حوزہ نیوز ایجنسی। محترم فرمان علی سعیدی شگری نے حضرت امام جواد علیہ السلام کی ولادت کی مناسبت سے " امام محمد تقی ؑ (جواد الائمہؑ) کی سیاسی زندگی پر ایک نظر" کے عنوان پر تحریر پیش کی ہے جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
ابتدائیہ:
ایک لاکھ چوبیس ہزار پیامبر اور ائمہ اطہار ؑ کی زندگی ہمارے لئے نمونہ عمل ہے۔ جیسا کہ خداوند قرآن کریم میں فرماتا ہے: لَقَدْ كانَ لَكُمْ فِی رَسُولِ اللَّہ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كانَ یرْجُوا اللَّہ وَ الْیوْمَ الْآخِرَ وَ ذَكَرَ اللَّہ كَثِیراً۔ مسلمانو ! تم میں سے اس کے لئے رسول کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے جو شخص بھی اللہ اور آخرت سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے اور اللہ کو زیادہ یاد کرتاہے۔
رسول خدا اور ائمہ کی حیات طیبہ ہمارے لئے زندگی کے تمام امور (عبادی، سماجی، اخلاقی، سیاسی، ثقافتی) میں نمونہ عمل ہے اور ان کی سیرت پڑھتے ہوئے تمام مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے کیونکہ شیعوں کے لئے معصومینؑ کی ڈھائی سو سالہ زندگی (یعنی سنہ 11 ہجری سے لےکر262 ہجری تک کا زمانہ) کے دوران میں مختلف قسم کے واقعات اور حادثات رونما ہوئے اور ہمارے ائمہؑ نے اپنی پوری زندگی (جان و مال) کو اسلام کےلئے قربان کردیا لیکن اسلام پر ذرہ برابر آنچ نہیں آنے دی اور شیعوں کے لئے ایک امتیاز یہ ہے کہ ان کےلئے ڈھائی سو سالہ، معصومانہ زندگی، نمونہ کے طور پر موجود ہے جسے اپنے لئے لائحہ عمل قرار دیا جا سکتا ہے ۔
آج کے اس پر آشوب دور میں جہاں دین اسلام اور مکتب حق کے خلاف ہر قسم کے حربے استعمال کئے جارہے ہیں تاکہ غیرتمند عوام اور بالخصوص جوانوں کو راہ حق سے منحرف کر دیا جائے۔ اگر ہم حقیقی معنوں میں ثقلین (قرآن اور عترت) کے پیروکار ہیں اور دونوں جہاں (دنیا وآخرت) میں سرخرو ہونا چاہتے ہیں تو آئیں پیغمبر ختمی مرتبت کے گوہر بار کلمات پر عمل کریں کہ جس میں آپ نے فرمایا تھا : وَ بِإِسْنَادِہ عَنْ عَلِی قَالَ: قَالَ النَّبِی إِنِّی تَارِكٌ فِیكُمُ الثَّقَلَینِ كِتَابَ اللَّہ وَ عِتْرَتِی وَ لَنْ یفْتَرِقَا حَتَّى یرِدَا عَلَی الْحَوْض۔ میں تمہارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑرہا ہوں، ایک خدا کی کتاب ہے دوسرے میرے اہل بیتؑ ہے۔
اہل بیت ؑ میں سے ایک امام محمد تقیؑ ہیں کہ آپ ؑ دیگر ائمہؑ کی طرح ہمارے پیشوا،مقتدا اورہمارے لئے نمونۂ عمل ہیں۔ امام محمد تقی ؑنے اپنی مختصر سی زندگی میں کفر اور طاغوت کے ساتھ جہاد کیا اور آپ کے حالاتِ زندگی شیعوں کے لئے خاص اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ آپؑ کم عمری میں امامت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوئے۔ امامؑ کے مخالفین نے اس کم عمری کو بہانہ بناتے ہوئے امامت کے بارے میں شیعوں کے درمیان شک و شبہات پھیلائے تا کہ لوگوں کو امامؑ سے دور کردیں لیکن امامؑ نے اپنے علمِ امامت سے مختصرسے عرصے میں دشمنوں کی ان ناپاک سازشوں کو خاک میں ملا دیا اور ان شبہات کے مضبوط علمی جواب دےکر شیعوں کے شبہات کو ختم کیا۔ ہم نے اس تحقیق میں امام محمد تقی ؑ کی زندگی کے سیاسی پہلو پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے تاکہ اپنی سیاسی مشکلات کو حل کرنے کےلئے مدد لے سکے۔
امام محمد تقی (جواد الائمہؑ) کی ولادت :
محمد بن علی بن موسی الرضاؑشیعوں کے نویں پیشوا اور اپنے جد امجد کی امت کے ہدایت کے لئے خدا کی طرف سے انتخاب ہوئے۔ کلینی، شیخ مفید اور شیخ طوسی نے ماہ مبارک رمضان، 195 ہجری کو آپ کی ولادت کا مہینہ قرار دیا ہے ۔ آپ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور آپؑ پچیس سال کی عمر میں 220 ہجری کو شہر بغداد میں شہیدہوئے۔ آپؑ کی امامت اور جانشینی کی مدت سترہ سال ہے۔ آپ کی والدہ کنیز،اور ان کا نام سبیکہ اور نوبہ کے ر ہنے والی تھیں۔ حضرت امام رضاؑ کی عمر مبارک کے چالیس سال گزر چکے تھے لیکن کوئی اولاد نہ تھی اور یہ بات شیعوں کےلئے کافی پریشان کن تھی کیونکہ حضرت رسول خدا اور ائمہؑ سے جو روایات نقل ہوئی تھیں اس کی روشنی میں نویں امامؑ آٹھویں امامؑ کے ہی فرزند ہو ں گے۔ لہذا انہیں اس بات کا سخت انتظار تھا کہ خداوند عالم حضرت امام رضاؑ کو جلد ایک فرزند سے نوازے، اس لئے کبھی امام رضاؑ کی خدمت میں شرفیاب ہو کر اس بات کی درخواست کر تے تھے کہ وہ خدا سے دعا مانگیں کہ خداوند عالم انہیں ایک فرزند عنایت فرمائے لیکن امامؑ ان کو تسلی دیتے تھے کہ “خدواند عالم مجھے ایک فرزند عطا کرے گا اور وہ میرے بعد امام ہو گا”۔ بعض روایات کے مطابق 10 رجب 195ھ کو امام محمد تقی ؑ کی ولادت ہوئی۔ آپ کا اسم مبارک “محمد” کنیت “ابو جعفر” اور آپ کے مشہور القاب “تقی” اور “جواد” ہیں۔
آپ کی ولادت شیعوں کے لئے باعث خوشی:
آپ کی ولادت شیعوں کے لئے خوشی و مسرت اور ایمان و اعتقاد میں استحکام کا سبب قرار پائی کیونکہ ولادت میں تاخیر کی وجہ سے بعض شیعوں جو شک و شبہات پیدا ہو رہے تھے وہ ختم ہو گئے۔ امام جوادؑ کی والدہ کا اسم گرامی “سبیکہ” تھا لیکن امام رضاؑ نے آپ کا نام “خیزران” رکھا۔ آپ رسول خدا کی زوجہ محترمہ جناب “ماریہ قبطیہ” کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔
امام رضاؑ کی ہمشیرہ جناب “حکیمہ” کا بیان ہے کہ امام محمد تقیؑ کی ولادت کے موقع پر میرے بھائی نے مجھ سے کہا کہ میں “خیزران” کے پاس رہوں۔ ولادت کے تیسرے دن نو مولود نے آنکھیں کھولیں، آسمان کی طرف دیکھا اور داہنے بائیں نگاہ کی اور فرمایا: “اشہد ان لاالہ الا اللہ و اشہد ان محمد ا رسول اللہ” یہ دیکھ کر میں سخت حیران ہوئی اور اپنے بھائی کی خدمت میں حاضر ہوئی، جو کچھ دیکھا تھا اسے بیان کیا۔ امامؑ نے فرمایا “جو چیزیں اس کے بعد دیکھو گی وہ اس سےکہیں زیادہ عجیب ہوں گی” ۔ “أَخْبَرَنِی أَبُو الْقَاسِمِ جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ یعْقُوبَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِی عَنْ أَبِی یحْیى الصَّنْعَانِی قَالَ كُنْتُ عِنْدَ أَبِی الْحَسَنِ فَجِیءَ بِابْنِہ أَبِی جَعْفَرٍ وَہوَ صَغِیرٌ فَقَالَ ہذَا الْمَوْلُودُ الَّذِی لَمْ یولَدْ مَوْلُودٌ أَعْظَمُ عَلَى شِیعَتِنَا بَرَكَةً مِنْہ”۔
“ابو یحیی صنعانی” کا بیان ہے کہ میں امام رضا ؑ کی خدمت اقدس میں تھا، اتنے میں امام جوادؑ،جو اس وقت کم سن تھے،امامؑ کی خدمت میں لائے گئے۔ امامؑ نے فرمایا “یہ وہ مولود ہے جس سے زیادہ مبارک تر کوئی مولود شیعوں کے لئے دنیا میں نہیں آیا ہے”۔
“نوفلی” کا بیان ہے کہ جس وقت امام رضاؑ خراسان تشریف لے جار ہے تھے اس وقت میں نے امامؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ میرے لائق کوئی خدمت یا کوئی پیغام تو نہیں ہے ؟ فرمایا “تم پر واجب ہے کہ میرے بعد میرے فرزند “محمد” کی پیروی کرو اور میں ایسی سفر پر جا رہا ہوں جہاں سے میری واپسی نہیں ہوگی”۔
امام رضا ؑ کے کاتب " محمد بن ابی عباد " کا بیان ہے کہ حضرت ہمیشہ اپنے فرزند " محمد " کو کنیت سے یاد فرماتے تھے۔ جس وقت امام جوادؑ کا خط آتا تھا تو آپ فرماتے تھے کہ "ابو جعفر نے مجھے یہ لکھا ہے" اور جس وقت (امام کے حکم سے) ابو جعفر کو خط لکھتا تھا تو امام بہت ہی بزرگی اور احترام کے ساتھ ان کو مخاطب فرماتے تھے۔ امام جوادؑ کے جو خطوط آتے تھے وہ فصاحت و بلاغت اور ادب کی خوبصورتی سے بھر پور ہوتے تھے۔ " محمد بن عباد " سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام رضا کو فرماتے سنا کہ : "میرے بعد میرے خاندان میں ابو جعفر میرے وصی اور جانشین ہوں گے "۔ "معمر بن خلاد " کی روایت ہے کہ : امام رضاؑ نے کسی چیز کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے یہ بات مجھ سے سنو۔ یہ ابو جعفر ہیں یہ میرے جانشین ہیں ان کو میں نے اپنی جگہ قرار دیا ہے (یہ تمہارے تمام سوالات اور مسائل کا جواب دیں گے) ہم اس خاندان سے ہیں جہاں بیٹا باب سے (حقائق و معارف کی) بھر پور میراث حاصل کرتا ہے۔(مطلب یہ ہے کہ اسرار و رموز امامت ایک امام دوسرے امام سے حاصل کرتا ہے اور یہ خصوصیت صرف امامون کے لئے مخصوص ہے۔ ائمہؑ کے دوسرے فرزندوں سے نہیں)۔
"خیرانی" نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ میں خراسان میں حضرت امام رضاؑ کی خدمت اقدس میں موجود تھا۔ ایک شخص نے حضرت سے دریافت کیا کہ اگر آپ کو کو کوئی حادثہ پیش آجائے تو اس وقت ہم کس کی طرف رجوع کریں ؟ فرمایا:“میرے فرزند ابو جعفر کی طرف”۔ سائل امام محمد تقی ؑ کے سن و سال کو کافی نہیں سمجھ رہا تھا (اور یہ سوچ رہا کہ شاید ایک بچہ امامت کی ذمّہ داریوں کو نہیں نبھا سکتا ہے) اس وقت امام رضاؑ نے ارشاد فرمایا کہ:“خداوند عالم نے جناب عیسیؑ کو رسالت و نبوت کے لئے منتخب فرمایا جبکہ ان کا سن ابو جعفر کے سن سے کم تھا”۔ “عبد اللہ بن جعفر” کا بیان ہے کہ میں صفوان بن یحیی کے ہمراہ امام رضاؑ کی خدمت میں شرفیاب ہوا۔ امام تقیؑ بھی وہاں تشریف فرماتھے اس وقت آپ تین سال کے تھے۔ ہم نے امام رضاؑ سے پوچھا اگر کوئی حادثہ پیش آجائے تو اس صورت میں آپ کا جانشین کون ہوگا۔؟ امامؑ نے ابو جعفر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ “میرا یہ فرزند”۔ عرض کیا۔ اسی سن و سال میں؟ فرمایا : ہاں اسی عمر میں۔ خداوند عالم نے جناب عیسی کو اپنی حجت قرار دیا جبکہ وہ تین سال کے بھی نہیں تھے۔
امام محمد تقیؑ کی امامت:
امامت بھی نبوّت کی طرح ایک عطیہ الٰہی ہے جسے خدا اپنے منتخب و برگزیدہ اور شائستہ بندوں کو عطا فرماتا ہے اور اس عطا میں سن و سال کی کوئی قید و شرط نہیں ہے۔ وہ لوگ جو نبوّت و امامت کو بچپن کے ساتھ نا ممکن خیال کرتے ہیں وہ ان الٰہی و آسمانی مسائل کو معمولی اور عادی باتوں پر قیاس کرتے ہیں جبکہ نبوّت اور امامت کا تعلق خداوند عالم کے ارادے و مشیت سے ہے۔ خداوند عالم اپنے بندوں میں سے جس کو شائستہ سمجھتا ہے اسے لامحدود علم عطا کردیتا ہے۔ لہذا ممکن ہے کہ خداوند عالم بعض مصالح کی بناء پر تمام علوم ایک بچے میں ودیعت کردے اور اسے بچپنے ہی میں نبوّت یا امامت کے عہدے پر فائز کردے۔ ہمارے نویں امام محمد تقیؑ آٹھ یا نو سال کی عمر میں امامت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔ " معلّی بن احمد " کی روایت ہے کہ : امام رضا ؑ کی شہادت کے بعد میں نے امام تقی ؑ کی زیارت کی اور آپ کے خد وخال ، قد و اندام پر غور کیا ، تاکہ لوگوں کے لئے بیان کر سکوں، اتنے میں امام محمد تقیؑ نے ارشاد فرمایا : "اے معلّی " خداوند عالم نے نبوّت کی طرح امامت کے لئے بھی دلیل پیش کی ہے “یا یحْیى خُذِ الْكِتابَ بِقُوَّةٍ وَ آتَیناہ الْحُكْمَ صَبِیا”، یحیی کتاب کو مظبوطی سے پکڑلو اور ہم نے انہیں بچپنے ہی میں یحیی کو نبوّت عطا کردی۔
“محمد بن حسن بن عمار” کی روایت ہے کہ : “میں دوسال سے مدینہ میں” علی بن جعفر کی خدمت میں حاضر ہوتا اور وہ روایتیں لکھتا تھا جسے وہ اپنے بھائی امام موسی بن جعفرؑ سے ہمارے لئے بیان کرتے تھے، ایک دن ہم مسجد نبوی میں بیٹھے ہوے تھے، اتنے میں امام جوادؑ تشریف لائے، ان کو دیکھتے ہی علی جعفر برہنہ پا اور بغیر عبا کے احترام کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے ہاتوں کا بوسہ لیا۔ امام نے فرمایا : چچا جان آپ تشریف رکھیں، خدا آپ پر رحمتیں نازل فرمائے ۔ عرض کیا۔ “آقا میں کیونکر بیٹھ سکتا ہوں جبکہ آپ کھڑے ہوئے ہیں”۔ جب علی بن جعفر واپس آئے تو ان کے دوستوں اور ساتھیوں نے ان سے کہا کہ آپ اس سن میں ایک بچے کا اس قدر احترام کرتے ہیں۔ علی بن جعفر نے کہا۔ خاموش رہو ( اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیرے ہوے فرمایا) جب خداوند عالم نے اس سفید داڑھی کو امامت کے لائق نہیں سمجھا اور اس جوان کو اس کے لئے سزاوار قرار دیا۔ تو (تم یہ چاہتے ہو) میں ان کی فضلیت کا انکار کروں ؟ میں تمہاری باتوں کے بارے میں خدا سے پناہ مانگتا ہوں۔ میں تو اس کا ایک بندہ ہوں ۔
“ وَ رُوِی عَنْ عُمَرَ بْنِ فَرَجٍ الرُّخَّجِی قَالَ قُلْتُ لِأَبِی جَعْفَرٍ إِنَّ شِیعَتَكَ تَدَّعِی أَنَّكَ تَعْلَمُ كُلَّ مَاءٍ فِی دِجْلَةَ وَ وَزْنَہ وَ كُنَّا عَلَى شَاطِئِ دِجْلَةَ فَقَالَ لِی یقْدِرُ اللَّہ تَعَالَى أَنْ یفَوِّضَ عِلْمَ ذَلِكَ إِلَى بَعُوضَةٍ مِنْ خَلْقِہ أَمْ لَا قُلْتُ نَعَمْ یقْدِرُ فَقَالَ أَنَا أَكْرَمُ عَلَى اللَّہ تَعَالَى مِنْ بَعُوضَةٍ وَ مِنْ أَكْثَرِ خَلْقِہ”۔ “عمر بن فرج” کا بیان ہے کہ میں حضرت امام جوادؑ کے ساتھ دریائے دجلہ کے کنار کھڑا تھا ، میں نے حضرت کی خدمت میں عرض کیا :۔ “ آپ کے شیعہ کہتے ہیں کہ آپ دجلہ کے پانی کا وزن جانتے ہیں”۔ فرمایا: “ کیا خدا اس بات پر قادر ہے کہ ایک مچھر کو دجلہ کے پانی کے وزن کا علم عطا کردے۔؟ “عرض کیا : ہاں خدا قادر ہے”۔ فرمایا : “میں خدا کے نزدیک مچھر اور اس کی اکثر مخلوقات سے کہیں زیادہ عزیز ہوں” ۔
“علی بن حسان واسطی” کا بیان ہے کہ میں (امامؑ کی کم سنی کا خیال کرتے ہوے) کچھ کھیل کا سامان لے کر بطور تخفہ امام کی خدمت میں پیش کرنے کے لئے حاضر خدمت ہوا۔ ( لوگ امام سے اپنے مسائل دریافت کررہے تھے اور امامؑ ہر ایک کا جواب دے رہے تھے) جب ان کے سوالات تمام ہوگئے اور وہ سب چلے گئے تو امام تشریف لے جانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ، میں بھی امام کے ہمراہ ہو لیا۔ امام کے خادم کے ذریعہ اجازت حاصل کرکے ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سلام کیا، امام نے سلام کا جواب دیا۔ امام کچھ ناراض معلوم ہورہے تھے ، مجھے بیٹھنے کی اجازت نہیں دی۔ آگے بڑھ کر میں نے کھیل کود کا سامان ان کے سامنے رکھ دیا۔ امام نے مجھ پر ایک نظر کی اور سارا سامان ادھر ادھر پھینک دیا۔ اور فرمایا: “خدا نے مجھے کھیل کود کے لئے پیدا نہیں کیا ہے، مجھے اس سے کیا کام”۔ میں نے تمام چیزیں سمیٹ لیں اور حضرت سے معذرت طلب کی اور حضرت نے معاف کردیا، پھر میں واپس آگیا۔
امام جوادؑ وہ امام ہے کہ جس کی امامت نے حضرت عیسی و یحییؑ کی نبوّت کی صداقت کو مستحکم کردیا۔ جس نے ثابت کردیا کہ نبوّت اور امامت سن و سال میں مقید نہیں ہے۔ جس نے بھرے دربار میں غرور کا سر کچل دیا۔ لیکن افسوس ! بعض افراد امام محمد تقی ؑ کے بچپنے اور کم سنی کو بہانہ بنا کرامام کی امامت کو شک و تردید کی نگاہ سےدیکھتے ہیں اور اعتراض کرتے ہیں اور اہل بیت عصمت و طہارت کے بچوں کو عالم لوگوں کے بچوں کے ساتھ مقایسہ کرتے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی کم فہمی ہے کیونکہ قرآن میں ہمیں صراحت سے ملتا ہے کہ جناب یحییؑ کو بچپنے میں اور جناب عیسیؑ کو گہوارے ہی میں نبوت کا منصب مل گیا تھا۔ “یا یحْیى خُذِ الْكِتابَ بِقُوَّةٍ وَ آتَیناہ الْحُكْمَ صَبِیاہ قالُوا كَیفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِی الْمَہدِ صَبِیا قالَ إِنِّی عَبْدُ اللَّہ آتانِی الْكِتابَ وَ جَعَلَنی نَبِیا” اے یحیی ! کتاب کو مظبوطی سے پکڑو اور ہم نے اسے بچپن ہی میں علم و حکمت سے نوازا۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم نے اس سے کس طرح بات کریں گے جو ابھی گہوارہ میں ( کمسن) بچہ ہے ؟ ( مگر) وہ بچہ بولا : میں اللہ کا بندہ ہوں اس نے مجھے کتاب عطا کی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے۔ یہ ان لوگوں کی کج فکری اور عقل سے انحراف ہے، پس قرآن کریم کی آیتیں، اعتراض کرنے والوں کےلئے منہ توڑ جواب ہے۔
یہ اعتراض ان کی بھر پور جہالت کی عکاسی کرتا ہے کہ 8 یا 9 سال کی عمر میں کیسے حضرت امام جوادؑ “امام” ہو گئے؟۔ حضرت امام ابو جعفر محمد بن علی الجوادؑ اپنے پدر بزرگوار حضرت امام علی رضاؑ کی شہادت کے بعد امام ہوئے۔ آپ کی امامت کے بارے میں گزشتہ ائمہؑ اور امام رضاؑ نے وضاحت کردی تھی کہ آٹھویں امام کے بعد آپ ہی نویں امام اور زمین پر خدا کی حجت ہوں گے۔ آپ کی کم سنی کی بنا پر بارہا دشمنوں نے آپ کو آزمایا لیکن ہر مرتبہ انہیں شکست فاحش کا سامنا کرنا پڑا۔
غیب کی خبریں اور معجزات:
امام رضاؑ کی شہادت کے بعد مختلف شہروں سے علماء اور دانش مند حج کرنے کے لئے مکّہ روانہ ہوئے۔ اپنے سفر کے دوران مدینہ بھی گئے تاکہ امامؑ کی زیارت بھی کرلیں۔ ان لوگوں نے امام صادقؑ کے ایک خالی گھر میں قیام کیا۔ امام جوادؑ جو اس وقت کم سن تھے ان کی بزم میں تشریف لائے۔ "موفق " نامی شخص نے لوگوں سے آپ کا تعارف کرایا، (اس واقعہ سے ہر ایک کو آپ کی امامت کا مزید یقین ہو گیا) ہر ایک خوش حال تھا ، سب نے ہر ایک کی تعظیم کی اور آپ کے لئے دعائیں کیں۔ ان میں سے ایک شخص "اسحاق" بھی تھا، جس کا کہنا ہے کہ میں نے ایک خط میں سوال لکھ لئے تھے کہ موقع ملنے پر حضرت سے اس کا جواب چاہوں گا، اگر انہوں نے تمام کا جواب دے دیا تو اس وقت حضرت سے اس کا بات کا تقاضا کروں گا کہ وہ میرے حق میں یہ دعا فرمائیں کہ میری زوجہ کے حمل کو خدا فرزند قرار دے۔ نشست کافی طولانی ہو گئی، لوگ مسلسل آپ سے سوال کررہے تھے اور آپ ہر ایک کا جواب دے رہے تھے۔ یہ سوچ کر میں اٹھا کہ خط کل حضرت کی خدمت میں پیش کروں گا۔ امام کی نظر جیسے ہی مجھ پر پڑی ارشاد فرمایا :۔ : اسحاق خدا نے میری دعا قبول کرلی ہے۔ اپنے فرزند کا نام " احمد " رکھنا۔
سازشی اور سیاسی شادی:
امام رضاؑ کےزمانے میں سماج میں جو افراتفری پھیلی ہوئی تھی، علویین بھی بر پا کر رہے تھے۔ ان چیزوں سے نجات حاصل کرنے کے لئے مامون عباسی نے شیعوں اور ایرانیوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے اپنے آپ کو اہلبیتؑ کا دوست ظاہر کرنا شروع کردیا۔ امام رضاؑ کو زبردستی ولی عہد بنا کر اپنی ظاہر داری کو اور مستحکم کرنا چاہا ور امام کی نقل و حرکت کو زیر نظر رکھا۔ دوسری طرف مامون کے خاندان والے مامون کے اس اقدام سے خوش نہیں تھے وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اس طرح مامون خلافت کو بنی عباس سے علویوں میں منتقل کرنا چاہتا ہے، اس لئے بنی عباس مامون کے اس اقدام سے کافی ناراض تھے اور انہوں نے مامون کی مخالفت بھی شروع کردی لیکن جب مامون نے امام رضاؑ کو شہید کردیا تو بنی عباس خاموش ہوگئے اور مامون کے اس عمل سے کافی خوش ہوگئے اور اس کے نزدیک آگئے۔
مامون نے امام رضاؑ کو بہت ہی پوشیدہ طریقے سے زہر دیا تھا اور یہ کوشش کر رہا تھا کہ یہ بات پھیلنے نہ پائے، اپنے جرم پر پردہ ڈالنے کے لئے خود کو عزادار ظاہر کیا۔ یہاں تک کہ تین دن تک امام کے گھر پر ٹھہرا رہا اور نمک روٹی کھاتا رہا۔ ان تمام کوششوں کے با وجود علویوں پر حقیقت واضح ہو گئ کہ امام کا قاتل مامون کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔ اس بات نے علویوں کو سخت رنجیدہ کیا اور ان کو انتقام لینے پر آمادہ کردیا۔ مامون کو پھر اپنا تخت و تاج خطرے میں نظر آیا اور اس نے تخت و تاج کی حفاظت کی خاطر ایک اور چال چلی۔ امام جوادؑ سے بہت زیادہ محبت اور عقیدت کا اظہار کرنے لگا اور زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے اپنی بیٹی کو امام جوادؑ کے عقد میں دے دیا اور یہ کوشش کرنے لگا کہ اس چال سے بھی وہی فائدہ اٹھائے جو وہ امام رضاؑ کو زبردستی ولی عہد بنا کر اٹھانا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے مامون نے 204 ھ یعنی امام رضاؑ کی شہادت کے ایک سال بعد امام جوادؑ کو بغداد بلایا اور اپنی لاڈلی بیٹی“ ام الفضل” کی شادی آپ کے ساتھ کردی۔
“ریان بن شبیب” کا بیان ہے کہ جب عباسیوں کو مامون کے اس ارادے کی خبر ملی کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی امام جوادؑ سے کرنا چاہتا ہے۔ یہ سن کر ان کو یہ خطرہ لاحق ہو گیا کہ حکومت بنی عباس کے خاندان سے منتقل ہونا چاہتی ہے۔ اس لئے وہ سب مامون کے پاس گئے۔ اس کی ملامت کی اور یہ قسم دلائی کہ وہ اپنا ارادہ بدل دے اور کہنے لگے : “اس عرصہ میں جو واقعات بنی عباس اور علویوں کے درمیان رونما ہوئے ہیں اس سے تم واقف ہو، تم سے پہلے خلفاء علویوں کو شہر بدر کیا کرتے تھے، انہیں ذلیل کرتے تھے۔ جس وقت تم نے ولی عہدی کا عہدہ " رضا " کے سپرد کیا ہمیں اس وقت بھی تشویش تھی لیکن خدا نے وہ مشکل حل کردی۔ ہم تمہیں قسم دیتے ہیں اب دوبارہ ہمیں رنجیدہ نہ کرو اور یہ رشتہ نہ کرو، اپنی بیٹی کی شادی بنی عباس کے کسی نمایاں فرد سے کردو”۔ مامون نے جواب دیا : “تمہارے اور علویوں کے درمیان جو حادثات پیش آئے تم ہی اس کا سبب تھے، اگر انصاف سے دیکھو وہ تم سے زیادہ حق دار ہیں میرے پہلے کے خلفا نے جو روش اختیار کی تھی وہ قطع رحم کی تھی میں اس طرز سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔ میں “رضا” کی ولی عہدی کے بارے میں بھی شرمندہ نہیں ہوں، میں نے تو انہیں خلافت قبول کرنے کی پیش کش کی تھی، لیکن خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ انہوں نے قبول نہیں فرمایا۔ ابو جعفر محمد بن علی (حضرت امام جوادؑ) کے بارے میں اتنا کہوں گا، میں نے ان کو شادی کے لئے اس لئے منتخب کیا ہے کہ اس کم سنی میں بھی انہیں تمام علما اور دانش مندوں پر فوقیت حاصل ہے۔ یہ چیز اگرچہ تعجب کا سبب ہے مگر یہ حقیقت جس طرح میرے لئے واضح ہو گئ ہے امید کرتا ہوں کہ دوسروں کے لئے بھی روشن ہوجائے گی تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ میرا انتخاب کتنا صحیح ہے "۔ خاندان والوں نے کہا : " یہ نوجوان اگرچہ تمارے لئے بہت زیادہ تعجب خیز ہے لیکن ابھی کم سن ہے، اس نے ابھی علم و فن ہی کیا حاصل کیا ہے۔؟ صبر کرو تا کہ یہ کچھ سیکھ لے، علم و ادب سے واقف ہو جائے۔ اس وقت تم اپنے ارادے پر عمل کرنا”۔ مامون نے کہا : “وائے ہو تم پر، میں اس جوان کو تم سے بہتر جانتا ہوں۔ وہ اس خاندان سے تعلق رکھتا ہے جہان علم خدادادی ہے۔ انہیں سیکھنے کی کو ئی ضروت نہیں ہے۔ ان کے آباء و اجداد علم وادب میں ہمیشہ تمام لوگوں سے مستغنی رہے ہیں۔اگر چاہتے ہو تو امتحان کر لو تاکہ جو کچھ میں نے کہا ہے وہ واضح ہو جائے”۔ کہنے لگے، یہ تو بڑی اچھی پیش کش ہے۔ ہم اسے آزمائیں گے، ہم تمہارے سامنے اس سے ایک فقہی مسئلہ دریافت کریں گے، اگر صحیح جواب دے دیا تو ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا اور ہم سب پر تمہارے انتخاب کی حقیقت آسان ہو جائے گی ورنہ تمہیں اس رشتہ سے صرف نظر کرنا ہو گا۔ مامون نے کہا۔ جب چاہو امتحان کر لو۔
عباسیوں نے اس وقت کے قاضی القضاۃ، نامی گرامی مشہور زمانہ قاضی یحیی بن اکثم کی طرف رجوع کیا اور اس سے بہت زیادہ انعام و اکرام کا وعدہ کیا تاکہ وہ امام جواد سے ایک مسئلہ پوچھے جس کا وہ جواب نہ دے سکیں۔ یحیی نےیہ بات قبول کر لی۔ یہ سب لوگ مامون کے پاس آئے اور کہا۔ تم ہی کوئی دن معین کرو، مامون نے دن معین کردیا۔ اس روز ہر ایک وہاں پہونچ گیا۔ مامون نے حکم دیا کہ مجلس کے بالائی حصہ میں امام جواد کے لئے جگہ بنائی جائے۔ امام تشریف لائے اور معین جگہ پر بیٹھ گئے۔ آپ کے سامنے یحیی بن اکثم نے جگہ پائی۔ ہر ایک اپنی اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ مامون امام کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ یحیی بن اکثم نے مامون سے کہا : مجھے اجازت ہے کہ میں ابو جعفر سے ایک سوال کروں ؟ مامون نے کہا : خود ان سے اجازت طلب کرو ۔ یحیی نے امام کی طرف رخ کرکے کہا : آپ پر فدا ہوجاؤں؛ کیا مجھے ایک سوال کرنے کی اجازت ہے؟ امام نے فرمایا : اگر چاہتے تو ضرور سوال کرو۔
یحییٰ نے کہا :۔ میں آپ پر قربان ہو جاوں، جو شخص احرام کی حالت میں شکار کرے اس کا کیا حکم ہے ؟ امام نے فرمایا :۔ اس مسئلہ کی متعدد صورتیں ہیں۔ حرم میں شکار کیا تھا، یا حرم کے باہر، اس کو شکار کی حرمت کا علم تھا یا نہیں، جان بوجھ کر شکار کیا تھا یا بھولے سے، شکار کرنے والا غلام تھا، یا آزاد۔ کم سن تھا یا بالغ۔ پہلی مرتبہ شکار کیا تھا دوسری مرتبہ۔ شکار پرندہ تھا یا کوئی اور چیز، شکار چھوٹا تھا یا بڑا، شکار کرنے والا اپنے اس عمل پر نادم تھا یا دوبارہ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا، شکار دن میں کیا تھا، یا رات میں، احرام عمرہ کا تھا یا حج کا ؟
امام کی یہ عالمانہ وضاحت دیکھ کر یحیی بالکل حیران رہ گیا۔ شکست اور عاجزی کے آثار اس کے چہرے پر نمایاں ہو گئے۔ زبان لکنت کرنے لگی۔ یہاں تک کہ ہر ایک پر یحیی کی یہ حالت واضح ہو گئ۔ مامون نے کہا : میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرا انتحاب صحیح نکلا۔ عباسیوں کی طرف رخ کرکے کہنے لگا۔ تم لوگ جس چیز کا انکار کر رہے تھے وہ تمہیں معلوم ہوگئ۔ ؟
اسی مجلس میں مامون نے اپنی بیٹی کی شادی کی پیش کش کی اور امام سے خطبہ پڑھنے کی درخواست کی۔ امام نے قبول کیا جو کتابوں میں موجود ہے۔ امام خطبہ عقد پڑھنے کے بعد، جناب فاطمہ زہرا کے مہر کے مطابق 500 درہم مہر قرار دیتے ہوئے اپنی مرضی ظاہر کی۔ لڑکی کی طرف سے خود مامون نے عقد پڑھا اور امام نے خود قبول فرمایا۔ مامون کے حکم سے حاضرین کو بیش بہا تحفے پیش کئے گئے، دسترخوان لگایا گیا اور لوگ کھانا کھا کر چلے گئے۔ صرف مامون کے قریبی اور درباری رہ گئے۔ اس وقت مامون نے امام سے یہ درخواست کی کہ سوال کے سلسلے میں جو صورتیں آپ نے بیان فرمائی تھیں ان کا جواب مرحمت فرمائیں، امام نے تفصیل سے ہر ایک کا جواب مرحمت فرمایا ----- ( یہ جواب تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے)۔ جواب سن کر مامون نے امام کی تعریف کی اور یہ تقاضا کیا کہ آپ بھی یحیی بن اکثم سے کوئی سوال پوچھیں۔ امام نے یحیی کی طرف رخ کرکے فرمایا :- کیا میں سوال کرسکتا ہوں۔؟ یحیی جو شکست کھا چکا تھا اور امامؑ کی علمیت سے مرعوب ہو گیا تھا، کہنے لگا : آپ پر قربان ہوجاؤں جیسے آپ کی مرضی ہو، اگر علم ہو گا تو جواب دوں گا ورنہ خود آپ سے استفادہ کروں گا۔ امام ؑنے فرمایا : ایک مرد نے صبح کو ایک عورت پر نگاہ کی جبکہ نگاہ کرنا حرام تھا اور جب سورج نکل آیا تو یہ عورت اس کے لئے حلال ہو گئی۔ ظہر کے وقت پھر حرام ہوگئی، جب عصر کا وقت آیا تو حلال ہو گئی۔ غروب آفتاب کے وقت پھر حرام ہو گئی۔ جب عشاء کا وقت آیا تو حلال ہوگئی۔ نصف شب کو پھر حرام ہو گئی اور جب صبح ہوئی تو پھر حلال ہو گئی۔ بتاؤ اس کی وجہ کیا ہے یہ عورت بعض وقت کیوں حلال ہو جاتی تھی۔؟
یحیی نے کہا : خدا کی قسم مجھے اس کا سبب نہیں معلوم اگر آپ بیان فرمائیں تو میں استفادہ کروں گا۔ امامؑ نے فرمایا : “وہ عورت ایک شخص کی کنیز تھی، ایک نامحرم مرد نے صبح اس پر نگاہ کی جبکہ یہ نگاہ حرام تھی۔ جب سورج نکل آیا تو اس نے یہ کنیز اس کے مالک سے خریدلی، اس وقت اس کے لئے حلال ہو گئی، ظہر کے وقت اس نے کنیز کو آزاد کردیا تو اس پر حرام ہو گئی۔ عصر کے وقت اس نے اس سے نکاح کر لیا، اب پھر اس پر حلال ہوگئی۔ غروب آفتاب کے وقت اس نے “ظہار” کیا تو اس پر حرام ہو گئی عشاء کے وقت اس نے ظہار کا کفارہ دے دیا تو پھر اس پر حلال ہو گئی، نصف شب کو اس کو طلاق دے دیا تو اس پر حرام ہو گئی۔ جب صبح ہوئی تو اس نے رجوع کرلیا تو پھر اس پر حلال ہو گئی۔ مامون نے تعجب سے اپنے خاندان والوں کو دیکھا اور ان کو مخاطب کرکے کہا۔ کیا تم میں ایسا ہے کوئی جو اس مسئلہ کا جواب دے یا پہلے سوال کا جواب جانتا ہو؟ سب نے کہا : بخدا کوئی نہیں ہے ۔
البتہ یہ بات قابل توجہ ہے کہ مامون کی تمام ظاہری، فریب کاری، عیاری اور مکاری اس رشتہ کے بارے میں صرف اس لئے تھی کہ اس شادی سے اس کا مقصد سیاست کے علاوہ کچھ اور نہ تھا اور وہ اس شادی سے کئی ایک مقاصد حاصل کرنا چاہتا تھا :
1۔ امام کے گھر میں اپنی بیٹی بھیج کر امامؑ کی نقل وحرکت پر نگاہ رکھنا چاہتا تھا ( اس سلسلے میں مامون کی بیٹی نے اپنی ذمّہ داری کو خوب نبھایا، وہ برابر جاسوسی کیا کرتی تھی، تاریخ اس حقیقت پر مکمل گواہ ہے)۔
2۔اس رشتہ سے مامون کا مقصد یہ تھا کہ اس طرح امامؑ کو اپنے عیش و نوش میں شامل کرے اور انہیں اپنے کھیل کود اوراپنے گناہوں میں شریک کرے اور اس طرح امامؑ کی عظمت، بزرگی کو داغدار کرے اور امامت کی بلند وبالا منزلت کو لوگوں کی نگاہوں سے گرا دے۔
“محمد بن ریان” کا کہنا ہے، کہ مامون امام جوادؑ کو جتنا لہو و لعب کی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا تھا اتنی ہی اسے ناکامی ہوتی تھی۔ امامؑ کی شادی کے موقع پر مامون نے ایک سو خوبصورت کنیزوں ( جن میں ہر ایک بہترین لباس میں ملبوس تھی اور ہر ایک کے ہاتھ میں جواہرات سے لدا ہوا طشت تھا) کو اس بات پر آمادہ کیا کہ جب امامؑ تشریف لائیں تو یہ کنیزیں ان کا استقبال کریں۔ کنیزوں نے مامون کی ہدایت پر عمل کیا۔ لیکن امام نے ان کی طرح رخ ہی نہیں کیا اور عمل سے بتا دیا کہ ہم ان چیزوں سے بہت دور ہیں۔ اسی جشن میں ایک مغنّی کو گانے بجانے کےلئے مدعو کیا گیا تھا۔ جیسے ہی اس نے گانا بجانا شروع کیا، امامؑ نے بلند آواز میں فرمایا: “خدا سے ڈرو”۔ امام کے جملے سے وہ اتنا زیادہ مرعوب ہوا کہ موسیقی کا آلہ اس کے ہاتھ سے گرگیا اور جب تک زندہ رہا پھر کبھی گانا بجا نہ سکا۔
3۔ جیسا کہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ اس رشتہ سے مامون کا مقصد یہ بھی تھا کہ وہ علویوں کو ان کے قیام وانقلاب سے روک سکے اور اپنے آپ کو خاندان اہلبیت کا دوست اور چاہنے والا ظاہر کر سکے۔
4۔ عوام فریبی، مامون بسا اوقات کہا کرتا تھا کہ میں نے یہ رشتہ اس لئے کیا ہے تاکہ امام کی نسل سے میرا ایک نواسہ ہو اور میں پیغمبر اور علی کے خاندان کی ایک فرد کا نانا کہلاؤں۔ لیکن خوش قسمتی سے مامون کی یہ آرزو پوری نہ ہوئی کیونکہ مامون کی بیٹی سے کوئی اولاد ہی نہیں ہوئی۔ امام جوادؑ کی تمام اولاد، جناب امام علی نقیؑ، موسی مبرقع، حسین عمران، فاطمہ، خدیجہ، ام کلثوم، حکیمہ۔ یہ سب اولادیں امام جوادؑ کی دوسری زوجہ سے ہیں، جن کا نام “سمانہ مغربیہ” تھا۔ ان تمام باتوں کے علاوہ مامون نے صرف سیاسی مقاصد کے لئے اس رشتہ پر اتنا زور دیا تھا یہ رشتہ گر چہ دنیاوی آسائشوں سے بھر پور تھا لیکن امامؑ اپنے آباء و اجداد کی طرح دنیا کی رنگینیوں سے بالکل بیزار تھے بلکہ مامون کے ساتھ زندگی بسر کرنا امام کے لئے سخت ناگوار تھا۔
“حسین مکاری” کا بیان ہے کہ میں بغداد میں امام جوادؑ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جب میں نے امام کے رہن سہن کو دیکھا تو میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ “اتنی آسائشوں کے ہوتے ہوئے امام مدینہ واپس نہیں جائیں گے”۔ امامؑ نے تھوڑی دیر کے لئے سر جھکایا اور جب آپ کا چہرہ رنج وغم سے زرد تھا، آپ نے فرمایا : اے حسین! رسول خدا کے حرم میں جو کی روٹی اور نمک مجھے اس زندگی سے کہیں زیادہ پسند ہے ۔ اسی لئے امامؑ زیادہ دن بغداد میں نہ رہے اور اپنی زوجہ “ام الفضل” کو لے کر مدینہ واپس آگئے اور 220ھ تک مدینہ میں رہے۔ 218 ھ میں مامون کو موت اپنے ساتھ لے گئ، اس کے بعد مامون کا بھائی معتصم اس کا جانشین ہوا، 220 ھ میں معتصم نے امام کو بغداد بلایا تاکہ نزدیک سے آپ پر نظر رکھ سکے۔
چور کا ہاتھ کاٹے جانے کا واقعہ جو کتابوں میں موجود ہے کہ اس موقع پر امام کو بھی شریک کیا گیا تھا اور اس وقت قاضی بغداد “ابن ابی داؤد” اور دوسروں کو شرمندگی برداشت کرنا پڑی تھی، اس واقعہ کے چند روز بعد ابن ابی داؤد کینہ و حسد سے بھرا ہوا معتصم کے پاس پہنچا اور کہا : تمہاری بھلائی کے لئے ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ چند روز پہلے جو واقعہ پیش آیا ہے وہ تمہاری حکومت کے حق میں نہیں ہے کیونکہ تم نے بھری بزم میں ؛ جس میں بڑے بڑے علماء اور ملک کی اعلی شخصیات موجود تھیں، ابو جعفر (امام جوادؑ) کے فتوے کو ہر ایک پر فوقیت دی۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ملک کے آدھے عوام انہیں خلافت کا صحیح حقدار اور تمہیں غاصب سمجھتے ہیں۔ یہ خبر عوام میں پھیل گئی ہے اور شیعون کو ایک مضبوط دلیل مل گئی ہے۔ معتصم، جس میں دشمنی امامؑ کے تمام جراثیم موجود تھے، یہ سن کر بھڑک اٹھا اور امامؑ کے قتل کے درپے ہوگیا، آخر کار اس نے اپنے ناپاک ارادے کو مکمل کر دکھایا، ذیقعدہ کی آخری تاریخ تھی کہ اس نے امامؑ کو زہر دے کر شہید کردیا۔ آپ کا جسد اطہر آپ کے جد بزرگوار حضرت امام موسی کاظمؑ کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔ درود ہو ان پر اور ان کے طیب و طاہر آبا و اجداد پر۔
امام کے شاگرد :
پیغمبر اسلام ؐ کی طرح ہمارے ائمہؑ بھی لوگوں کی تعلیم و تربیت میں ہمیشہ کوشاں رہتے تھے۔ ائمہؑ کے طریقہ تعلیم و تربیت کو تعلیمی و تربیتی اداروں کی سرگرمیوں پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے۔ تعلیمی ادارے خاص اوقات میں تعلیم دیتے ہیں اور بقیہ اوقات معطل رہتے ہیں لیکن ائمہؑ کی تعلیم و تربیت کے لئے کوئی خاص وقت معین نہیں تھا۔ ائمہؑ مسلسل لوگوں کی تعلیم و تربیت میں مصروف رہتے تھے۔ ائمہؑ کی زندگی کا ہر گوشہ، ان کی رفتار و گفتار عوام کی تربیت کا بہترین ذریعہ تھی۔ جب بھی کوئی ملاقات کا شرف حاصل کرتا تھا وہ ائمہ کے کردار سے استفادہ کرتا تھا اور مجلس سے کچھ نہ کچھ لے کر اٹھتا تھا، اگر کوئی سوال کرنا چاہتا تھا تو اس کو اس کا جواب دیا جاتا تھا۔ امام جوادؑ نے اپنی مختصر سی زندگی میں بہت سے شاگردوں کو تربیت دی۔ ان میں سے نمایاں شاگردں کا نام مندرجہ ذیل ہے:
1۔ علی بن مہزیار
2۔ احمد بن محمد ابی نصر بزنطی
3۔ زکریا بن آدم
4۔ محّمد بن اسماعیل بن بزیع
اقوال امام :
ائمہؑ کے اقوال آفتاب کی شعاعیں ہیں جو بندگان خدا کے لئے ہدایت اور مشعل راہ ہیں کیونکہ یہ افراد ہر طرح کی لغزش سے پاک و پاکیزہ ہے، ان کی ہدایات صرف ایک پہلو کو لئے ہوئے نہیں ہیں بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو لئے ہوئے ہیں۔ ان کا تعلق کسی خاص فرقے سے بھی نہیں ہے بلکہ ہر فرقے و طبقے کے لئے ہے۔ تمام انسانوں کو کمال مطلق کی طرف ہدایت کرتے ہیں، ہم یہاں نویں امام حضرت امام محمد تقی ؑ جواد الائمہ کے چند اقوال برادران اہلسنت کی کتابوں سے نقل کرتے ہیں، اس امید کے ساتھ کہ ہم اس سے استفادہ کر سکیں اور ان اقوال کو اپنی زندگی کے لئے مشعلِ راہ قرار دے سکیں:
1۔ “من استغی باللہ افتقر الناس الیہ و من اتقی اللہ احبہ الناس”۔
جو شخص خدا پر بھروسہ رکھتا ہے لوگ اپنی حاجتیں اس سے طلب کرتے ہیں اور جو خدا سے ڈرتا ہے لوگ اسے دوست رکھتے ہیں۔
2۔ “من وعظ اخاہ سرَاً فقد زانہ ومن وعظہ علانیۃ فقد شانہ”۔
جو شخص اپنے برادر مومن کو مخفی طور پر نصیحت کرے اس نے اس کو زینت دی اور جو برادر مومن کو بھری بزم میں نصیحت کرے اس نے اس کی سماجی حیثیت کو داغدار کیا۔
3۔ “قال (علیہ السلام) فی جواب رجل قال لہ اوصنی بوصیہ جامعہ مختصرہ : صن نفسك عن عار العاجلہ و نار الاجلہ”۔
ایک شخص نے حضرت سے درخواست کی کہ ایک مختصر مگر جامع نصیحت فرمائیں۔ حضرت نے فرمایا : ایسے کاموں سے دور رہو جو دنیا میں ذلت اور آخرت میں آتش جہنم کا سبب ہوں ۔
سلام ہو اس امام پر جو کمسنی میں امامت کے عظیم منصب پر فائز ہوئے۔ سلام ہو اس امام پر جو جوانی میں آپ کو مظلومانہ شہید کیا گیا۔
آخر میں : خدا سے ہماری دعا ہے کہ اے پالنے والا ہمیں دنیا میں ان کے نقش قدم پر چلنے اور قیامت کے دن، ان کی شفاعت نصیب فرما، آمین
"فرمان علی سعیدی شگری"