بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
هَا أَنْتُمْ هَٰؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَنْ يُجَادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمْ مَنْ يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا. النِّسَآء(۱۰۹)
ترجمہ: ہوشیار.... اس وقت تم نے زندگانی دنیا میں ان کی طرف سے جھگڑا شروع بھی کردیا تو اب روزِ قیامت ان کی طرف سے اللہ سے کون جھگڑا کرے گا اور کون ان کا وکیل اور طرفدار بنے گا۔
موضوع:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو تنبیہ کر رہا ہے جو دنیا میں گمراہ لوگوں کی حمایت کرتے ہیں، ان کے لیے جھوٹے دلائل پیش کرتے ہیں اور ان کے برے اعمال کو چھپاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں یاد دلاتا ہے کہ قیامت کے دن کوئی بھی ان کی طرف سے اللہ کے سامنے جھگڑا نہیں کرے گا اور نہ ہی کوئی ان کا وکیل بنے گا۔
پس منظر:
یہ آیت ان منافقین اور گمراہ لوگوں کے بارے میں ہے جو اپنے برے اعمال کو چھپانے کے لیے دوسروں کو استعمال کرتے ہیں۔ بعض لوگ دنیا میں ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کے لیے جھوٹے دلائل پیش کرتے ہیں، لیکن قیامت کے دن ایسے لوگوں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا۔
تفسیر:
اگر اس وکالت نے کچھ فائدہ دیا تو وہ دنیوی ہو گا، جسے چند دنوں میں ختم ہو جانا ہے۔ جب کہ اس کا وبال آخرت کے لیے باقی رہے گا۔ وہاں کون اس کی وکالت کرے گا؟
اگر یہ عقیدہ مومن کے ذہن میں راسخ ہوجائے کہ کل بروز قیامت اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینا ہے تو انسان چند روز کی بے قیمت چیزوں کے لیے اپنی ابدی زندگی کو تباہ نہ کرے۔
اہم نکات:
1. دنیا میں گمراہ لوگوں کی حمایت کرنا اور ان کے لیے جھوٹے دلائل پیش کرنا بے فائدہ ہے۔
2. قیامت کے دن ہر شخص اپنے اعمال کے ساتھ تنہا ہوگا۔
3. اللہ کی عدالت میں کوئی بھی کسی کی طرف سے جھگڑا نہیں کرے گا۔
4. انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اعمال کی ذمہ داری خود لے اور اللہ کے سامنے جوابدہ ہونے کے لیے تیار رہے۔
نتیجہ:
اس آیت سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں دنیا میں گمراہ لوگوں کی حمایت کرنے اور ان کے لیے جھوٹے دلائل پیش کرنے سے بچنا چاہیے۔ ہمیں اپنے اعمال کی ذمہ داری خود لینی چاہیے اور اللہ کے سامنے جوابدہ ہونے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء
آپ کا تبصرہ