بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
وَمَنْ يَكْسِبْ إِثْمًا فَإِنَّمَا يَكْسِبُهُ عَلَىٰ نَفْسِهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا. النِّسَآء(۱۱۱)
ترجمہ: اور جو قصدا گناہ کرتا ہے وہ اپنے ہی خلاف کرتا ہے اور خدا سب کا جاننے والا ہے اور صاحبِ حکمت بھی ہے۔
موضوع:
اس آیت کا مرکزی موضوع گناہ کے نتائج اور انسان کی اپنے اعمال کی ذمہ داری ہے۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ گناہ کا اثر صرف گناہ کرنے والے پر پڑتا ہے، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھنے والا اور حکمت والا ہے۔
پس منظر:
سورہ النساء مدنی سورہ ہے اور اس میں معاشرتی، خاندانی اور قانونی مسائل پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ آیت ان لوگوں کو تنبیہ کرتی ہے جو جان بوجھ کر گناہ کرتے ہیں اور اس کے نتائج سے غافل رہتے ہیں۔
تفسیر:
1.گناہ کا بار: آیت میں بتایا گیا ہے کہ گناہ کا بوجھ صرف گناہ کرنے والے پر ہوتا ہے۔ یہ ایک اصولی بات ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔
2.اللہ کی صفات: اللہ تعالیٰ کو "علیم" (سب کا جاننے والا) اور "حکیم" (صاحبِ حکمت) بتایا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے اور اس کے فیصلے میں حکمت ہوتی ہے۔
3.انسان کی ذمہ داری: آیت انسان کو اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ وہ اپنے اعمال کے نتائج سے بچ نہیں سکتا۔ گناہ کرنے والا اپنے آپ کو نقصان پہنچاتا ہے۔
اہم نکات:
1. گناہ کا اثر صرف گناہ کرنے والے پر ہوتا ہے۔
2. اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور اس کے فیصلے میں حکمت ہوتی ہے۔
3. انسان کو اپنے اعمال کی ذمہ داری خود اٹھانی ہوگی۔
4. گناہ سے بچنا چاہیے کیونکہ اس کا نقصان اپنے آپ کو ہوتا ہے۔
نتیجہ:
یہ آیت انسان کو گناہ سے بچنے کی تلقین کرتی ہے اور اس بات کی یاد دہانی کراتی ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کا علم رکھتا ہے اور اس کے فیصلے میں حکمت ہوتی ہے، اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے اعمال پر غور کرے اور گناہ سے بچے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء
آپ کا تبصرہ