفُقَرَآءَ فَہُوَ خَیۡرٌ لَّکُمۡ]۔۔۔۔ (۲ بقرہ: ۲۷۱)

[ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ:] آیت کے دوسرے حصے میں ایک اہم کلیہ بیان فرمایا: اور جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لیے ایسا کرے تو اسے عنقریب ہم اجرعظیم عطا کریں گے۔ ظاہر ہے صدقہ، نیکی اور اصلاح اپنی جگہ حسن رکھتے ہیں۔ اللہ کی مرضی کو مقصد بنا کر اگر ان اعمال حسنہ کا انجام دینے والا بھی اپنے اندر حسن پیدا کرے تو اس صورت میں یہ عمل نیک، قابل اجر و ثواب ہوتا ہے، ورنہ اگر عمل میں حسن ہو اور عامل میں حسن نہ ہو تو اجر و ثواب کا مستحق نہیں ہوتا۔ مثلا ایک چور صدقہ دیتا ہے یا ایک پیشہ ور مجرم اور قاتل رفاہی کام کرتا ہے تو اس کا یہ عمل لوگوں کی نظروں میں بھی قابل ستائش نہ ہو گا، بلکہ لوگ اسے طعن و تشنیع کا نشانہ بنائیں گے۔ اس بات سے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا ہے جو عام لوگ کرتے ہیں کہ آیا غیر مسلم سائنسدانوں کو بھی کوئی ثواب ملے گا، جنہوں نے انسانیت کے لیے بہت سی خدمات انجام دی ہیں؟

اہم نکات

۱۔ اللہ کی خوشنودی کو مقصد بنانے سے مؤمن میں حسن پیدا ہوتا ہے۔

۲۔ مؤمن میں حسن پیدا ہونے سے اس کے عمل میں حسن آ جاتا ہے اور ثواب میں اضافہ ہوتا ہے۔

نتیجہ:

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو راز کی باتوں سے بچنے اور معاشرتی بہبود کے کاموں کی ترغیب دی ہے۔ جو شخص اللہ کی رضا کے لیے صدقہ، نیکی، اور اصلاح کے کام کرے گا، اسے اللہ تعالیٰ بڑا اجر عطا فرمائے گا۔ یہ آیت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہم اپنی باتوں اور اعمال میں اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھیں اور معاشرے کے لیے مفید کام کریں۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر سورہ النساء

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha