۳۱ فروردین ۱۴۰۳ |۱۰ شوال ۱۴۴۵ | Apr 19, 2024
مولانا محمد لطیف مطہری کچوروی

حوزہ/ یہودی معروف عالم راس الجالوت جسے اپنے علم پر بڑا ناز تھا، امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہوا۔ اس نے امام علیہ السلام کی خدمت میں اپنے خیال کے مطابق بہت سخت سوالات کئے۔ اس کے تمام سوالات کا تسلی بخش جواب دینے کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: اے راس الجالوت! کیا  تم توریت کی اس عبارت سے انکار کرتے ہو، جس میں موجود ہے کہ ایک نور، سینا  کی طرف سے آیا اور  کوہ ساعیر کو روشن کر دیا اور کوہ فاران سے نمایاں ہوا۔

تحریر: محمد لطیف مطہری کچوروی

حوزہ نیوز ایجنسی خداوند متعال کی طرف سے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بارہ معصوم جانشین منتخب ہوئے، جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی وارث اور مکتب تشیع کے نگہبان ہیں۔ امامت و ولایت کے آٹھویں تاجدار امام رضا علیہ السلام نے بھی اپنی ساری زندگی انسانوں کی تربیت اور انہیں کمال تک پہنچانے کے لئے وقف کر دی۔ آپ اپنے علم لدنی سے تشنہ علوم کو سیراب اور انہیں صراط مستقیم پر گامزن کرتے رہے۔ آپ کی تعریف آپ کے آباء و اجداد نے عالم آل محمد کے نام سے کی، چونکہ آپ معدن علم تھے۔ عباسی خلیفہ مامون آپ کو مدینہ سے زبردستی خراسان لے آیا اور اپنی ولایت عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا۔ مامون اپنے مختلف اہداف اور مقاصد کی خاطر تمام ادیان و مذاہب کے علماء کو امام علیہ السلام کے ساتھ مناظرہ کرنے کی دعوت دیتا تھا۔ آپ نے جاثلیق اور راس الجالوت کے ساتھ بھی مناظرہ انجام دیا، جو اسی سلسلہ کی ایک کڑی۔۱۔

محدث کبیر جناب شیخ صدوق (رہ) نے کتاب عيون أخبار الرضا عليہ السلام میں امام رضا علیہ السلام کے مناظرے سے متعلق ایک روایت نقل کی ہے۔۲۔ حسن بن محمد نوفلی کہتے ہیں کہ ہم سب امام رضا علیہ السلام کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے کہ مولاؑ کا خادم جس کا نام یاسر تھا، مامون کی طرف سے پیغام لے کر آیا کہ مامون کا دربار سجا ہے اور مختلف مذاہب کے علماء جمع ہیں اور امامؑ کو مناظرہ کی دعوت دی گئی ہے۔ امام ؑ نے جواب بھجوایا کہ میں جانتا ہوں کہ تیرا مقصد کیا ہے اور میں کل صبح آوں گا۔ راوی کہتے ہیں کہ یاسر چلا گیا اور پھر امامؑ نے مجھ سے سوال کیا: اے نوفلی تم عراقی ہو اور عراقی لوگ ہوشیار ہوتے ہیں بتاو کہ اس دعوت مناظرے کے پیچھے مامون کا کیا مقصد ہے۔؟

میں نے عرض کیا: مولاؑ یہ لوگ آپ کو آزمانا چاہتے ہیں اور یہ کام خطرناک ہے۔ امامؑ نے پوچھا کیسے خطرناک ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ لوگ اہل بدعت اور متکلم ہیں، یہ لوگ عالم نہیں ہیں کہ حق بات اور دلیل کو قبول کر لیں بلکہ اس کا انکار کریں گے اور مغالطہ کریں گے۔ اگر آپ فرمائیں گے کہ خدا ایک ہے تو وہ آپ سے کہیں گے کہ پہلے خدا کی وحدانیت کو ثابت کریں، اگر آپ فرمائیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خدا کے رسول ہیں تو وہ آپ سے آنحضرت کی رسالت کو ثابت کرنے کو کہیں گے اور مغالطہ کریں گے، یہاں تک کہ آپ کو مجبور کرنے کی کوشش کریں گے کہ آپ اپنی دلیلیں واپس لے لیں۔ میں آپ پر قربان جاؤں، ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ امام علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا: اے نوفلی کیا تمیں یہ خوف ہے کہ وہ لوگ میری دلیلوں کو ردّ کر دیں گے اور مجھے شکست ہو جائے گی؟ میں نے عرض کیا: نہیں مولاؑ، خدا کی قسم ایسا نہیں ہے، میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ آپ ان لوگوں پر غالب آجائیں۔

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: اے نوفلی، جاننا چاہتے ہو کہ مامون کب اپنی حرکت پر پشیمان ہوگا؟ میں نے عرض کیا، جی مولا میں جاننا چاہتا ہوں۔ امامؑ نے فرمایا: اس وقت جب مامون یہ دیکھے گا کہ میں توریت کے ماننے والوں کو توریت سے، انجیل کے ماننے والوں کو انجیل سے، زبور کو ماننے والوں کو زبور سے جواب دوں گا اور صابئین کو عبری زبان میں، مجوسیوں کو فارسی زبان میں، رومیوں کو رومی زبان میں جواب دوں گا اور ہر فرقہ کے علماء سے ان کی زبان میں مناظرہ کروں گا، اس وقت میں سب پر غالب ہو جاوں گا اور سب میری بات کو قبول کرکے اپنی شکست تسلیم کرلیں گے، تب مامون کو پتہ چلے گا کہ جو وہ چاہتا ہے وہ اس کے لئے شائستہ نہیں ہے اور اس طرح وہ اپنے کئے پر شرمندہ ہو جائے گا۔ پھر امامؑ نے فرمایا:(لا حول ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم) یہاں ہم ان دونوں مناظروں کو  اختصار کے ساتھ بیان کریں گے۔

نصاریٰ کا بڑا عالم جاثلیق جو ہمیشہ کہتا رہتا تھا کہ مسلمان اور عیسائی دونوں نبوت حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں، لیکن اختلاف صرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے بارے میں ہے مسلمان ان کی نبوت کا اعتقاد رکھتے ہیں، جبکہ عیسائی ان کی نبوت کے منکر ہیں۔ مامون رشید کے اشارے پر وہ حضرت امام رضا علیہ السلام سے مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہوا۔ مامون نے جاثلیق کی طرف رخ کرکے کہا: اے جاثلیق: یہ شخص علی ابن موسیٰ ابن جعفر ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ ان سے بحث کریں۔ جاثلیق نے کہا: اے امیر المومنین میں اس شخص سے کیسے بحث کروں، جو کسی ایسی کتاب سے استدلال پیش کرتا ہے، جسے میں قبول نہیں کرتا اور ایسے نبی کے کلام سے استفادہ کرتا ہے، جس پر میں ایمان نہیں رکھتا ہوں۔

امام نے فرمایا: اے عیسائی اگر میں انجیل سے تمہارے لئے استدلال پیش کروں تو کیا تم قبول کروگے؟ جاثلیق نے کہا: میں انجیل کے الفاظ کو کیسے مسترد کرسکتا ہوں؟ خدا کی قسم میں اسے قبول کروں گا۔ امام نے فرمایا: اب تم جو چاہو پوچھ لو اور جواب حاصل کرو۔ جاثلیق نے پوچھا: آپ عیسیٰ مسیح اور اس کی کتاب کے بارے کیا خیال رکھتے ہیں؟ کیا آپ ان دونوں پر ایمان نہیں رکھتے؟ امام نے فرمایا: میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت اور ان کی کتاب انجیل پر اور جو کچھ انہوں نے بشارت دی ہے اور ان کے حواریوں نے قبول کیا ہے، ان پر ایمان رکھتا ہوں۔ میں اس عیسیٰ مسیح کو قبول نہیں کرتا ہوں، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور آپ کی کتاب قرآن مجید پر ایمان نہ رکھتا ہو اور اپنی امت کو ان چیزوں کی بشارت نہ دی ہو۔

جاثلیق نے کہا: کیا ہر حکم کے لئے دو گواہوں کی ضرورت نہیں ہے؟ امام نے فرمایا: جی ہاں۔ اس نے کہا: پھر دو ایسے گواہ پیش کریں، جو مسلمان نہ ہوں اور عیسائی بھی انہیں قبول کریں۔ امام نے فرمایا: کیا اس شخص کو قبول کرتے ہو، جو عیسیٰ مسیح کے نزدیک مقام و منزلت پر فائز تھا؟ جاثلیق نے کہا: یہ شخص کون ہے؟ اس کا نام بتائیں؟ امام نے فرمایا :یوحنا دیلمی کے بارے میں کیا خیال  رکھتے ہو؟ اس نے کہا: آپ نے عیسیٰ مسیح کے نزدیک سب سے پیارے شخص کا نام لیا ہے۔ امام نے فرمایا: میں تجھے قسم دیتا ہوں، کیا یہ انجیل میں ذکر نہیں ہوا ہے کہ یوحنا دیلمی نے کہا: عیسیٰ مسیح نے مجھے محمد عربی کے مذہب کے بارے میں آگاہ کیا اور بشارت دی کہ وہ ان کے بعد آئے گا۔ میں نے بھی اپنے شاگردوں کو اس چیز کی بشارت دی ہے اور وہ بھی ان پر ایمان لائے ہیں۔

امام نے فرمایا: اگر میں یہاں ایک ایسے شخص کو پیش کروں، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ان کے اہل بیت علیہم السلام اور ان کی امت کے بارے میں جو کچھ انجیل میں ہے، اس کی تلاوت کریں تو کیا تم ایمان لاو گے۔؟ جاثلیق نے کہا: یہ بہت اچھی بات ہے۔ امام نے نسطاس رومی کی طرف رخ کرکے فرمایا: تم انجیل   زبانی پڑھ سکتے ہو؟ اس نے کہا: میں اسے مکمل طور پر پڑھ سکتا ہوں۔ پھر امام نے فرمایا: اے جاثلیق، کیا تم نے انجیل پڑھی ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں۔ امام نے فرمایا: میں انجیل سے پڑھ رہا ہوں، اگر یہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی اہل بیت کے بارے میں ہے تو تم گواہی دینا اور اگر ان کے بارے میں نہیں ہے، تب بھی تم گواہی دینا۔ پھر امام نے انجیل  کو پڑھ لیا اور اس سے پوچھا اب تمہارا کیا خیال ہے۔؟ یہ عیسیٰ مسیح کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ ہیں، اگر انجیل کی ان عبارتوں سے انکار کرو گے تو گویا تم نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کی نبوت سے انکار کیا ہے۔ اگر تم ان انبیاء کی نبوت سے انکار کرو گے تو تم واجب القتل ہو جاو گے، کیونکہ تم خدا اور اپنے نبی اور اس کی کتاب کے منکر ہوگئے ہو۔ اس نے کہا جو کچھ انجیل سے میرے لئے روشن ہو جائے، میں اس کو تسلیم کرتا ہوں۔ امام نے فرمایا: اس کے اس اعتراف پر گواہ رہنا۔

آپ نے فرمایا: اے جاثلیق ہم اس عیسیٰ مسیح پر، جنہوں نے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی بشارت دی ہے، انہیں نبی برحق سمجھتے ہیں، ان پر ہمارا ایمان ہے، لیکن تم جس عیسیٰ مسیح پر عقیدہ رکھتے ہو، ان پر ہمارا ایمان نہیں ہے، کیونکہ وہ نماز اور روزہ کے پابند نہیں تھے۔ جاثلیق نے کہا ہمارا تو ایسا ایمان نہیں ہے، ہمارا عقیدہ ہے کہ وہ ہمیشہ قائم اللیل اور صائم النہار رہا کرتے تھے۔  آپ نے فرمایا: عیسایوں کے عقیدے کے مطابق تو حضرت عیسیٰ خود معاذ اللہ خدا تھے تو یہ روزہ اور نماز کس کے لیے انجام دیتے تھے۔ یہ سن کر جاثلیق مبہوت ہوگیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔ اس کے بعد اس نے کہا: جو مردوں کو زندہ کرے، جذامی کو شفا دے، نابینا کو بینا کر دے اور پانی کے اوپر چلے تو کیا وہ لائق پرستش نہیں ہے۔؟ کیا اسے معبود نہیں سمجھنا چاہیئے؟

امام نے فرمایا: الیسع بھی پانی پر چلتے تھے، اندھے کو بینائی دیتے تھے، کوڑی کو شفا دیتے تھے۔ اسی طرح حزقیل پیغمبر نے انسانوں کو ساٹھ برس کے بعد زندہ کیا۔ قوم اسرائیل کے بہت سے لوگ طاعون کے خوف سے اپنے گھر چھوڑ کر باہر چلے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک گھنٹہ میں سب کو مار دیا اور بہت دنوں کے بعد ایک نبی ان بوسیدہ ہڈیوں کے پاس سے گزرے تو خداوند تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی کہ انہیں آواز دو۔ انہوں نے کہا کہ اے بوسیدہ ہڈیوں اللہ کے حکم سے اٹھ جاو تو وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پرندوں کو زندہ کرنا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کوہ طور پر جانے والوں کا دوبارہ زندہ کرنا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مردوں کو زندہ کرنے کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: کیا ان چیزوں  کے بارے میں توریت، انجیل اور قرآن مجید میں شہادتیں موجود نہیں ہیں؟ اگر مردوں کو زندہ کرنے سے انسان خدا اور لائق پرستش ہوسکتا ہے تو یہ سب انبیاء بھی خدا ہونے کے مستحق ہیں۔ یہ سن کر وہ چپ ہوگیا اور اس نے اسلام قبول کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ دیکھا۔

یہودی معروف عالم راس الجالوت جسے اپنے علم پر بڑا ناز تھا، امام علی بن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے ساتھ مناظرہ کرنے کے لئے تیار ہوا۔ اس نے امام علیہ السلام کی خدمت میں اپنے خیال کے مطابق بہت سخت سوالات کئے۔ اس کے تمام سوالات کا تسلی بخش جواب دینے کے بعد امام علیہ السلام نے فرمایا: اے راس الجالوت! کیا  تم توریت کی اس عبارت سے انکار کرتے ہو، جس میں موجود ہے کہ ایک نور، سینا  کی طرف سے آیا اور  کوہ ساعیر کو روشن کر دیا اور کوہ فاران سے نمایاں ہوا۔ اس نے کہا ہم نے اسے پڑھا ہے، لیکن اس کی تفسیر کا علم نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا: نور سے مراد وحی ہے، طور سینا سے مراد وہ پہاڑ ہے، جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام  خداوند متعال سے ہم کلام ہوتے تھے۔ کوہ ساعیر سے مراد وہ مقام  ہے، جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام  پر وحی نازل ہوئی۔ کوہ فاران سے مراد مکہ کے وہ اطراف ہیں، جو شہر مکہ سے ایک دن کے فاصلہ پر واقع ہیں۔

پھر آپ نے فرمایا: تم نے حضرت موسیٰ کی یہ وصیت دیکھی ہے کہ تمہارے پاس بنی اخوان سے ایک نبی آئے گا، اس کی بات ماننا اور اس کے قول کی تصدیق کرنا۔ اس نے کہا: ہاں دیکھی ہے، آپ نے پوچھا کہ بنی اخوان سے مراد کون ہے۔؟ اس نے کہا: مجھے اس بات کا علم نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ وہ اولاد اسماعیل ہیں۔ وہ حضرت ابراہیم کے بیٹے اور حضرت اسحاق کے بھائی ہیں اور انہی کی نسل سے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: شعیا نبی کا قول توریت میں مذکور ہے کہ میں نے دو سوار دیکھے کہ جن کے پروں سے دنیا روشن ہوگئی، ان میں سے ایک گدھے پر سوار تھا اور ایک اونٹ پر۔ اے راس الجالوت تم بتاو کہ اس سے کون مراد ہیں؟ اس نے دوبارہ کہا مجھے اس کا علم نہیں تو  آپ نے فرمایا: راکب الحمار سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور راکب الجمل سے مراد حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

اس کے بعد ارشاد فرمایا: تمہارے پاس حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نبوت کی کیا دلیل  ہے؟ اس نے کہا کہ انہوں نے ایسے امور انجام دیئے، جو ان سے پہلے والے انبیاء علیہم السلام نے انجام نہیں دیئے مثلاً دریا نیل کا شگافتہ ہونا، عصا کا سانپ بن جانا، ایک پتھر سے بارہ چشمہ جاری ہو جانا اور ید بیضا وغیرہ۔ آپ نے فرمایا: جو بھی اس قسم کے معجزات انجام دے اور نبوت کا مدعی ہو تو اس کی تصدیق کرنی چاہیئے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا کیوں؟ کہا اس لیے کہ موسیٰ کو جو قربت یا منزلت اللہ تعالیٰ کے نزدیک حاصل ہے، وہ کسی کو نہیں ہے، لہذا ہم پر واجب ہے کہ جب تک کوئی شخص بعینہ وہی معجزات و کرامات نہ دکھائے، ہم اس کی نبوت کا اقرار نہیں کریں گے۔ آپ نے  فرمایا: تم حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے والے انبیاء کی نبوت کا کس طرح اقرار کرتے ہو، حالانکہ انہوں نے کوئی دریا شگافتہ نہیں کیا اور  نہ کسی پتھر سے چشمے نکالے، نہ ان کا ہاتھ روشن ہوا اور نہ ہی ان کا عصا اژدھا بنا۔

راس الجالوت نے کہا: جب ایسے خارق العادہ امور کسی انسان سے ظاہر ہوں، جن کے انجام دہی سے دوسرے لوگ عاجز ہوں، اگرچہ بعینہ ایسے معجزات ہوں یا نہ ہوں، ان کی تصدیق ہم پرواجب ہو جاتی ہے۔ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی مردوں کو زندہ کرتے تھے، مادر زاد نابینا کو بینائی دیتے تھے۔ برص اور جذام والے کو شفا دیتے تھے، مٹی کی چڑیا بنا کر ہوا میں اڑاتے تھے۔ یہ وہ امور ہیں، جن سے عام لوگ عاجز ہیں، پھر تم ان کو پیغمبر اور نبی کیوں نہیں مانتے ہو۔؟ راس الجالوت نے جواب دیا: لوگ ایسا کہتے ہیں، مگر ہم نے ان کو ایسا کرتے ہوئے نہیں دیکھا ہے۔ امام نے فرمایا: کیا تم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کو بذات خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے؟ یہ بھی تو معتبر لوگوں کی زبانی متواتر طریقہ  سے سنا ہے، جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات بھی ثقہ اور معتبر لوگوں سے سنے ہیں۔ تمہیں ان کی نبوت پر ایمان لانا چاہیئے۔ بالکل اسی طرح حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت بھی ہے۔ ان کے بھی بہت سارے معجزات ہیں، جن میں سے ایک عظیم معجزہ، قرآن مجید ہے، جس کی فصاحت و بلاغت کا جواب قیامت تک کوئی نہیں دے سکے گا، یہ سن کر وہ خاموش ہوگیا۔

حوالہ جات:
۱۔ طبرسی، الاحتجاج، ج 2، ص 396
۲۔ شیخ صدوق، عيون أخبار الرضا عليه السلام، ج‏1، ص:154، باب نمبر۱۲

تبصرہ ارسال

You are replying to: .