بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا. النِّسَآء(۱۱۵)
ترجمہ: اور جو شخص بھی ہدایت کے واضح ہوجانے کے بعد رسول سے اختلاف کرے گا اور مومنین کے راستہ کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کرے گا اسے ہم ادھر ہی پھیر دیں گے جدھر وہ پھر گیا ہے اور جہّنم میں جھونک دیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے.
موضوع:
اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت، مومنین کے راستے سے انحراف اور اس کے انجام پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
پس منظر:
یہ آیت سورہ نساء کی ہے، جو مدنی دور میں نازل ہوئی۔ اس میں اسلامی معاشرت، احکام، اور منافقین کے کردار پر بات کی گئی ہے۔ آیت 115 میں خاص طور پر ان لوگوں کا ذکر ہے جو حق واضح ہونے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت کرتے ہیں اور مومنین کے راستے کے بجائے کوئی اور راستہ اختیار کرتے ہیں۔
تفسیر:
حق اور ہدایت کے واضح ہو جانے کے بعد صرف عناد اور عصبیت کی بنا پر رسول اللہ (ص) کے حکم کی مخالفت کرنا اور رسول (ص) کی اطاعت میں اہل ایمان نے جو روش اختیار کی ہے، اس سے ہٹ کر اپنی خواہش کے مطابق کوئی اور سبیل تلاش کرنا کفر و ضلالت کی نشانی ہے۔ یہاں دو مسائل قابل توجہ ہیں:
i. [وَ یَتَّبِعۡ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ:] یعنی مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلے۔ اس جملے میں بعض مفسرین نے اجماع کے حجت ہونے پر استدلال کیا ہے کہ جب کسی مسئلے میں مومنین نے اجماعاً ایک راستے کا انتخاب کر لیا تو دوسروں پر اس اجماع کی پیروی کرنا واجب ہے۔
حقیقت امر یہ ہے کہ آیت کا کسی اجماع سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہاں رسول (ص) کی اطاعت اور عدم مخالفت کا ذکر ہے۔ مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ رسول اکرم (ص) کی عدم مخالفت اور اتباع میں مومنین نے جو روش بنائی ہے، اس سے ہٹ کر کوئی اور روش اختیار کرنے والا جہنمی ہے۔ جب کہ اجماع خود مومنین کی اپنی روش سے متعلق ہے۔
ii. [نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی:] جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے۔ اس جملے سے [خیرہ و شرہ من اللہ] کے نظریۂ جبر کا باطل ہونا نہایت واضح ہو جاتا ہے۔ انسان اپنے اعمال میں خود مختار ہے اور کسی قسم کا جبر اس پر حاکم نہیں ہے۔ اشاعرہ کے نظریہ جبر کے باطل ہونے پر صاحب [تفسیر المنار] کا اس جملے پر تبصرہ قابل مطالعہ ہے۔
اہم نکات:
۱۔ جو رسولؐ کی مخالفت کرتا ہے، اللہ اس کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے: [نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی]۔۔۔۔
۲۔ جس کو اللہ اپنے حال پر چھوڑ دے، یہ اس کے لیے بڑی سزا ہے: [وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا]۔۔۔۔
نتیجہ:
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ نبی اکرم (ص) کی رہنمائی سے روگردانی اور مومنین کے راستے سے ہٹنے کا انجام ہلاکت ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو اسی راہ پر چھوڑ دیتا ہے جو اس نے خود اختیار کی، اور بالآخر وہ جہنم کا مستحق بن جاتا ہے۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعت اور مومنین کے راستے پر چلنا ہی نجات کا ذریعہ ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء
آپ کا تبصرہ