منگل 14 جنوری 2025 - 05:30
عطر قرآن | جرم کا ارتکاب اور خیانت کاروں کی وکالت

حوزہ/ یہ آیت مسلمانوں کو نصیحت کرتی ہے کہ وہ انصاف پر قائم رہیں اور کسی بھی خیانت کرنے والے کی حمایت نہ کریں۔ یہ اصول اسلامی معاشرت میں عدل اور دیانت داری کی بنیاد رکھتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

بسم الله الرحـــمن الرحــــیم

وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِينَ يَخْتَانُونَ أَنْفُسَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا أَثِيمًا. النِّسَآء(۱۰۷)

ترجمہ: اور خبردار جو لوگ خود اپنے نفس سے خیانت کرتے ہیں ان کی طرف سے دفاع نہ کیجئے گا کہ خدا خیانت کار مجرموں کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے۔

موضوع:

اس آیت میں خیانت کرنے والوں کے دفاع سے منع اور خدا کی ناپسندیدگی کی وضاحت۔

پس منظر:

یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب کچھ افراد نے اپنے گناہوں کو چھپانے کے لیے جھوٹ اور خیانت کا سہارا لیا۔ ان کی کوشش تھی کہ رسول اللہ ﷺ سے اپنی حمایت حاصل کر سکیں، لیکن خدا نے وحی کے ذریعے اس عمل کی مذمت کی۔

تفسیر:

یہاں خطاب آنحضرت (ص) سے ہے اور ان لوگوں کوتنبیہ کرنا مقصود ہے جو اس جرم کا ارتکاب کرتے اور خیانت کاروں کی وکالت کرتے ہیں۔

[یَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ:] خیانت اگرچہ دوسروں کے حق میں کی ہے، پھر فی المواقع اس خیانت کا اثر اس کی ذات پر مترتب ہوتا ہے، اس لیے اس کو اپنی ذات سے خیانت کہا ہے۔

اہم نکات:

۱۔ یہ آیت سو فیصد ان پیشہ ور وکلاء کی ہدایت کے لیے ہے جو مجرموں اور خیانت کاروں کی طرف سے چند روپیوں کے عوض مقدمہ لڑتے ہیں۔

نتیجہ:

یہ آیت مسلمانوں کو نصیحت کرتی ہے کہ وہ انصاف پر قائم رہیں اور کسی بھی خیانت کرنے والے کی حمایت نہ کریں۔ یہ اصول اسلامی معاشرت میں عدل اور دیانت داری کی بنیاد رکھتا ہے۔

•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•

تفسیر سورہ النساء

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha