حوزہ نیوز ایجنسی |
امریکی خلائی تحقیقی ادارہ ناسا کی لیبارٹری میں ایک انتہائی زھین سائنسدان کام کررہا ہے۔
اپنے اسکول کی تمام کلاسوں سے لیکر گریجویشن تک ہمیشہ ٹاپ پوزیشن حاصل کی ہے ، اسی لیے اسے حکومت نے اعلیٰ تعلیم کیلئے اسکالرشپ پر امریکہ بھیج دیا تھا۔
جہاں سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی جدید پلازما فزکس میں ڈاکٹریٹ کیا۔ ان کی قابلیت، ذہانت اور تعلیمی ریکارڈ دیکھتے ہوئے ناسا نے بحیثیت ریسرچ سائینٹسٹ اسے اپنے ادارے میں شامل کرلیا جہاں کام کرنے کیلئے ان گنت لوگ آرزو کرتے ہیں۔ یہ شخص بہت اچھی تنخواہ کے ہوتے ہوئے بھی امریکہ میں انتہائی سادہ زندگی گزار رہا ہے۔ نمازوں اور عبادتوں سے کبھی غافل نہیں رہتا۔
مگر ایک دن اس نے امریکہ کو ہمیشہ کیلئے خیرباد کہنے کا فیصلہ کردیا۔ اس کے ساتھ کے سارے لوگ حیران رہ گئے، لوگ اس پوزیشن کو حاصل کرنے میں اپنی زندگی بتا دیتے ہیں اور یہ اس کو چھوڑ کر جارہا ہے۔امریکہ میں ہی اس کا ایک دوست ان سے پوچھتا ہے کہ:
آپ کیوں امریکہ کو چھوڑکر جارہے ہیں، تو یہ سائنسدان جواب دیتا ہے۔
‘میری یہاں بڑی اور زیادہ تنخواہیں لینے اور آرام دہ زندگی بسر کرنے کا کیا فائدہ ہے جبکہ دنیا میں بے انصافی اور ظلم پایا جاتا ہو’‘میری یہاں بڑی اور زیادہ تنخواہیں لینے اور آرام دہ زندگی بسر کرنے کا کیا فائدہ ہے جبکہ دنیا میں بے انصافی اور ظلم پایا جاتا ہو’
اس سائنسدان کا نام ہے، ڈاکٹر مصطفیٰ چمران۔
اُس دوست کا کہنا تھا کے ‘ڈاکٹر چمران کے اس جواب نے مجھے حیران کردیا کیونکہ ڈاکٹر چمران چاہتا تو امریکہ میں بہت ٹھاٹھ باٹھ کی زندگی گزار سکتا تھا حتٰی اپنا ذاتی ایئر کرافٹ اور ذاتی کروز جہاز بھی رکھ سکتا تھا اور امریکہ کے بہترین علاقے میں زندگی گزار سکتا تھا مگر وہ ان سب کو اپنے پاؤں تلے روند کر جارہا تھا۔
جی ہاں، دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیز کے لیکچرز، مشہور ملٹی نیشنل کمپنیز کی ہوش ربا تنخواہوں، ناسا کی ملازمت، اور امریکہ کی سرزمین کو ٹھکرا کر، لبنان کے محروم و مستضعف، یتیم و مظلوم بے آسرا بچوں ، افلاس، پسماندگی اور خانہ جنگی کے شکار جوان لڑکوں اور لڑکیوں کی خاطر ایک پسماندہ اور جنگ زدہ علاقے میں جانے والے کو ڈاکٹر چمران کہتے ہیں۔ شاید اس قربانی اور جدو جہد کے پیچھے شہید ڈاکٹر چمران کی وہ عارفانہ نظریں تھیں جن میں انھیں ‘حزب اللہ’ جیسا مستقبل کا چمکتا دمکتا سورج نظر آرہا تھا۔
۱۹۶۳ میں امریکہ سے مصر چلے گئے اور وہاں گوریلا ٹریننگ حاصل کی۔ ۱۹۶۵ میں واپس امریکہ آئے۔
۱۹۶۹ میں امریکہ کو ہمیشہ کے لیئے خیرباد کہہ کر لبنان آگئے۔ اور امام موسٰی الصدرؒ کی ‘تحریکِ امل’ جوائن کی۔ وہاں اسلامی انقلابی تحریک کا آغاز کیا۔ جب انقلاب کامیاب ہوا تو شہید چمران، تنظیمِ امل اور لبنان کے دیگر شیعہ اکابرین کے ہمراہ امام خمینیؒ کی خدمت میں مبارکبادی دینے آئے، امام خمینیؒ نے لبنان کے وفد سے فرمایا:
‘آپ لوگ جو نہایت قیمتی تحفہ ہمارے لیئے اور انقلاب کے لیئے لیکر آئے ہیں وہ ڈاکٹر چمران ہے’‘آپ لوگ جو نہایت قیمتی تحفہ ہمارے لیئے اور انقلاب کے لیئے لیکر آئے ہیں وہ ڈاکٹر چمران ہے’
پھر امام خمینیؒ نے اس تحفے یعنی شہید چمران کو لبنان واپس جانے نہ دیا اور شہید چمران ایران عراق جنگ میں امام خمینیؒ کے حکم پر وزیرِ دفاع بنائے گئے۔ مگر وزیرِ دفاع بننے کے باوجود ہمیشہ اگلے مورچوں پر رہتے اور جب تک خود جاکر میدانِ جنگ کا معائنہ نہ کرلیتے اپنی سپاہ کو نہیں بھیجتے تھے۔
مصطفی چمران محازِ جنگ پر کہتے ہیں، "اگر میرے اعضاء بکھر جائیں، میری ہستی آگ میں جل جائے اور میری راکھ ہوا میں اڑ جائے تب بھی میں صبر کروں گا اور اپنے خدا کی عاشقانہ عبادت کروں گا۔ کاش میں شمع ہوتا تاکہ سر سے پیر تک جل جاتا اور تاریکی کو اپنے اطراف سے چھٹا دیتا۔ میں کفر و الحاد کو اجازت نہیں دوں گا کہ ہمارے اوپر مسلط ہو۔"
۱۹ جون ۱۹۸۱ کی ایک عجیب رات ہے۔ اس شب ڈاکٹر چمران کی آنکھوں میں عجیب چمک ہے۔ اپنی اہلیہ کے پاس آتے ہیں اور آھستہ سے کہتے ہیں:
میں کل ظہر کے وقت شہید ہوجاؤں گا۔
صبح گاڑی چل پڑی اور شہید چمران ایک کاغذ پر یہ الفاظ لکھتے ہوئے جارہے تھے۔
‘خدایا! تو نے مجے تاریخ کے عام مظلوموں اور محروموں کے دکھ درد سے آشنا کیا۔ خدایا! تو نے مجھے ہر چیز عطا کی اور میں ان سب پر تیرا شکر ادا کرتا ہوں، خدایا! تو نے مجھے عمیق فکر و علم کے بلند مرتبوں سے بہرہ مند کیا۔ خدایا! میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے بے نیاز کیا تاکہ کسی شخص اور کسی چیز سے توقع نہ رکھوں۔
اے زندگی! میں تجھے الوداع کہتا ہوں۔ اے میرے پیروں! میں جانتا ہوں تم پھرتیلے اور فداکار ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ زندگی کی ان آخری لمحات میں میری عزت و آبرو بچاؤ۔ اے میرے پیروں! چست اور توانا رہو، اے میرے ہاتھوں! مضبوط بنو۔ اے میری آنکھوں! تیز بین اور ہوشیار بنو۔ اے میرے دل! ان آخری لمحات کو برداشت کر۔ میں تم سب سے وعدہ کرتا ہوں کے چند لمحوں کے بعد تم سب ہمیشہ کے لیئے آرام و سکون پا جاؤ گے۔ میں اب تمھیں نہیں تھکاؤ نگا۔ اب تمھیں رات بھر نہیں جگاؤنگا۔ اور اب تم تھکاوٹ کی وجہ سے فریاد نہیں کروگے
اور شہید چمران اسی دن فکہ کے محاز پر ٹھیک ظہر کے وقت مارٹر گولہ لگنے سے شہید ہوجاتے ہیں۔
اس عارف و مجاھد شخص نے اپنی شہادت کا دن اور وقت بھی ٹھیک ٹھیک بتا دیا تھا اور جاتے ہوئے کاغز پر لکھ دیا تھا کہ یہ میری زندگی کے آخری لمحات ہیں۔
ماخوذ از سفر عشق۔
حسن عباس و دیگر
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔