۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
محمد جواد طبسی

حوزہ / حوزہ علمیہ کے استاد نے کہا: حقیقت میں جو سوال پوچھا جانا چاہئے وہ یہ ہے  کہ آیا مامون شیعہ اعتقادی تھا یا شیعہ سیاسی؟۔  جو شخص امام علیہ السلام کو قتل کرتا ہے اس کا یہ مذموم عمل خود اس چیز کی بہترین دلیل ہے کہ وہ شیعہ نہیں تھا البتہ پوری تاریخ میں اس قسم کے شیعہ موجود رہے ہیں خواہ  وہ ماضی میں ہوں یا آج کے دور میں جیسے "شیعہ انگلیسی" (رہبر معظم کا منافق شیعوں کو دیا گیا خطاب) ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کے نمائندہ کی رپورٹ کے مطابق، حجت الاسلام و المسلمین محمد جواد طبسی نے "امام رضا علیہ السلام کی زندگی اور شہادت کے بارے میں شکوک و شبہات کے جوابات" کے عنوان سے منعقدہ ایک انٹرنیٹ پروگرام میں کہا: مامون ابتدا ہی سے امام رضا علیہ السلام کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ ایک رات مامون نے اپنے 30 قابل اعتماد ساتھیوں کو اپنے پاس بلایا اور انہیں تیز اور زہر آلود تلواریں دیں اور کہا: "تم میں سے ہر ایک ان میں سے ایک تلوار اٹھاؤ اور علی ابن موسی کے گھر جاؤ اور اسے جس حالت میں بھی پاؤ ذرا سی غفلت اور بات کئے بغیر اسے قتل کر دو اور اس پر اس طرح تلواروں کے وار کرو کہ اس کا گوشت ، جلد ، ہڈیاں اور خون سب آپس میں مل جائیں"۔

حوزہ علمیہ کے اس استاد نے مزید کہا: وہ لوگ مامون کے حکم پر حضرت امام رضا علیہ السلام کے گھر میں داخل ہوئے اور امام علیہ السلام پر حملہ کیا جو بستر پر تھے اور اپنے خیال میں انہیں قتل کر دیا اور وہ مامون کے پاس واپس لوٹ آئے۔ اگلی صبح مامون عزاداری کے لباس میں ملبوس امام رضا علیہ السلام کے گھر جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: اچانک امام علیہ السلام کے کمرے سے ایک آواز سنائی دیتی ہے تو مامون خوف کے مارے پوچھتا ہے:" یہ کس کی آواز ہے"؟ اور فورا کمرے کی طرف جاتا ہے۔ کیا دیکھتا ہے کہ امام علیہ السلام محراب میں بیٹھے نماز و تسبیح  پڑھنے میں مصروف ہیں۔

حوزہ علمیہ کے اس محقق نے کہا: مامون نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ اپنے ناخن نہ کاٹے تاکہ معمول سے زیادہ لمبے ہو جائیں اور پھر املی جیسی چیز اسے دی کہ وہ اسے اپنے ہاتھوں پر مل لے۔ پھر مامون امام رضا علیہ السلام کے پاس گیا اور اس شخص سے کہا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے انار کا رس (بعض روایات میں انگورکا رس آیا ہے) نکالے اور پھر وہ امام رضا علیہ السلام کو مجبور کیا کہ وہ اس کو پئیں۔

حجت الاسلام و المسلمین طبسی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: امام رضا علیہ السلام تین بار اسے کہتے ہیں کہ مجھے اس کام سے معاف رکھو اور کوشش کرتے ہیں کہ اسے نہ پئیں لیکن مامون کہتا ہے کہ "آپ مجھ پر زہر دینے کا الزام لگا رہے ہو" اور ان میں سے چند وہ انگور کے دانے کھاتا ہے جن پر زہر نہیں لگا ہوا تھا۔

اس نے کہا: بلاشبہ اگر امام رضا علیہ السلام اس سے زیادہ انکارکرتے تو معاملہ مزید پیچیدہ اور حساس ہو جاتا اور اس کے مزید نتائج برآمد ہوتے مثال کے طور پر وہ کہتے کہ امام علیہ السلام خلیفہ کو قتل کر کے اس کی جگہ لینا چاہتے ہیں وغیرہ۔

حجت الاسلام و المسلمین طبسی نے کہا: جب تک امام رضا علیہ السلام کو شہید نہیں کیا گیا  اس بات کے واضح ثبوت موجود ہیں کہ مامون نے امام علیہ السلام کو ایک لحظہ بھی آرام نہیں کرنے دیا اور امام رضا علیہ السلام کو قتل کرنے کی مسلسل کوششیں کرتا رہا۔

انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ امام رضا علیہ السلام انگور یا انار میں موجود زہر سے واقف تھے لیکن انہیں اسے استعمال کرنے پر مجبور کیا گیا، کہا: ایک اور دلیل جس کی بنا پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام علیہ السلام کو معلوم تھا کہ وہ شہید ہو جائیں گے وہ یہ ہے کہ جب مامون ایک شخص کو مدینہ بھیجتا ہے کہ وہ امام علیہ السلام کو اس کے پاس لے جائے تو امام رضا علیہ السلام آنے سے پہلے اپنے جد کی قبر کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے ہیں اور وہاں مسلسل گریہ کرتے ہیں اور اپنے جد سے وداع کرتے ہیں اور جب ان سے اس گریہ و زاری کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو فرماتے ہیں "یہ میرا آخری سفر ہے اور میں اب واپس نہیں آؤں گا"۔

حوزہ علمیہ کے اس استاد نے کہا:امام رضا علیہ السلام اپنے سفر سے پہلے اپنے تمام اہل و عیال کو جمع کرتے ہیں اور اموال کو ان کے درمیان تقسیم کرتے ہیں اور فرماتے ہیں "مجھ پر گریہ کرو" خاندان والوں نے کہا: "مسافر کے پیچھے سے اس پر گریہ کرنا درست نہیں ہے" تو امام علیہ السلام نے فرمایا "جس مسافر نے لوٹ کر ہی نہ آنا ہو اس کے لئے گریہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے"۔

 حجت الاسلام و المسلمین طبسی نے اس شبہ کے جواب میں کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ مامون شیعہ تھا اور اس نے شیعہ ہونے کے باوجود امام رضا علیہ السلام کو قتل کیا ، کہا: یہ داستان اہل کوفہ کی کہانی سے ملتی جلتی ہے جس میں کہا گیا کہ شیعوں نے ہی امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا جبکہ امام حسین علیہ السلام نے خود فرمایا تھا کہ "یہ ابو سفیان کے شیعہ ہیں" جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لوگ اہلبیت علیہ السلام کے شیعہ نہیں تھے۔

حوزہ علمیہ کے اس استاد نے کہا: حقیقت میں جو سوال پوچھا جانا چاہئے وہ یہ ہے  کہ آیا مامون شیعہ اعتقادی تھا یا شیعہ سیاسی؟۔  جو شخص امام علیہ السلام کو قتل کرتا ہے اس کا یہ مذموم عمل خود اس چیز کی بہترین دلیل ہے کہ وہ شیعہ نہیں تھا البتہ پوری تاریخ میں اس قسم کے شیعہ موجود رہے ہیں خواہ  وہ ماضی میں ہوں یا آج کے دور میں جیسے "شیعہ انگلیسی" (رہبر معظم کا منافق شیعوں کو دیا گیا خطاب) ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .