حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علامہ سید عدیل اختر قبلہ طاب ثراہ کی برسی (8 شوال) کی مناسبت سے مدیر الاسوۃ فاؤنڈیشن سیتاپور، مولانا سید حمید الحسن زیدی نے آپ کی شخصیت پر مکمل طور پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ۔
شخصیت نگاری یقیناً ایک فن ہے جس سے عہدہ برآ ہونا صاحبان علم و ادب کا ہی ہنر ہے شخصیت پر تبصرہ اس کے تمام اطراف و اکناف پر محیط ہونے کے بعد ہی ممکن ہوتاہے ذرو ں سے آفتاب کی توانائیوں پر گفتگو کی توقع کسی طور پر بھی صاحبان عقل و خرد کی دنیا میں قابل قبول نہیں ہے قطرہ سمندر کے بارے میں زبان نہیں کھول سکتا ہاں اس کی عظمتوں کو سلام ضرور کر سکتا ہےذرہ کا آفتاب کی عظمتوں اورقطرہ کا سمندر کی وسعتوں کو سلام کرناہی اس کی سعادت مندی بلکہ اس کے وجود کی سچائی اور بقا کی ضمانت ہوتا ہے ۔
مولانا سید حمید الحسن زیدی نے کہا کہ اسلامی دنیا میں پیغمبر اسلام ؐ ائمہ معصومین ؑ اور ان کے اصحاب و انصار کی عظمتیں تو عام انسانی طائر فکر سے بالا تر ہیں ہی لیکن تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا ہے کہ اگر کوئی شخص ان ذوات مقدسہ کی تعلیمات سے وابستہ ہو کر ان کے نقش قدم کا گرویدہ ہوگیا تو ا سکی بلندیاں بھی آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں جس کی بہترین مثال ہمارے علماء اور مراجع بزرگوار ہیں جنہوں نے دور غیبت میں شریعت اسلام کی حفاظت کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں ایران عراق کے علماء کی جو تاریخ رہی ہے اس سے کم وبیش ہماری قوم کا بچہ بچہ واقف ہے لیکن ہمارے ملک ہندوستان کا دامن بھی کم کچھ سعادتوں کا حامل نہیں رہا ہے ا سکے دامن میں بھی ایسے ایسےگرانبہا گوہرھای آبدار پائے گئے ہیں جنہوں نے اپنی چمک سے آفتاب و مہتاب کی روشنی کو چکا چوندھ کردیا ہے یہاں پر انہیں شخصیات میں سے گذشتہ صدی کی ایک اہم ترین شخصیت یعنی فیلسوف اسلام حجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب علامہ سید عدیل اختر صاحب قبلہ طاب ثراہ کی عظمتوں کو سلام عقیدت پیش کرنا مقصود ہے جن کی غم انگیز تاریخ وفات بھی غم آل محمد ؐ کی یاد گار بن گئی
۸؍شوال کی المناک تاریخ جہاں ایک طرف ائمہ اہل بیت ؑ اور ان سے وابستہ شخصیات کے مزارات مقدسہ کے منہدم ہونے کی تاریخ ہے جو عالم اسلام کے جگر کا ناسور ہے وہیں اس عظیم عالم ربانی کے دارفانی سے وداع کی المناک تاریخ بھی ہے یقیناً ایسے عالم ربانی کا سانحہ ارتحال اس حدیث معصوم ع کا مکمل مصداق ہے جس میں ارشاد ہے کہ جب عالم دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اسلام میں ایسا رخنہ پیدا ہوتا ہے جس کو کوئی چیز پر نہیں کر سکتی ۔
مدیر الاسوۃ فاؤنڈیشن نے کہا کہ علامہ روزگارحجۃ الاسلام والمسلمین عالیجناب مولانا عدیل اختر طاب ثراہ کی شخصیت کے بارے میں ان کے ہم عصر علماء و دانشوروں سے لیکر ان کے عظیم شاگردوں نے بہت کچھ لکھا ہے جنہوں نے براہ راست ان کی فیض رسانی دیکھی بلکہ اس سے فیضیاب ہوئے ہیں
مدرسۃ الواعظین لکھنو کے سب سے پہلے ممتاز ترین طالب علم اور پھر دنیا کے مختلف گوشہ وکنار میں ا پنے علم و عمل کے چشمہ ھای آبدار سے سیراب کرنے کےبعد اسی عظیم دینی درسگاہ کے مدیر کی حیثیت سے آپ نے ایسے شاگردوں کی تربیت فرمائی جن کے وجود میں آپ کے کمالات کا عکس نمایاں تھا شاگردوں کو دیکھ کر استاد کی عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہےکہ وہ حسن کردار کی کس بلندی پر فائز ہوگا جس نے ایسے عہد ساز شاگردوں کی تربیت فرمائی ۔
مدرسۃ الواعظین لکھنو اپنی عظمت،اہمیت،خدمت،جدت اوبہتر ین شاگردوں کے اعتبار سے جس منزل پر تھا اس کا اندازہ اسی ارادہ سے فارغ ہونے والے صاحبان صلاحیت شخصیات کی زندگی کے مطالبہ کے بعد ہی ہو سکتا ہے لیکن یہ بہر حال طے ہے کہ علامہ عدیل اختر طاب ثراہ کا دور اس عظیم درسگاہ کا نقطہ معراج تھا جس دور کے فارغ شاگردوں نے اپنی اپنی جگہ پر منفرد کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں جن سب کی عظمتوں کو سلام کرنے کے ساتھ جس ایک شخصیت کو دیکھنے سننے اور کسی حد تک سمجھنے کا موقع ملا وہ ذات با برکت بانی تنظیم المکاتب طاب ثراہ کی ہے جن کے علم و عمل اور اخلاص کے چرچے زبان زد خاص و عام ہیں بانی تنظیم نے ترجمہ و تالیف سے لے کر خطابت کی دنیا میں جو عظیم خدمات انجام دیں ہیں وہ ہنددوستان کی تاریخ میں اگر بے نظیر نہ سہی توکم نظر ضرور ہیں خاص طور پرآپ کی عظیم خطابت نے آپ کو خطیب اعظم کے عنوان سے متعارف کرایا
انہوں نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بانی تنظیم مولانا غلام عسکری صاحب طاب ثراہ کی شخصیت کے تمام پہلو ابھی تک دنیا کے سامنے نہیں آسکے لیکن جتنا کچھ ان کے عقیدت مندوں کے سامنے آسکا ہے اور جس نے ان کی شخصیت کو ان کے ہم عصروں کے درمیان ممتاز بنایا ہے اس کے پیچھے خود انہیں کے اعترافات کے مطابق یگانہ روزگار علامہ عدیل اختر صاحب قبلہ کے حسن تربیت کا اثر ہے
تسکین الفتن فی صلح امام حسن ؑ نامی کتاب کے تعارف میں بانی تنظیم خود اس طرح رقم طراز ہیں
’’علامہ عدیل اخترطاب ثراہ کی سہ سالہ تعلیم وتربیت نے مجھےوہ سب کچھ عطاکیاجس کی وجہ سے آج میں تمام خامیوں کےباوجوددین اہل بیت ؑ کی خدمت کر رہا ہوں‘‘
بانی تنظیم طاب ثراہ نے علامہ عدیل اختر طاب ثراہ کی تصنیف کردہ دقیق علمی کتابوں کی اشاعت کے لئے با قاعدہ الگ سے پہلے ایک ارادہ قائم کیا اور پھر الگ سے اس میں وقت نہ دے پانے کی بنا پر ادارہ تنظیم المکاتب میں ان کے نام سے ایک مستقل فنڈقائم کیا جس کا تذکرہ خودا نہوں نے اپنے قلم سے اس طرح فرمایا ہے
” سب سے پہلے استاد محترم کی کتاب’’صلح امام حسن ؑ‘‘مومنین جلال پور کی مدد سے چھپی ا س کے بعد علامہ مرحوم کے شاگردوں،اعزاء اور قدر دانوں کی مدد سے مکتبہ افادات عدیل اختر معینہ قائم ہوا رمضان المبارک ۱۳۹۰ھ میں سفر حج کے لئے روانہ ہورہا تھا تو مکتبہ افادات عدیل اختر کی کتابوں اور روپیہ کو تنظیم المکاتب کے حوالہ کر کے عدیل اختر فنڈ قائم کر دیا تاکہ علامہ مرحوم کی کتابیں بھی شائع ہوجائیں اور اپ کی کتابوں کے بعد اس فنڈ سے دوسری جتنی کتابیں چھپتی رہیں ان کی آمدنی کا کچھ حصہ مکاتب کی امداد پر خرچ ہوتا رہے” ’(مقدمہ صلح حسن علیہ السلام)
بانی تنظیم المکاتب خطیب اعظم مولانا غلام عسکری صاحب جیسی شخصیت کی اپنے استاد اور مربی کے تئیں یہ عقیدت و محبت علامہ عدیل اختر طاب ثراہ کی شخصیت کی عظمت و جلالت کی بہترین گواہ ہے ۔
علامہ سید عدیل اختر طاب ثراہ کی حیات بابرکت کا مختصر تذکرہ جناب مولانا آغا مہدی صاحب مرحوم سابق مدیر الواعظ نے کتاب تسکین الفتن فی صلح الحسن ع کے مقدمہ میں حالات مصنف کے عنوان سے تفصیل سے کیا ہے جس کے مطابق آپ کی پوری زندگی علمی جد وجہد میں بسر ہوئی اور جہاں بھی رہے مختصر ترین مالی امکانات سے استفادہ کے ساتھ عظیم ترین خدمات انجام دیتے رہے حق تو یہ تھا کہ اس عظیم شخصیت کی ہمہ جہت خدمات کے پیش نظر ان کی تعلیم گاہ جامعہ ناظمیہ سے لے کر مدرسۃ الواعظین تک اور پھر ہندوستان کے دیگر فعال مدارس علمیہ میں ان کے نام سے اسکالر شپ قائم ہوتی جدید نسل کو ان کی خدمات اور طریقۂ تعلیم وتربیت سے متعارف کرایا جاتا ان کی کتابوں پر تحقیق وتبصرہ ہوتے اور اعلیٰ تعلیم گاہوں میں ان کی زندگی اور کارناموں سے متعلق تحقیقی مقالے
(thesis)لکھوائے جاتے ان کی کتابوں کا عربی اور فارسی میں ترجمہ کر کے بین الاقوامی سطح پر تمام محققین عالم کو ان کی عظیم شخصیت سے روشناس کرایا جاتا لیکن شاید یہ ہمارے سماج کی سب سے بڑی خامی ہے کہ ہم عظیم شخصیات کو خاندانوں اور اداروں میں تقسیم کر کے خود ان سے دست بردار ہوجاتے ہیں اسی طرح عظیم عالمی اور آفافی شخصیتیں محدود ہوکر رہ جاتی ہیں علامہ سید عدیل اختر صاحب طاب ثراہ جیسی عظیم شخصیت ہندوستان کے سلف صالح کی وہ اہم ترین یادگار ہیں جن کی عظمتوں کو سلام کرکے نئی نسلیں اپنے علمی مدارج کی کی اعلیٰ منزلیں طے کر سکتی ہیں ۔
انسان کےماضی کی درخشندگی مستبقل کو تابناک بنانے کا حوصلہ دیتی ہے لہٰذا ماضی کی شخصیات اور ان کی خدمات کا پڑھنا سمجھنا اور بہت کم امکانات کے ساتھ بڑے بڑے علمی اور عملی کارہائے نمایاں انجام دینے کا تذکرہ جدید نسل کودرپیش مشکلات کو آسان بناکر ان کے عزم و حوصلہ کونئی جہت دے سکتا ہے ۔
علامہ عدیل اختر طاب ثراہ نے اپنی عظیم خاندانی وجاہت کے باوجود جن معمولی امکانات کے ساتھ تعلیم کے اعلیٰ مدارج طے کئے اور پھر تعلیم مکمل کرنے کے بعد دنیا کےمختلف گوشہ وکنارمیں انکےترجمہ،تصنیف،تالیف،خطابت اور تبلیغ کے جو ڈنکےبجے ان کی صدائے بازگشت آج بھی گونج رہی ہے کاش کوئی کوئی گوش سنوا پیدا ہوجائے جو ان آوازوں کے دائرہ عمل کو آگے بڑھا کر اس جدید ٹکنالوجی کے دور میں اسلام کی آفاقیت سے دنیا کو روشناس کراسکے
آخر میں کہا کہ آئیے ۸؍ شوال کے اس المناک موقع پر ائمہ بقیع علیہم السلام کے مزارات مقدسہ پر اظہار رنج والم کے ساتھ اس عظیم عالم اور دانشور کی عظیم خدمات کو خراج عقیدت پیش کریں یقیناً عالم اسلام کے لئے یہ سیاہ تاریخ غم و الم کی ایسی یاد گار تاریخ ہے جس دن معصوم ذوات مقدسہ کی قبور مطہرہ تک کی حرمت کا پاس و لحاظ نہ رکھا گیا آج پوری دنیا سراپااحتجاج ہے لیکن آل سعود کے ان ناپاک درندوں کی بےحسی کا عالم یہ ہے کہ خود نرم و گرم محلوں میں رہنے والے آل رسول ؐکی تربتوں کو ویران کئے ہوئے ہیں اور نام نہاد مسلمان ان کو عالم اسلام کا ہیرو سمجھنے اور سمجھانے پر مصر ہیں کاش دنیا اتنی باشعور ہوتی کہ ظالم اور مظلوم میں فرق کرکے مظلوم کی حمایت میں ظالم کو نیست ونابود کرنےکے لئے جد و جہد کرتی تودنیامیں ظلم وستم کرنےوالےاپنے جرائم پر تقدس کی نقاب نہ ڈال پاتے
آج دنیا کی بے حسی نےظالموں کواتناجسوربنا دیا ہے کہ وہ ظلم و ستم کے باوجود تقدس کی علامت بنے رہتے ہیں اگر دنیا بیداری کا ثبوت فراہم کرے تو لائق اور قابل قدر خدمات کرنے والوں کی قدردانی اور ظالموں کی رسوائی کا سامان فراہم ہوجائےجس سے ساری دنیا میں عدل وانصاف کا بول بالا کرنے والے زمانے کے امام عج کے ظہور کا ماحول فراہم کرنے کی راہ میں آگے بڑھا جاسکے۔