۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
جواد الائمہ

حوزہ/ حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی دختر نیک اختر اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی خواہر گرامی جناب حکیمہ سلام اللہ علیہا نے بیان کیا کہ جب حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کا وقت نزدیک آیا تو میرے برادر عالی مقام حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے مجھے اور ایک دائی خاتون کو اس حجرہ میں بھیجا جہاں آپ کی زوجہ گرامی جناب خیزران سلام اللہ علیہا تھیں....

ترتیب و ترجمہ:مولانا سید علی ہاشم عابدی

حیرت انگریز منظر

حوزہ نیوز ایجنسیحضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کی دختر نیک اختر اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی خواہر گرامی جناب حکیمہ سلام اللہ علیہا نے بیان کیا کہ جب حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی ولادت با سعادت کا وقت نزدیک آیا تو میرے برادر عالی مقام حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے مجھے اور ایک دائی خاتون کو اس حجرہ میں بھیجا جہاں آپ کی زوجہ گرامی جناب خیزران سلام اللہ علیہا تھیں۔ آدھی رات گذر رہی تھی کہ اچانک حجرہ کا چراغ بجھ گیا اور پورا حجرہ تاریک ہو گیا۔ خوف و حیرت نے دل کو پریشان کر دیا کہ ایسے حساس موقع پر اب کیا ہوگا؟
تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ حضرت جواد الائمہ علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہو گئی اور آپ کے نور سے حجرہ منور ہو گیا۔
میں نے جناب خیزران سلام اللہ علیہا کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے مبارک فرزند کے نور نے ہم سب کو چراغ کے نور سے بےنیاز کر دیا ہے۔
جب صبح ہوئی تو امام علی رضا علیہ السلام تشریف لائے اور اپنے نور نظر کو آغوش میں لیا اور کچھ دیر بعد نومولود کو گہوارہ میں رکھتے ہوئے فرمایا: ائے حکیمہ! کوشش کرو کہ ہمیشہ اسی کے پاس رہو۔
جناب حکیمہ سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ جب تیسرا دن آیا تو امام محمد تقی علیہ السلام نے آسمان کی جانب نظر اٹھائی، داہنے اور بائیں دیکھا اور فصاحت کے ساتھ زبان پر یہ کلمہ جاری کیا۔ أشهد أن لا إله إلاّ اللّه، وحده لا شریک له، و أنّ محمّدا عبده و رسوله
جسے دیکھ کر مجھے بہت تعجب ہوا اور میں اپنے بھائی حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی خدمت میں پہنچی اور پورا ماجرا بیان کیا تو امام رووف علیہ السلام نے فرمایا: آئندہ بھی ایسے ہی معجزات دیکھو گی۔
( مناقب ابن شهرآشوب: 4/ 394؛ الثّاقب فى المناقب: 514.)

چشم زدن میں طولانی سفر

علی بن خالد سے روایت ہے کہ عباسی حاکم معتصم کے زمانے میں ایک شخص کو نبوت کا دعویٰ کرنے کے الزام میں گرفتار کر کے قید خانہ میں ڈال دیا گیا۔ مجھے اشتیاق ہوا کہ اس قیدی سے ملاقات کروں لہذا قید خانہ گیا اور داروغہ زندان کو کچھ رقم دی تا کہ وہ مجھے اس قیدی سے ملا دے۔ جب اس قیدی سے ملا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ تو بہت سمجھدار اور عقلمند انسان ہے۔ اس سے پوچھا تم کون ہو اور تمہارا کیا دعویٰ ہے؟
قیدی نے کہا کہ میں شام کا رہنے والا ہوں اور وہاں مقام راس الحسین علیہ السلام پر عبادت و مناجات کرتا تھا۔ ایک دن مصروف عبادت تھا کہ ایک عرب نوجوان میرے پاس آیا اور بولا کہ اٹھو اور میرے ساتھ چلو۔ میں اٹھا اور چند قدم ہی چلا تھا کہ خود کو مسجد کوفہ میں پایا۔ اس جوان نے پوچھا کہ اس جگہ کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں! مسجد کوفہ ہے۔ انہوں نے نماز پڑھی اور میں نے بھی نماز پڑھی۔ نماز کے بعد مسجد کے باہر نکلا تو خود کو مسجد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ میں پایا۔ ہم دونوں روضہ رسول صلی اللہ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں داخل ہوئے۔ انہوں نے حضور کی خدمت میں سلام عرض کیا اور نماز پڑھی، میں نے بھی سلام عرض کیا اور نماز پڑھی۔ وہاں سے نکلے تو خود کو مسجد الحرام مکہ مکرمہ میں پایا۔ ہم نے طواف کیا اور نماز پڑھی۔ وہاں سے نکلے تو خود مقام راس الحسین علیہ السلام شام میں پایا۔
اس واقعہ نے مجھے اندر سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا کہ آخر وہ جوان کون تھا جس نے پلک جھپکنے میں طولانی سفر کرا دیا۔ اسی کشمکش میں ایک سال بیت گئے اور دوسرے سال عین اسی وقت وہ جوان پھر آیا اور سال گذشتہ کی تکرار کی۔ جب جانے لگے تو میں نے قسم دے کر پوچھا آپ ہیں کون؟ فرمایا: میں محمد بن علی بن موسیٰ الرضا (علیہم السلام) ہوں۔ دوسرے دن میں نے یہ بات اپنے دوستوں کو بطور راز بتائی لیکن انہوں نے فاش کر دیا اور معتصم کے وزیر محمد بن عبدالملک زیات کو معلوم ہو گئی اور اس نے مجھے نبوت کے دعویٰ کے بے بنیاد الزام میں گرفتار کرا کر قید خانہ میں ڈلوا دیا۔ میں نے اس کو حقیقت حال سے آگاہ تو اس نے میرا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ اس کو آزاد کردو تا کہ ایک رات میں شام سے کوفہ، مدینہ و مکہ کا سفر کر کے واپس شام آ جائے۔
علی بن خالد کہتے ہیں کہ جب میں دوبارہ اس قیدی سے ملنے قید خانہ گیا تو دیکھا کہ قیدخانہ پر مامور حفاظتی عملہ حیران و پریشان ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا ہوا تو وہ لوگ کہنے لگے کہ وہ قیدی جسے نبوت کے دعویٰ کے الزام میں گرفتار کیا تھا وہ رات سے غایب ہے۔ جب کہ اس کے ہاتھ پیر زنجیر سے بندھے تھے اور قید خانہ کا دروازہ بھی بند تھا۔
میں سمجھ گیا کہ بے گناہ قیدی کو نجات اسی نے دلائی ہے جس نے چشم زدن میں شام سے کوفہ، مدینہ و مکہ کی سیر کرائی تھی۔ یعنی حضرت جواد الائمہ امام محمد تقی علیہ السلام۔
(اصول کافی: 1/492؛ بحارالانوار: 50/38)

لوگوں کے باطن سے آگاہی

اہلبیت علیہم السلام کی ولایت کے ایک مخالف محمد بن علی هاشمی کا بیان ہے کہ جس دن امام محمد تقی علیہ السلام کی مامون کی بیٹی ام الفضل سے شادی ہوئی تھی، اس رات میں نے ایک دوا پی تھی جس سے پیاس کا بار بار احساس ہو رہا تھا۔ صبح میں جب میں امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا تو پیاس کا پھر احساس ہوا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ آپ سے پانی طلب کروں۔ لیکن جیسے ہی امام علیہ السلام نے میری جانب دیکھا تو فرمایا کہ تم پیاسے معلوم ہوتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔
آپ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ پانی لاؤ۔ لیکن میرے دل میں خیال آیا، جس نے مجھے پریشان کر دیا کہ کہیں اس پانی میں زہر تو نہیں ہے۔ جیسے ہی غلام پانی لایا تو آپ نے مسکراتے ہوئے اس سے پانی لیا پہلے تھوڑا خود پیا پھر مجھے دیا۔
تھوڑی دیر بعد مجھے پھر پیاس کا احساس ہوا تو امام علیہ السلام نے میرے کہے بغیر غلام سے پانی منگوایا تو پھر دل میں خیال آیا کہ کہیں اس پانی میں زہر نہ ہو۔ لیکن جیسے ہی غلام پانی لایا، آپ نے اس سے پھر پانی لیا۔ پہلے تھوڑا خود پیا بعد میں مسکراتے ہوئے مجھے دے دیا۔
محمد بن علی ہاشمی کہتے ہیں کہ یہ منظر دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ شیعوں کا یہ عقیدہ صحیح ہے کہ امام انسانوں کے باطن اور دلوں کے حالات سے آگاہ ہوتے ہیں۔
(اصول کافی: 1/495؛ کشف الغمة: 2/360؛ محجه البیضاء، 4/303)

عصا نے امامت کی گواہی دی

یحیی بن اکثم کا بیان ہے کہ ایک دن میں نے امام محمد تقی علیہ السلام سے مختلف سوالات پوچھے اور آپ نے ان سب کے جوابات دئیے تو میں نے انکی خدمت میں عرض کیا کہ آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں لیکن مجھے شرم آتی ہے؟
امام محمد تقی علیہ السلام نے فرمایا: تمہارے پوچھے بغیر ہی میں جواب دوں گا۔ تم یہی پوچھنا چاہتے ہو کہ امام کون ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں میرا یہی سوال ہے تو آپ نے فرمایا: میں امام ہوں۔
یحیی بن اکثم نے پوچھا کہ آپ کی امامت کی دلیل کیا ہے؟ امام محمد تقی علیہ السلام کے دست مبارک میں جو عصا تھا وہ قدرت خدا سے گویا ہوا کہ یہ میرے مولا ہیں جو اس زمانے میں امام اور اللہ کی حجت ہیں۔
(کافی، ج 1، ص 353)

مدینہ میں رہنا زیادہ محبوب ہے

حسین مکاری کا بیان ہے کہ میں بغداد میں امام محمد تقی علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا۔ مامون عباسی کی بیٹی ام الفضل سے شادی کے سبب اس وقت شاہی دربار میں آپ کا قیام تھا۔ شاہی دربار کے ظاہری آسائش و سہولیات کو دیکھتے ہوئے مجھے احساس ہوا کہ اب آپ کبھی بھی مدینہ واپس نہیں جائیں گے۔
امام جواد علیہ السلام کچھ دیر تک سر جھکائے رہے پھر سر بلند کیا اور فرمایا: ائے حسین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جوار (مدینہ منورہ) میں جو کی روٹی اور نمک مجھے زیادہ پسند ہے اس ظاہری آسائش کی زندگی سے جو تم مشاہدہ کر رہے ہو۔
(بحار الانوار، ج 50، ص 48، ح 25)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .