۲۹ شهریور ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 19, 2024
عطر قرآن

حوزہ/ وہ لوگ ہیں جو جھوٹی تعریفیں اور غلط اعمال پر فخر کرتے ہیں اور انعام کی توقع رکھتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَواْ وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُواْ بِمَا لَمْ يَفْعَلُواْ فَلاَ تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ. سورہ آل عمران آیت ۱۸۸

ترجمہ: خبردار جولوگ اپنے كئے پر مغرور ہيں او رچاہتے ہيں كہ جو اچھے كام نہيں كئے ہيں ان پر بھى ان كى تعريف كى جائے تو خبردار انھيں عذاب سے محفوظ خيال بھى نہ كرنا _ ان كے لئے دردناک عذاب ہے۔

موضوع:

اس آیت کا موضوع وہ لوگ ہیں جو جھوٹی تعریفیں اور غلط اعمال پر فخر کرتے ہیں اور انعام کی توقع رکھتے ہیں۔

پس منظر:

یہ آیت اُن لوگوں کی مذمت کرتی ہے جو اپنے بُرے اعمال پر خوش ہوتے ہیں اور جھوٹے دعوے کرتے ہیں۔ اہلِ کتاب، خاص طور پر یہود کے علما، کا یہاں ذکر ہے جو اپنی کتاب میں تحریف کرتے اور جھوٹ بول کر خود کو دین کے رہنما سمجھتے تھے۔

تفسیر:

  1. صدق و سچائی کی اہمیت: یہ آیت ہمیں سچائی اور دیانتداری کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔ انسان کو اپنے اعمال میں سچا ہونا چاہیے اور جو کچھ کیا ہے، اس پر خوش ہونا چاہیے، نہ کہ جھوٹے دعوے کرکے اور ایسی تعریف کی خواہش کرکے جو اس کا حق نہیں۔
  2. ریاکاری سے بچاؤ: یہ آیت ریاکاری (دکھاوے) کی مذمت کرتی ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ دوسروں کو دھوکہ دیتے ہیں اور اپنی حقیقت کو چھپا کر جھوٹے اعمال کے ذریعے عزت و شہرت پانے کی کوشش کرتے ہیں، وہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔
  3. جھوٹی تعریف کے خطرات: آیت میں واضح کیا گیا ہے کہ جو لوگ جھوٹی تعریف کے متلاشی ہوتے ہیں اور وہ تعریف چاہتے ہیں جس کے وہ حقدار نہیں، وہ سخت عذاب کے مستحق ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں اپنی تعریف کی خواہش کو اپنے حقیقی اعمال اور خوبیوں پر مبنی رکھنا چاہیے۔
  4. عدالتِ الٰہی: اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اللہ کی عدالت میں جھوٹے دعوے، غلط اعمال، اور فریب سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ اللہ کے عذاب سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے اعمال کو درست کریں اور جھوٹ و فریب سے دور رہیں۔
  5. اخلاقی زندگی کی تلقین: مجموعی طور پر، یہ آیت ایک اخلاقی زندگی گزارنے کی تلقین کرتی ہے، جہاں انسان اپنے اعمال کے بارے میں جوابدہ ہو اور کسی بھی جھوٹے عمل یا فریب میں مبتلا نہ ہو۔

نتیجہ:

اس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ صدق، دیانتداری، اور خلوص انسان کی بنیادی خصوصیات ہونی چاہئیں۔ جھوٹی تعریف، ریاکاری، اور فریب سے بچنا ضروری ہے تاکہ انسان اللہ کے عذاب سے محفوظ رہے اور ایک سچا اور مخلص مسلمان بن سکے۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر راہنما، سورہ آل عمران

تبصرہ ارسال

You are replying to: .