حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ العظمی شبیری زنجانی نے امام جواد علیہ السلام کی شہادت کی مناسبت سے اپنے ایک تحریری بیان میں اس عظیم امام ع کی علمی اور عملی سیرت پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
محمد بن ریان روایت کرتے ہیں کہ خلیفہ مأمون نے امام جواد علیہ السلام کو دنیا پرست اور لہو و لعب کا دلدادہ ظاہر کرنے کے لیے ہر طرح کی چالاکی آزمائی، لیکن ناکام رہا۔ جب وہ مایوس ہوگیا، تو اپنی بیٹی کے ساتھ امام کی شادی کی رات ایک منصوبہ بنایا۔ اس نے دو سو حسین و جمیل کنیزیں تیار کیں، جن کے ہاتھوں میں جام تھے اور ہر جام میں ایک قیمتی گوہر رکھا گیا تھا، تاکہ جیسے ہی امام جواد علیہ السلام مخصوص نشست پر جلوہ افروز ہوں، وہ سب ان کے استقبال میں آئیں۔ لیکن امام علیہ السلام نے ان میں سے کسی پر بھی کوئی توجہ نہ دی۔
اسی موقع پر ایک شخص لایا گیا جس کا نام "مُخارق" تھا۔ وہ ساز بجانے والا اور گانے بجانے میں ماہر تھا۔ لمبی داڑھی رکھتا تھا اور اپنی موسیقی سے محفلوں کو گرماتا تھا۔ مأمون نے اُسے بلایا۔ مخارق نے کہا: "اگر بات دنیاوی کاموں کی ہے، تو میں اس کا ماہر ہوں"۔ اس کا مقصد تھا کہ وہ امام کو موسیقی اور کھیل تماشے میں مشغول کر دے۔
مخارق، امام جواد علیہ السلام کے سامنے بیٹھ گیا اور بلند آواز میں گانے لگا۔ اس کی آواز سن کر گھر کے سب لوگ جمع ہوگئے۔ وہ عود بجانے اور گانے میں مشغول رہا، لیکن امام علیہ السلام نے نہ تو اس کی طرف دیکھا اور نہ ہی دائیں یا بائیں جانب توجہ دی۔ کچھ وقت بعد امام نے اپنا سر اٹھایا اور اس سے فرمایا:«اتَّقِ اللَّهَ یَا ذَا الْعُثْنُونِ
"اے لمبی داڑھی والے! خدا سے ڈر۔"
بس اتنا کہنا تھا کہ مخارق کے ہاتھ سے ساز گر گیا، اور وہ ایسا لرزا کہ کبھی صحتیاب نہ ہوسکا۔ وہ اپنی زندگی کے باقی دنوں میں اس ہاتھ سے کوئی کام نہ کر سکا۔
جب مأمون نے اس سے پوچھا کہ تمھیں کیا ہوگیا؟ تو مخارق نے کہا: "جس لمحے حضرت امام جواد علیہ السلام نے مجھ پر جلال کے ساتھ فریاد کی، ایسی وحشت اور خوف میں مبتلا ہوگیا کہ آج تک نہیں سنبھل سکا۔"
کافی، ج۱، ص۴۹۴، ح۴









آپ کا تبصرہ