۳ آذر ۱۴۰۳ |۲۱ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 23, 2024
علامہ سید عدیل اختر

حوزه/اسلام میں علماء کا مقام و منزلت بہت عظیم ہے۔ جسکے لئے شاید یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اللہ نے پیغمبروں اور اماموں کے بعد علماء کے علاوہ کسی دوسرے کو ان اوصاف سے یاد نہیں کیا ہے۔

حوزه نیوز ایجنسی| اسلام میں علماء کا مقام و منزلت بہت عظیم ہے۔ جسکے لئے شاید یہ کہنا مناسب ہوگا کہ اللہ نے پیغمبروں اور اماموں کے بعد علماء کے علاوہ کسی دوسرے کو ان اوصاف سے یاد نہیں کیا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ: 
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ؛ خدا صاحبان ایمان اور جن کو علم دیا گیا ہے ان کے درجات کو بلند کرنا چاہتا ہے(سوره محادله، آیه ۱۱)
هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ؛ کیا وہ لوگ جو جانتے ہیں ان کے برابر ہوجائیں گے جو نہیں جانتے ہیں- (سوره زمر، آیه ۹)
إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَآءُ؛ اللہ سے ڈرنے والے اس کے بندوں میں صرف صاحبانِ معرفت ہیں.(سوره فاطر، آیه ۲۸)
امیر کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں کہ: من وقّر عالما وقّر ربه؛ جس نے عالم کا احترام اور تعظیم کیا، اس نے خدا کا احترام اور تعظیم کیا۔(تصنیف غرر الحکم و درر الکلم، ص٤٧، ح٢١٨)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سے علماء ہیں جنکے لئے اس طرح کی گفتگو ہو رہی ہے؟ اسکا جواب ہمیں امام باقر علیہ السّلام کی حدیث میں ملےگا کہ جہاں آپ چند صفات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں۔

١- عالم کو مال و ثروت جمع کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
عالم کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ وہ عالم دنیوی، مال‌ و دولت اکٹھا کرنے والا نہ ہو، کیونکہ یہی مال و دولت اور دنیا اسکے زوال کا سبب بنتی ہے۔
٢- عالم کو معارف دینی سے کاملاً آگاہ ہونا چاہیے۔
چنانچہ خود امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ: من افتی الناس بغیر علم و لا ھدی لعنته ملائکة الرحمة و ملائکة العذاب و لحِقَهُ وِزرُ مَن عمل بفُتیاه؛ اگر کوئی شخص بنا علم و آگاہی کے لوگوں کی راہنمائی اور ارشاد کرے اور فتوا دے تو ایسے شخص پر ملائکہ رحمت اور ملائکہ عذاب لعنت کریں گے، جب بھی کوئی اس فتوے پر عمل کرے گا تو اسکے منحرف ہونے کا طوق بھی اسی شخص کی گردن میں ڈالا جائے گا۔(الحیاۃ، ج٩، ص٥٦٣)
٣- عالم کو فن بیان اور بلاغت کلام سے آشنا ہونا چاہیے۔
امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ: انّا لا نعُدُّ الرجل فقیها عالما حتی یعرف لحن القول و هو قول الله عز و جل ولِتعرفنّهم فی لحن القول...؛ جب تک کوئی شخص روش اور مقاصد گفتار سے آگاہ نہ ہو،میں اسے فقیہ اور عالم نہیں مانتا ہوں کیونکہ خداوند عالم نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ: ۔۔۔ اور انکی گفتگو کے انداز سے تو بہرحال پہچان ہی لیں گے۔۔۔۔( سورہ محمد، آیه٣٠). (الحیاۃ، ج٢، ص٤٦٢)
عالم کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے کو علم بلاغت اور فن بیان سے آراستہ کرے۔ کیونکہ خود امام علیہ السلام فرماتے ھیں کہ: البیان عماد الدین؛ بیان ستون علم ہے۔(الحیاۃ، ج٢، ص٤٦٢)
٤- علماء کو حسادت سے پرہیز کرنا چاہیے۔
امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ: انسان کبھی بھی عالم نہیں ہو سکتا ہے مگر یہ کہ وہ اپنے سے زیادہ علم رکھنے والے عالم سے حسد نہ کرے، اور اس عالم کی تحقیر نہ کرے جو اس سے کم علم رکھتا ہو۔
بعض روایات میں ہے کہ وہ لوگ جو قیامت میں حساب و کتاب سے پہلے جہنم میں داخل ہوں گے ان میں سے ایک گروہ ان علماء کا ہوگا جو حاسد ہوں گے۔ 
٥- علماء کو شہرت طلبی، مقام و منصب سے پرہیز کرنا چاہیے۔
اسلام میں اس عالم کا احترام ہے جو ھوا و ھوس کا اسیر نہ ہو، جسکا سارا ھم و غم خدائی رسالت کی ادائیگی اور دین کو عملی جامہ پہنانے پر ہو۔ وہ افراد جو دین کو اپنی دنیا، مقام، منصب حاصل کرنے کا ذریعہ بناتے ہیں ایسے لوگوں کے لئے امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ: اگر کوئی علم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ وہ علماء کے سامنے فخر کرے، یا جاہلوں کے ساتھ بحث کرے، یا لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرے تو ایسے شخص کا ٹھکانہ دوزخ کی آگ کے علاوہ کہیں اور نہیں ہے۔(الحیاۃ، ج٢، ص٥٦٨)
٦- علماء کو علم کی ترویج میں ذمہدار ہونا چاہیے۔
امام باقر علیہ السّلام فرماتے ہیں کہ: اگر کوئی شخص دوسروں کو ہدایت کا راستہ دکھائے تو ایسے شخص کو عمل کرنے والے کا ثواب بھی ملے گا اور ہدایتگری کا ثواب بھی۔( الحیاۃ، ج١، ص١١٣)
٧- علماء کو معاشرے میں پھیلے ہوئے فساد اور برائیوں کو دور کرنا چاہیے۔
امام باقر علیہ السّلام رسول اللہ (ص) سے نقل کرتے ہیں کہ: ہماری امت کے دو گروہ اگر صالح رہیں تو میری امت بھی صالح رہے گی۔ اور جب بھی یہ دو گروہ فاسد ہو جائیں گے تو میری امت بھی فاسد ہو جائے گی۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ یہ دو گروہ کن لوگوں کا ہے؟ تو فرمایا: علماء دین اور سیاسی حکمران۔ ( الحیاۃ، ج١١، ص٥٠٦)
یہ ساری باتیں صرف اس لئے لکھی ہیں کہ آج یعنی ٨ شوال ہی وہ غمناک تاریخ ہے جب عالم تشیع بالخصوص بر صغیر کے شیعہ دھرے غم میں مبتلا ہوئے۔ پہلا غم تو انہدام جنت البقیع کا تھا ہی کہ دوسرا غم، نابغۂ روزگار، ادیب عصر، فیلسوف اسلام، علامہ سید عدیل اختر طاب ثراہ کی وفات کی شکل میں ملا۔ یہ بزرگ شخصیت وہ عالم تھے کہ جن میں وہ تمام اوصاف جو امام باقر علیہ السّلام نے بیان فرمائے ہیں، بہ شکل کامل موجود تھے۔ آپکی خطابت ہو یا قلم، درس و تدریس کا سلسلہ ہو یا قومی رہبری، مناظرہ و مباحثہ ہوں یا نشر و ترویج علوم آل اللہ، ہر میدان میں بے مثال و لا ثانی تھے۔ مرحوم کی تحریر کردہ کتابیں آج بھی اپنے موضوعات پر بہترین اور شاید کافی حد تک اولین و نایاب کتابیں ہیں۔ آپنے ان موضوعات پر قلم فرسائی کی، جن موضوعات پر اس سے پہلے اس طرح سے کسی نے کام نہیں کیا‌ تھا۔ دنیا‌ میں ایسے جمیع الصفات افراد شاید ہی ہاتھوں کی انگلیوں سے زیادہ ملیں۔  امام باقر علیہ السّلام کی حدیث کی روشنی میں اگر ہم‌ دیکھیں تو علامہ مرحوم ان احادیث کے ایک‌ کامل مصداق ہیں۔
خدا کی بارگاہ میں دعاگو ہوں کہ مرحوم علامہ کو ائمہ بقیع کے ساتھ محشور کرے۔ ہم لوگوں کو بھی توفیق دے کہ مرحوم کو اپنا آئیڈیل قرار دیں اور اپنی پوری زندگی اسلام اور انسانوں کی خدمت میں گزاریں۔

تحریر:مولانا سید فیاض محسن عابدی

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔_________________________

حکیمی، محمدرضا، حکیمی، محمد، حکیمی، علی، ترجمه الحیاه : دایرة المعارف اسلامی…، ترجمه احمد آرام، چاپ دهم، قم: دلیل ما، ۱۳۹۱، ج. ۱-۱۲

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .