بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَنْ يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً ۚ وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَنْ يَصَّدَّقُوا ۚ فَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ ۖ وَإِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُمْ مِيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ ۖ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِنَ اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا. النِّسَآء(۹۲)
ترجمہ: اور کسی مومن کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی مومن کو قتل کردے مگر غلطی سے اور جو غلطی سے قتل کردے اسے چاہئے کہ ایک غلام آزاد کرے اور مقتول کے وارثوں کو دیت دے مگر یہ کہ وہ معاف کردیں پھر اگر مقتول ایسی قوم سے ہے جو تمہاری دشمن ہے اور(اتفاق سے) خود مومن ہے تو صرف غلام آزاد کرنا ہوگا اور اگر ایسی قوم کا فرد ہے جس کا تم سے معاہدہ ہے تو اس کے اہل کو دیت دینا پڑے گی اور ایک مومن غلام آزاد کرنا ہوگا اور غلام نہ ملے تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنا ہوں گے یہی اللہ کی طرف سے توبہ کا راستہ ہے اور اللہ سب کی نیتوں سے باخبر ہے اور اپنے احکام میں صاحب هحکمت بھی ہے۔
موضوع:
مومن کے قتل کی ممانعت اور کفارہ کے احکام
پس منظر:
یہ آیت سورۂ نساء کی ہے جو اسلامی معاشرت اور عدالتی نظام کے اہم اصولوں پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس آیت میں قتلِ خطا اور قتلِ عمد کے مابین فرق کو واضح کیا گیا ہے اور اس کے احکام اور کفارے کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ آیت خاص طور پر مومنین کے باہمی تعلقات، انسانی جان کی حرمت، اور کفارہ کے نظام کی وضاحت کرتی ہے۔
تفسیر:
[وَ مَا کَانَ لِمُؤۡمِنٍ:] مومن جب ایمان کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے تو اپنے برادر مؤمن کا قتل جائز نہیں ہے۔ البتہ یہ قتل اگر غیر ارادی طور پر غلطی سے سرزد ہوا ہو تو اس کا حکم درج ذیل صورتوں میں ہو گا:
i۔ [وَ مَنۡ قَتَلَ مُؤۡمِنًا خَطَـًٔا:] اگر یہ قتل غیرارادی طور پر غلطی سے ہوا ہے تو ایک مومن کو غلامی سے آزاد کرنا ہو گا اور دیت یعنی خونبہا ادا کرنا ہو گا۔ ہاں اگر وارث معاف کر دے تو دیت دینا واجب نہیں ہے۔
ii۔ [فَاِنۡ کَانَ مِنۡ قَوۡمٍ عَدُوٍّ لَّکُمۡ:] اگر یہ مقتول کسی دشمن اسلام یعنی کافر قوم کا ایک مومن فرد تھا تو مومن غلام آزاد کرنا واجب ہے، مگر دیت دینا واجب نہیں ہے۔ کیونکہ دیت یعنی خونبہا وارث کو دینا ہوتا ہے، یہاں وارث کافر ہے اور کافر مومن کا وارث نہیں بن سکتا۔
iii۔ [وَ اِنۡ کَانَ مِنۡ قَوۡمٍۭ بَیۡنَکُمۡ وَ بَیۡنَہُمۡ مِّیۡثَاقٌ فَدِیَۃٌ:] اگر مقتول اس قوم کا فرد ہو جس کے ساتھ مسلمانوں کا معاہدہ ہے تو اس صورت میں غلام آزاد کرنا ہو گا اور ساتھ خون بہا بھی دینا ہو گا۔ واضح رہے کہ یہاں خونبہا کی مقدار وہی ہو گی جو معاہدے میں طے ہے۔
iv۔ جو غلام آزاد کرنے پر قادر نہ ہو، وہ دو ماہ بلا فاصلہ روزے رکھے۔
خلاصہ یہ ہے کہ قتل کی تین قسمیں بنتی ہیں:
i۔ قتل عمد: جان بوجھ کر مومن کی جان لینا۔ اس کی سزا آخرت میں جہنم اور دنیا میں قصاص یا دیت ہے۔
ii۔ شبہ عمد: ضرب تومثلاً جان بوجھ کر لگائی، مگر قتل کرنے کا ارادہ نہیں تھا اور وہ اسی ضرب سے اتفاقاً مر گیا۔ اس کی سزا دیت ہے اور قصاص نہیں ہے اور دیت بھی خود قاتل ادا کرے گا۔
iii۔ قتل خطاء: قتل کا ارادہ قطعاً نہیں تھا، اچانک زد میں آ گیا اور قتل ہو گیا۔ اس کی سزا بھی دیت ہے، مگر یہ دیت قاتل کے باپ کے قرابتداروں کے ذمے آئے گی کہ وہ ادا کریں۔
اہم نکات:
1. انسانی جان کی حرمت کو بنیادی اصول کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
2. قتلِ خطا اور قتلِ عمد کے درمیان فرق واضح کیا گیا۔
3. کفارہ کا نظام انفرادی ذمہ داری کو اجاگر کرتا ہے۔
4. دیت کے ذریعے مقتول کے اہل کو مالی معاونت فراہم کی گئی۔
5. اللہ تعالیٰ نے توبہ کا راستہ کھلا رکھا ہے تاکہ انسان اپنی غلطیوں کو درست کرسکے۔
نتیجہ:
اسلام انسانی جان کی قدر و قیمت کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور معاشرتی عدل و انصاف کے قیام کے لئے واضح ہدایات فراہم کرتا ہے۔ قتلِ خطا کی صورت میں کفارہ کا حکم افراد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے ساتھ ساتھ معاشرتی امن کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء
آپ کا تبصرہ