تحریر: مولانا سید عباس مھدی حسنی،قم المقدسہ - ایران
آقا جان! آج آپ سے مجھے عہد کرنا ہے،البتہ اپنی تمام تر بے بضاعتی اور کم ظرفی و نالائقی کا اعتراف ہے مجھے،میں کون ہوں کیا ہوں اور میری حقیقت کیا ہے آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
مولا میری گردن پر بہت سے حقوق و فرائض ہیں- کاہلی اور غفلت کے سبب مجھ سے ستون دین اور افضل عبادت یعنی نماز تک قضا ہو جاتی ہیں۔میں صحت و تندرستی سے بہرہ مند ہونے کے باوجود بڑی آسانی سے روزہ ترک کردیتا ہوں- ماہ مبارک کے علاؤہ مجھے قرآن کھولنے کی کبھی توفیق نہیں ہوتی- میں نے استطاعت ہوتے ہوئے حج جیسے فریضہ سے روگردانی اختیارکی ہوئی ہے- مالی حقوق بھی ادا کرنے سے جان چھڑاتا ہوں نہ خمس دیا اور نہ کھیت کے غلوں سے کبھی زکوٰۃ نکالی۔
حقوق العباد اور صلہ رحمی جیسے فرائض کے بارے میں بھی میں نے اپنا شانہ خالی کر رکھا ہے- میں نے الہی نعمتوں کے سلسلہ میں معصیت کرکے انکا کفران نعمت کیا رب کریم کی عظیم نعمتوں یعنی اعضاء و جوارح کا میں نے غلط استعمال کیا زبان سے غیبت و تہمت؛بد کلامی و بد زبانی میری فطرت ثانیہ بن ہو چکی ہے-کینہ و حسد اور بغض و عناد جیسے اخلاقی امراض نے میرے چشم و قلب پر پردے ڈال دئے ہیں جس کے سبب حق و باطل کی تشخیص میرے لئے بہت مشکل ہوگئی ہے- مجھے اتحاد سے زیادہ تفرقے اور محبت سے زیادہ نفرت میں مزہ آنے لگا ہے-مجھے اپنے دکھ اور غم سے زیادہ دوسروں کی خوشحالی سے دکھ ہوتا ہے-ترقی سے زیادہ دوسروں کی تنزلی میں خوشی محسوس ہوتی ہے- اطاعت کے بجاے معصیت میں لذت ملتی ہے- میں کیا کروں؟ أپ ہی میرے ان روحی امراض کے طبیب و معالج ہیں۔
مجھے آج آپ سے عہد کرنا ہے
میری عمر شیطان کی چراگاہ بن چکی ہے-نہ چاہتے ہوئے بھی گناہ کے دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہوں-
آپ میرے مہربان امام اور مونس و ہمدم ہیں- آپ تو مجھ پر میرے ماں اور باپ سے زیادہ دلسوز اور محبت و شفقت کرنے والے ہیں-
آج سے بہتر کون سا دن ہو سکتا ہے جب میں اللہ کی عطا کردہ عنایت اور توفیق کے باعث آپکی ذات کو وسیلہ بنا رہا ہوں- مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے اپنے عہد و پیمان کو پورا کرنے میں میری مدد ضرور فرمائیں گے-
آج میں آپ سے یہ عہد کرتا ہوں کہ میں حق اللہ اور حق الناس کی پاسداری کرونگا-میں ویسا ہی بننے کی کوشش کرونگا جیسا آپ چاہتے ہیں-
اے وقت کے امام میں آپ سے پوری امید لگائے ہوں چونکہ آپ ہی میری آخری امید ہیں-
میں اگر آپ کے دیدار سے محروم ہیں تو اس میں میرا ہی قصور ہے-آپ کے ظہور کی تاخیر میرے ہی اعمال کے سبب ہے-
یقیناً میں اپنے عہد کو پورا نہ کرسکا ورنہ آپکا دیدار ضرور میسر ہوتا خود آپ کے ارشاد کے مطابق:
اگر ہمارے شیعہ - خدا انہیں اپنی اطاعت کی توفیق عطا کرے- اپنے عہد و پیمان کو پورا کرنے پر یکدل اور یکجا ہوجاتے تو ہماری ملاقات کی نعمت میں تاخیر نہ ہوتی اور انہیں ہمارے دیدار کی سعادت بہت جلد نصیب ہوتی جو کہ ہماری صحیح معرفت اور صداقت کی بنیاد پر ہے۔
ہمیں کوئی چیز ان سے دور نہیں رکھتی سوائے انکے برے اعمال اور ناپسند کردار جو ہم تک پہونچتے ہیں۔
جو نہ ہم پسند کرتے ہیں،اور نہ ہی ان سے اس قسم کے اعمال کی توقع رکھتے ہیں۔
(الإحتجاج على أهل اللجاج للطبرسي صج2، ص499)
اے آقا! مجھے آپ کی دعاؤں اور خاص توجہات کی ضرورت ہے-
مولاجان میں وعدہ کرتا ہوں کہ ویسا ہی بننے کی کوشش کروں گا؛ جیسا آپ چاہتے ہیں-
میں وعدہ کرتا ہوں کہ معرفت' صداقت 'بصیرت اور اخلاص کے ساتھ اپنے فردی اور معاشرتی فرائض انجام دوں گا- پرچم حق کی سربلندی اور باطل کی نابودی کے لئے جام شہادت نوش کرنے تک شب و روز سعی پیہم کرتا رہوں گا-
مولا آپ سے میرا یہ عہد ہے۔
ملتمس دعا:
سید عباس مھدی حسنی
قم المقدسہ -ایران