۲ آذر ۱۴۰۳ |۲۰ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 22, 2024
امام محمد تقی علیہ السلام

حوزہ/امام محمد تقی علیہ السلام کی زندگی سیاسی وسماجی اعتبار سے نشیب وفراز سے بھری نظر آتی ہے،کیونکہ امام کے کاندھوں پر پوری دنیا کی ہدایت کا کام تھا۔جس کے لئے اپنے شیعوں سے رابطہ بھی برقرار رکھنا تھا۔

حوزہ نیوز ایجنسی | امام محمد تقی علیہ السلام کی زندگی سیاسی وسماجی اعتبار سے نشیب وفراز سے بھری نظر آتی ہے۔کیونکہ امام کے کاندھوں پر پوری دنیا کی ہدایت کا کام تھا۔جس کے لئے اپنے شیعوں سے رابطہ بھی برقرار رکھنا تھا، حکومت کے کہنے پر متعدد لوگوں سے مناظرہ بھی کرنا پڑااور اس زمانے میں جو متعدد فرقے عالم وجود میں آگئے تھے ان سے حقیقی اسلام کو محفوظ رکھنا بھی ایک بڑاکام تھا ۔ہم یہاں امام کی حیات طیبہ کے ان تمام پہلؤوں کو اجمالی صورت میں بیان کریں گے۔

تاریخ و سیرت کے مآخذ کے مطابق امام محمد تقی ؑ کے درباری علما اور فقہا سے کئی علمی مناظرے ہوئے جن میں ہمیشہ آپ کو غلبہ حاصل رہا۔ مثلا:

مامون کے دربار میں مناظرہ

جب مامون نے امام محمد تقیؑ سے اپنی بیٹی ام فضل کی شادی کا فیصلہ کیا تو بنی عباس کے بزرگوں نے اس فیصلے پر اعتراض کیا جس کے جواب میں مامون نے کہا تم ان (امام جواد) کا امتحان لے لو۔ انہوں نے قبول کیا اور دربار کے سب سے بڑے عالم اور فقیہ، یحیی بن اکثم کو امام جوادؑ کے ساتھ مناظرے کے لئے انتخاب کیا۔

مناظرے کا دن آن پہنچا۔ یحیی بن اکثم نے مناظرے کا آغاز کرتے ہوئے امام سے سوال کیا: اگر کوئی مُحرِم (وه شخص جو حج کے احرام کی حالت میں ہو) کسی حیوان کا شکار کرے تو حکم کیا ہوگا؟(۱)امامؑ نے اس مسئلے کی مختلف صورتیں بیان کیں اور ابن اکثم سے کہا: تم کونسی صورت کے بارے میں جاننا چاہتے ہو؟ یحیی جواب نہ دے سکا۔ اس کے بعد امامؑ نے محرم کے شکار کی مختلف صورتوں کے احکام الگ الگ بیان کئے تو تمام اہل دربار اور عباسی علما نے آپؑ کے علم کا اعتراف کیا اور مامون( جس پر اپنے انتخاب کے حوالے سے نشاط و سرور کی کیفیت طاری تھی ) نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہوا۔(۲)

خلفاء کے بارے میں مناظرہ

امام جوادؑ نے مامون عباسی کی موجودگی میں بعض فقہاء اور درباریوں کے ساتھ مناظرہ کیا اور ابوبکر اور عمر کے فضائل کے بارے میں یحیی بن اکثم کے سوالات کا جواب دیا۔ یحیی نے کہا: جبرائیل نے خدا کی طرف سے رسول اللہ(ص) سے کہا: "میں ابوبکر سے راضی ہوں؛ آپ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ مجھ سے راضی ہیں؟! امامؑ نے فرمایا: میں ابوبکر کے فضائل کا منکر نہیں ہوں لیکن جس نے یہ حدیث نقل کی ہے اسے رسول اللہ(ص) سے منقولہ دوسری حدیثوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔ اور وہ یہ کہ آپ(ص) نے فرمایا: جب میری جانب سے کوئی حدیث تم تک پہنچے تو اس کا کتاب اللہ اور میری سنت کے ساتھ موازنہ کرو اور اگر خدا کی کتاب اور میری سنت کے موافق نہ ہو تو اسے رد کرو؛ اور بے شک یہ حدیث قرآن کریم سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:

"وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِسورہ ق آیت 16۔ترجمہ: اور ہم نے پیدا کیا ہے آدمی کو اور ہم جانتے ہیں جو اس کے دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور ہم اس سے رگ گردن سے زیادہ قریب ہیں

تو کیا خداوند متعال کو علم نہ تھا کہ کیا ابوبکر اس سے راضی ہیں یا نہیں؟ چنانچہ تمہاری بات درست نہیں ہے۔(۳)

بعدازاں یحیی نے اس روایت کا حوالہ دیا کہ "أنّ مثل أبي بكر و عمر في الاَرض كمثل جبرئيل و ميكائيل في السماءترجمہ: بےشک روئے زمین پر ابوبکر اور عمر کی مثال، آسمان میں جبرائیل اور میکائیل کی مانند ہے۔(۴)امامؑ نے جواب دیا: اس روایت کا مضمون درست نہیں کیونکہ جبرائیل اور میکائیل ہمیشہ سے خدا کی بندگی میں مصروف رہے ہیں اور ایک لمحے کے لئے خطا اور اشتباہ کے مرتکب نہیں ہوئے جبکہ ابوبکر اور عمر قبل از اسلام برسوں تک مشرک تھے۔(۵)

چور کے ہاتھ کاٹنا

امام جوادؑ کے قیام بغداد کے دوران بعض واقعات پیش آئے جو لوگوں کے درمیان امامت کی منزلت سے آگہی کا سبب بنے۔ مثال کے طور پر چور کا ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں امامؑ کے فتوے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ فقہا کے درمیان اختلاف اس بات پر رونما ہوا کہ کیا چور کا ہاتھ کلائی سے کاٹنا چاہئے یا پھر کہنی سے!!! بعض فقہاء نے کلائی سے ہاتھ کاٹنے پر رائے دی اور بعض نے کہنی سے کاٹنے کے حکم کو اختیار کیا۔ عباسی خلیفہ معتصم نے اس سلسلے میں امام جوادؑ کی رائے پوچھی۔ امامؑ نے ابتدا میں معذرت کی لیکن معتصم نے اصرار کیا تو آپؑ نے فرمایا: "چور کے ہاتھ کی چار انگلیاں کاٹی جاتی ہیں۔ آپؑ نے اس فتوی کی دلیل بیان کرتے ہوئے آیت کریمہ کا حوالہ دیا جہاں ارشاد ہوا ہے:

"وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً۔(۶)ترجمہ: اور یہ کہ سجدے کے مقامات اللہ کے لئے مخصوص ہیں لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی کو خدا نہ کہو۔

معتصم کو امامؑ کا جواب پسند آیا اور چور کی انگلیاں کاٹ دی گئیں(۷)

اُس دور کے گمراہ فرقوں سے مقابلہ

• اہل حدیث

دوسرے ائمہؑ کی طرح امام جوادؑ کے زمانے میں مختلف قسم کے فرقے سرگرم عمل تھے اور معاشرے میں اپنے عقائد کی ترویج اور شیعیان اہل بیتؑ کو ان کے بنیادی عقائد سے دور اور منحرف کرنے کے لئے کوشاں تھے۔ ان ہی فرقوں میں سے ایک فرقہ اہل حدیث کہلاتا تھا جو مُجَسِّمہ(۸) تھے اور خدا کو جسم والاسمجھتے تھے۔ امام جوادؑ نے بنیادی اور خالص شیعہ عقائد کے تحفظ کی خاطر اپنے پیروکاروں کو ان سے رابطہ نہ رکھنے کی تلقین کی اور فرمایا: شیعہ نماز میں اس عقیدے کے حامل افراد کی اقتدا نہ کریں اورانہیں زکات نہ دیں۔(۹)

• واقفیہ

واقفیہ امام جوادؑ کے دور کے فعال فرقوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس فرقے کے پیروکاروں نے امام موسی بن جعفرؑ کی امامت پر توقف کیا اور امام رضاؑ کی امامت کو تسلیم نہ کیا۔ امام جواد علیہ السلام سے واقفیہ کی امامت میں نماز جماعت بجا لانے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے شیعیان اہل بیتؑ کو ایسا کرنے سے منع کیا۔(۱۰)

• زیدیہ

امام جوادؑ کے دور میں سرگرم دوسرے گروہوں میں زیدیہ نامی فرقہ تھا جو شیعیان اثنا عشری سے جدا ہوئے تھے۔ زیدیہ کی ائمہؑ سے دشمنی بہت شدید تھی اور وہ ائمۂ اہل بیتؑ پر طعن کرتے تھے جس کی وجہ سے ائمہؑ اور بطور خاص امام جوادؑ نے ان کے خلاف شدید موقف اپنایا اور آپؑ انہیں سورہ غاشیہ کی ذیل کی آیات کریمہ کا مصداق اور نواصب کے ہم معنی سمجھتے ہیں:

"وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ (2) عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ (3) تَصْلَى نَاراً حَامِيَةً (4)(ترجمہ: اس دن کچھ چہرے تذلل کا منظر پیش کرنے والے ہوں گے (2) بہت کام کیے ہوئے بڑی محنت ومشقت اٹھائے ہوئے ہیں (مگر بے سود) (3) وہ گرمی اٹھا رہے ہوں گے آگ کی (۱۱)

شیعیانِ اہل بیتؑ سے رابطہ

امام جوادؑ نے دنیائے اسلام کے مختلف علاقوں میں کو معین کر رکھا تھا اور ان کے توسط سے شیعیان اہل بیتؑ سے رابطے میں تھے۔ 

آپؑ اپنے محبین اور پیروکاروں کے ساتھ براہ راست رابطے میں نہ تھے اور کیوں اس رابطے کو وکیلوں کے ذریعے سے برقرار رکھتے تھے؟ اس کی کئی وجوہات بیان ہوئی ہیں؛ جن میں سے ایک وجہ یہ تھی کہ امام ؑحکومت وقت کے زیر نگرانی تھے اور دوسری یہ کہ آپؑ لوگوں کو غیبت امام زمانہ(عج) کے لئے تیار کررہے تھے چنانچہ یہ سلسلہ امام ہادیؑ اور امام عسکریؑ کے زمانے میں جاری رہا]۔

امامؑ نے بغداد، کوفہ، اہواز، بصرہ، ہمدان، قم، رے، سیستان اور بُست سمیت مختلف علاقوں میں مستقل نمائندے اور وکلاء مقرر کئے تھے۔(۱۲)

نیز امامؑ وکلا کے علاوہ خط و کتابت کے ذریعے بھی اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں تھے (رجوع کریں: توقیع) آپؑ سے ہم تک پہنچنے والے بہت سے معارف و مباحث آپؑ کے بھیجے گئے خطوط میں درج ہیں جنہیں آپ نے اپنے شیعوں کیلئے لکھا۔(۱۳ شیعہ اپنے سوالات خط و کتابت کے ذریعے بھجواتے تھے اور آپؑ ان کا جواب دیتے تھے جن میں سے اکثر کا تعلق فقہی مسائل سے ہوتا تھا ۔ زیادہ تر خطوط میں بھیجنے والوں کے نام درج ہیں۔(۱۴) بعض مراسلات میں ارسال کنندگان کے نام واضح نہیں ہیں۔(۱۵)

موسوعۃ ‌الامام ‌الجواد،(۱۶) میں امامؑ کے والد اور فرزند کے علاوہ 63 افراد کے نام حدیث و رجال کے مآخذ سے اکٹھے کئے گئے ہیں جن کا خط و کتابت کے ذریعے امامؑ کے ساتھ رابطہ رہتا تھا۔ البتہ امامؑ نے بعض خطوط اپنے پیروکاروں کے ایک گروہ کے نام تحریر فرمائے ہیں۔(۱۷)

حضرت جوادؑ نے ہمدان اور بست سمیت بہت سے شہروں میں اپنے کارگزاروں کے نام متعدد مراسلات لکھے اور بعض ایرانی شیعہ بھی مدینہ جاکر آپؑ سے ملے۔ یہ ملاقاتیں ان ملاقاتوں کے علاوہ تھیں جو ایام حج میں امامؑ اور شیعیان اہل بیتؑ کے درمیان انجام پاتی تھیں۔(۱۸)

تحریر: مولانا محمد رضا،مبلغ جامعہ امامیہ لکھنؤ

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
..............

حوالہ:

1. |یحیی بن اکثم سے امام جواد (علیہ السلام) کا مناظرہ۔

2. طبرسی، احتجاج، ص443و444۔ مسعودی، اثبات الوصیۃ للامام علی بن ابی طالب علیہ السلام، صص 189-191۔

3. طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔

4. سيوطی، الدر المنثور ج4 ص107۔ كنز العمال ج11 ص569 ح32695۔ ابو نعیم اصفہاني، حليۃ الاَولياء، ج4 ص304 اصبہانی یا اصفہانی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غیر مانوس اور غريب ہے اور اس کا واحد راوی رباح ہے جس نے اسے ابن عجلان سے نقل کیا ہے۔

5. طبرسی، احتجاج، ج2، ص478۔ مناظرے کی تفصیل کے لئے رجوع کریں:| امام محمد تقی (علیہ السلام) اور جعلی احادیث کا مقابلہ۔

6. سوره جن، آیت 18۔

7. عیاشی، کتاب التفسیر، ج1،صص 319و320۔ مجلسی، بحار الانوار،ج50، ص5و6۔

8. | آپ خود مکمل کریں؛ تجسیم و تشبیہ، ایک روداد۔

9. شیخ صدوق، التوحید، ص101۔

10. شیخ طوسی، من لایحضره الفقیہ، ج1، ص379: "أيجوز - جعلت فداك الصلاة خلف من وقف على أبيك وجدك عليهما السلام؟ فأجاب لا تصل وراءه"۔

11. طوسی، اختیارمعرفۃ الرجال، ص229۔

12. جاسم، حسین، تاریخ سیاسی غیبت امام دوازدہم، ص79۔

13. ر.ک: جعفریان‌، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، ص‌489۔

14. رجوع کریں: كلینی‌، ج‌3، ص‌399، ج‌4، ص‌275، 524، ج‌5، ص‌347۔ كشّی‌، الرجال، ص610- 611۔

15. موسوعہ الامام‌ الجواد، ج‌2، ص‌515 ـ 521۔

16. ج‌2، ص‌416ـ 508۔

17. كلینی‌، الکافی، ج‌3، ص331، 398، ج‌5، ص394‌، ج‌7، ص163‌۔ كشّی‌، رجال، ص‌606، 611۔

18. جعفریان، رسول، حیات فکری و سیاسی امامان شیعہ، صص492و 493۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .