تحریر : سید ذاکر حسین جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی । حضرت امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: اہل بیت (ع) کی مثال سفینہ نوح جیسی ہے، جواس پرسوارہوگا وہی نجات پائے گا ۔حضرت امام رضا علیہ السلام بتاریخ ۱۱/ ذیقعدہ ۱۵۳ ھ یوم پنجشنبہ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد ماجد حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے لوح محفوظ اور فرمان رسول کریم (ص) کے مطابق آپ نام " علی " رکھا ،آپ آل محمد (ص) کے تیسرے "علی" ہیں ۔
آپ کی کنیت ابوالحسن اورآپ کے القاب صابر،زکی،ولی،رضی،وصی اور رضا (ع) ہیں ،اورآپ کا مشہورترین لقب بھی رضا ہے۔ علامہ طبرسی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کورضا (ع) اس لیے کہتے ہیں کہ آسمان وزمین میں خداوند متعال ،رسول اکرم (ص) اورآئمہ طاہرین (ع) ،نیزآپ کے تمام مخالفین وموافقین آپ سے راضی تھے۔
حضرت امام رضاعلیہ السلام سے بے شمار احادیث مروی ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
٭ ۔شہدمیں شفاہے ،اگرکوئی شہدہدیہ کرے توواپس نہ کرو۔
٭ ۔ گلاب جنت کے پھولوں کا سردار ہے۔
٭ ۔ بنفشہ کاتیل سرمیں لگاناچاہئے اس کی تاثیرگرمیوں میں سرداورسردیوں میں گرم ہوتی ہے۔
٭ ۔ جوزیتون کاتیل سرمیں لگائے یاکھائے اس کے پاس چالیس دن تک شیطان نہ آئے گا۔
٭ ۔ صلہ رحم اورپڑوسیوں کے ساتھ اچھاسلوک کرنے سے مال میں زیادتی ہوتی ہے۔
٭ ۔ جمعہ کے دن روزہ رکھنا دس روزوں کے برابرہے۔
٭ ۔ شہدکھانے اوردودھ پینے سے حافظہ بڑھتاہے۔
٭ ۔ گوشت کھانے شفاہوتی ہے اورمرض دورہوتاہے۔
٭ ۔ کھانے کی ابتداء نمک سے کرنی چاہئے کیونکہ اس سے ستربیماریوں سے حفاظت ہوتی ہے جن میں جذام بھی ہے۔
٭ ۔ جودنیامیں زیادہ کھائے گاقیامت میں بھوکارہے گا۔
٭ ۔ اچھے اخلاق والاپیغمبراسلام کے ساتھ قیامت میں ہوگا۔
٭ ۔ جنت میں متقی اورحسن خلق والوں کی اورجہنم میں پیٹواور زناکاروں کی کثرت ہوگی۔
٭ ۔ امام حسین کے قاتل بخشے نہ جائیں گے ان کابدلہ خدالے گا۔
٭ ۔ حسن اورحسین علیہم السلام جوانان جنت کے سردارہیں اوران کے پدربزرگواران سے بہترہیں۔
٭ ۔ اہل بیت کی مثال سفینہ نوح جیسی ہے ،نجات وہی پائے گا جواس پرسوارہوگا۔
٭ ۔ حضرت فاطمہ ساق عرش پکڑکرقیامت کے دن واقعہ کربلاکافیصلہ چاہیں گی اس دن ان کے ہاتھ میں امام حسین علیہ السلام کاخون بھراپیراہن ہوگا۔
٭ ۔ سب سے پہلے جنت میں وہ شہدااورعیال دارجائیں گے جوپرہیزگارہوں گے اورسب سے پہلے جہنم میں حاکم غیرعادل اورمالدارجائیں گے۔
حضرت امام رضا علیہ السلام کو حضرت امام جعفر صادق (ع) کے بعد اپنے علم وفضل کے اظہارکے زیادہ مواقع ملے، کیوںکہ جب تک آپ ، مامون عباسی کے پاس دارالحکومت مرومیں تشریف فرمارہے، بڑے بڑے علماء وفضلاء علوم مختلفہ میں آپ کی استعداداور فضیلت کے معترف تھے اورصرف اسلامی علماء ہی نہیں ، بلکہ علماء یہودی ونصاری سے بھی آپ کامقابلہ کرایاگیا اور آپ کوان تمام مناظروں ومباحثوں میں برتری حاصل رہی ۔ عباسی خۂیفہ مامون خود اپ کے علمی تبحر اور فضل و کمال کا معترف تھا۔
مامون عباسی مسلسل علماء ادیان وفقہائے شریعت کو حضرت امام رضاعلیہ السلام کے مقابلہ میں بلاتااورمناظرہ کراتا،مگرآپ ہمیشہ ان لوگوں پرغالب آتے تھے اورخود ارشادفرماتے تھے کہ میں مدینہ میں روضہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بیٹھتا،وہاں کے علمائے جب کسی علمی مسئلہ میں عاجزآجاتے توبالاتفاق میری طرف رجوع کرتے تھے اور تسلی بخش جوابات سن کر مطمئن ہوجاتے تھے۔