۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
مولانا نصرت جعفری

حوزہ/قرآن سے انس، اہل بیت علیھم السلام کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا؛  خلق خدا سے محبت و ہمدردی، بندگان خدا پر رحم وکرم ساری بیماری سے نجات کا بہترین علاج ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی| مسلمانوں، خواہ وہ کسی بھی فرقہ و مسلک کا ہو ان کا اتحاد واتفاق ہر زمانے میں اس بات پر رہا ہے کہ: ہم کبھی ایک فکر، ہم رنگ، ہم عقیدہ  و ہمدرد، ہم سلیقہ، ہم قران و اسلام نہیں ہو سکتے ہیں؛ 

ہم کبھی ایک فکر، ہم رنگ، ہم عقیدہ  و ہمدرد، ہم سلیقہ، ہم قران و اسلام نہیں ہو سکتے ہیں؛ ہم ایک دوسرے کو خراب تو کرینگے پر ایک دو سرے کو سنواریں گے نہیں، صاحب حق کہلوائیں گے پر کسی کو  بھی صاحب حق نہیں مانیں گے بلکہ سبھی کو خود کے مقابل باطل و منحرف جانے گیں؛ کیوں اس لئے کہ کہیں حقیقت حال سے لوگ آگاہ نہ ہونے پائیں- 

آئیے باطل طاقت کو دیکھتے ہیں وہ باطل پر رہ کر بھی ایک نقطہ پر اجتماع کرتے نظر آتے ہیں  کہ وہ اسلام مسلمین کے مقابلے میں ایک نظر، ایک فکر، اور ہم رنگ نظر آتے ہیں،  وہ لوگ اس تلاش میں رہتے ہیں کہ مسلمانوں سے منفعت کو کیسے حاصل کیا جائے!  ان پر اپنا رعب ودبدبہ دکھا کر حکومت کیسے کی جائے! ان کو آپس میں لڑا کر کمزور کیسے بنایا جائے!  ان کو عیش و عشرت میں ڈال کر اپنا محتاج کیسے بنائے رکھا جائے! تاکہ یہ لوگ کچھ نہ کرکے ہمارے محتاج بنے رہیں اور ہم لوگ سوپر پاور بن کر اسلام و مسلمین کی بے بہا دولت علم اور قیمتی سرمایہ سے فائدہ اٹھاتے رہیں -

آج کے دور میں بیماری کی یلغار ہے اور لوگ اس سے نجات کا راستہ تلاش کرنے میں لگے ہوئے ہیں پھر بھی راہ نجات نہیں مل پارہا ہے ، اس کی وجہ مخلصین مسلمان سائنسدانوں کی بے احترامی اور ان کا استحصال ہے ۔تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے ۔مسلمانوں نے اپنے سائنسدانوں کے ساتھ کیا سلوک کیا! انکی لکھی تحقیق کو جلا ڈالا، ان کو قتل کردیا، ان کو رسوا کیا، قید میں ڈال دیا ۔ ان میں سے کچھ نام ذکر کر رہا ہوں 1 دنیا کا  سب سے بڑا  عالم لدنی کا مالک، علم الہی کا حقدار؛ خزانہ علم و فنون امام جعفر صادق علیہ السلام شہید کردیئے گئے پھر لوگ زمانے کے اعتبار سے پیدا ہوئے ترقی کرنے سے پہلے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے اور ان کی تحقیق کو ضائع وبرباد کردیا گیا  جن کا نام یہاں شایان ذکر ہے ( طفیل ابن کندی، ابن رشد، ابن خلدون، الزواری، خوارزمی، جابر ابن ابو حیان، یعقوب الکندی )، دنیا میں سائنس داں کی تعداد اگر چودہ ہو تو ان میں سے  دس مسلمان ضرور دکھیں گے،  مگر افسوس اپنوں سے ہے کہ مسلمانوں کے حکمرانوں نے شخص کو قتل نہیں کیا بلکہ علم اور علمیت کا خون کردیا؛ اس کی وجہ مسلمانوں کا فکری انجماد ہے اور بس،  انہوں نے اسلام کو conwoging thinking کا فارمولہ دیا جبکہ اسلام ، اور حقیقی وارث ، اللہ کے نمائندے نے لوگوں کو Diewoging thinking کا فارمولہ دیا لیکن اس کی قدر نہیں کی گئی، 
جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے بہترین پیشوا اور محقق کو رسوا کیا جانے لگا اور شھید کر دیئے گئے ۔ الرازی نے چیچک اور خسرہ کے فرق کو بتایا، اس کا علاج تلاش کیا، لیکن مسلمانوں کی پسماندگی و بد نصیبی دیکھیں ان کو ذلیل ورسوا کرکے نابینا بنا دیا اور ان کی تحقیق کو ضائع و برباد کر دیا؛ 
مسلمانوں کی باقی ماندہ تحقیق دوسری قوموں کی میراث بن کر رہ گئی، اور بے چارہ مسلمان اپنے گھر کے چراغ سے اپنا گھر جلانے میں ہی رہ گیا، وہیں دوسری قوموں نے بجھتے ہوئے چراغ کو حاصل کر نہ جانے اس سے کتنے چراغ روشن کر ڈالے؛ لہذا آج اور کل کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑ رہا ہے کہ معیشت ان کے پاس، ٹکنالوجی ان کے پاس سیاست ودرایت اور دشمن شناسی کا شعور ان کے پاس، اکونامکس،اسلحہ، علمی پیش رفت، اور سائنس کی علمی ترقی سب ان کے پاس ہے؛  اس کی وجہ مخلصین مسلمانوں کا میدان علم و عمل میں بہت  کم ہونا اور پھر ان کی ناقدری  پسماندگی کا بہت بڑا سبب ہے۔

آخر مسلمان ہر میدان میں کمزور وناتواں کیوں نظر آتا ہے! یہ جاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتے ۔ اللہ تعالی ہم سے کیا چاہتا ہے! اور ہم کر کیا رہے ہیں!

کیا ہم اپنی زندگی کا مقصد پارہے ہیں! یا بےہودہ زندگی گزارنے میں لگے ہوئے ہیں !! کیا ہم اپنی زندگی کا مقصد پارہے ہیں! یا بےہودہ زندگی گزارنے میں لگے ہوئے ہیں!!
قرآن ونہج البلاغہ میں ہماری زندگی کا مقصد، ترقی کے اسباب  اور بہت ساری بلندیاں پنہاں ہے  ۔ ہم اس کو تلاش کیوں نہیں کرتے!  اللہ نے ہر بیماری سے پہلے اس کا علاج پیدا کردیا ہے پھر ہم ڈھونڈ نے کی کوشش کیوں نہیں کرتے!!اور اس  کامداوا نہیں کر پاتے؛  وجہ صرف یہی ہوسکتی ہے کہ ہم یاد خدا سے غافل ہوگئےہیں؛ اس کے حکم کے خلاف چل رہے ہیں؛ خواہشات میں گرفتار ہو کر رہ گئے، اس لئے آپسی اختلافات ہمارا مقدر بن گیا، اور ہم ایک دوسرے کی نسبت تنگ نظری کرنے میں لگ گئے دشمن نے ہم کو کمزور، اور ہماری ترقی میں سدباب بن بیٹھے ،حسد وکینہ سے ہم اس طرح مسمار  ہوگئے جیسے ہمارا کبھی وجود ہی نہ رہا ہو ، کوتاہ فکری سے ہم اپنی بینائی کھو بیٹھے، جہالت نے ہمیں تنگ نظر بنا کر روند دیا اور ایک دوسرے کے دشمن ہوگئے، نتیجہ یہ نکلا سائنس داں چاند پر جاکر ترقیات کی منزل کو طے کرنے میں لگی ہوئی ہے اور مسلمان چاند نکالنے اور نکلوانے میں ہی الجھے ہوئے ہیں ، ہمارا حال یہ ہوگیا ہے کہ مذہب کے نام پر، اسلام کے نام پر،  مدرسہ کے نام پر، مسجد و  مجلس کے نام پر، غریب وفقیر کے نام پر، فقط کچھ قوم کے نام نہاد مال و دولت جمع کرنے کا ہنر تو جانتے ہیں  ؛ پر اس کا صحیح استعمال نہیں جانتے ہیں ،
مسلمانوں کو ترقی کی راہ دکھانا،  اس مال سے صحیح ترقی پانا،  ان کو ٹکنالوجی کے ساتھ آگے بڑھانا،  اس سے ہم کوسوں دور نظر آتے ہیں، کیوں!!
اس لئے کہ؛ راز راز ہی رہے اور ملاوون کا پیٹ بھر تا رہے اگر ان کو بیدار کر دیا تو خرافات کی دوکان بند اور ہم پھر بےکار ہوکر رہ جائیں گے، اگر عوام نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو نتیجہ اس سے بھی برا آنے والا ہے، علماء حق کو تلاش کیوں نہیں کرتے جو واقعی وارث علم انبیاء کہے جانے کے لائق ہوں؛ جو جہالت کا خاتمہ کرکے دنیا کو نورانی کردے ۔ علم کو کسی لباس میں تلاش نہ کریں، جسم کے اتار چڑھاؤ میں نہ دیکھیں، اگر عالم کو پانا چاہتے ہیں تو اس کے علم کو عمل کے ساتھ دیکھیں اگر باعمل ہوگا تو قوم و ملت کا ہمدرد ضرور ہوگا ،خلق خدا کی خدمت میں افتخار کرے گا، آل محمد علیہم السلام کی سیرت پر قائم رہے گا؛ لیکن عالم بے عمل سود جو،  مطلب پرست، خودخواہ اور خواہش نفسانی میں گرفتار ہوتا نظر آئے گا :

عوام ان دونوں کے درمیان امتیاز قائم کرنے کی کوشش کرے پھر اچھوں کا انتخاب، اور ان کی پیروی کرے اگر ایسا کرلیا تو ہر بیماری کا علاج بہت آسانی سے مل سکتا ہے، ہاں ایسے لوگوں کی پہچان بہت مشکل، اور ان کی طرف رجوع کرنا ایک مشکل کام ہے  ، بہر کیف بیماری سے بچنے کے لیے، پاکیزگی، خدا کی یاد میں  تازہ دم رہنا، قرآن سے انس، اہل بیت علیھم السلام کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا؛  خلق خدا سے محبت و ہمدردی، بندگان خدا پر رحم وکرم ساری بیماری سے نجات کا بہترین علاج ہے اور یہ صدقہ و خیرات ہے جو جاری و ساری رہے گا ؛ آئیے ہم اس پر چل دکھائیں، پھر بیماری کو بھگانے کی ضرورت نہیں ہے، بیماری خود ہم سے دور ہوتی نظر آئے گی ،اللہ رب العزت بحق محمد وال محمد علیہم السلام آپ تمام مومنین سے بلا وآفات کو دور رکھے اور عالم باعمل کی پیروی کرنے کی توفیق عنایت فرمائے آمین

تحریر: حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید نصرت علی جعفری قم ایران  

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .