بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا. النِّسَآء(۹۸)
ترجمہ: علاوہ ان کمزور مردوں, عورتوں اور بچوں کے جن کے اختیار میں کوئی تدبیر نہ تھی اور وہ کوئی راستہ نہ نکال سکتے تھے۔
موضوع:
مظلوموں کی معذوری، خدا کی رحمت اور رعایت
پس منظر:
یہ آیت جو ان کمزور افراد کے بارے میں گفتگو کرتی ہے جو ظلم و ستم کے ماحول میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے پاس نہ ہجرت کی طاقت ہے اور نہ ہی وہ راستہ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ یہ آیت ان افراد کے لیے تسلی اور خدا کی طرف سے انکی خاص بخشش ہے۔
تفسیر:
1. کمزور طبقہ کی معذوری: اس آیت میں "مستضعفین" کا ذکر ان افراد کے لیے ہے جنہیں ظلم و جبر کے ماحول میں دبایا گیا، اور ان کے پاس نہ جسمانی طاقت ہے اور نہ وسائل کہ وہ اپنی حالت بدل سکیں۔
2. معافی اور عذر: اللہ ان کمزور افراد کو ہجرت نہ کرنے پر معاف فرماتا ہے کیونکہ ان کی نیت میں کوئی کمی نہیں ہوتی، بلکہ ان کی مجبوری ان کی معذوری کا ثبوت ہے۔
3. اللہ کی رحمت: خدا کی طرف سے ان افراد کے لیے خاص رعایت ہے، جو اپنے حالات بدلنے سے قاصر ہیں۔ یہ ان کے لیے امید اور سکون کا پیغام ہے۔
اہم نکات:
1. مستضعفین کی تعریف: وہ افراد جن کے پاس نہ تدبیر کی طاقت ہو، نہ وسائل ہوں، اور نہ رہنمائی۔
2. خدا کی عدالت: اللہ تعالیٰ ہر انسان کے حالات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔
3. ہجرت کی اہمیت: آیت کے سیاق و سباق میں ہجرت ایک اہم عمل ہے، لیکن مجبور افراد کے لیے نرمی اور رعایت کا پہلو رکھا گیا ہے۔
4. ظلم کے خلاف جدوجہد: یہ آیت مظلومین کے لیے جدوجہد کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے، لیکن ان کے ساتھ ہمدردی اور رعایت کا پہلو بھی شامل ہے۔
نتیجہ:
یہ آیت اسلام کے عادلانہ نظام کی عکاسی کرتی ہے جو مظلومین اور کمزوروں کے لیے خاص شفقت اور رعایت پر مبنی ہے۔ یہ مظلوم طبقے کے لیے خدا کی رحمت کا پیغام اور ظالموں کے لیے تنبیہ ہے کہ ان کے اعمال کی جوابدہی ہوگی۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء
آپ کا تبصرہ